تازہ تر ین

امریکی پسپائی اور نئی عالمی حکمتِ عملیاں

رانا زاہد اقبال
امریکی دنیا بھر کی طاقتوں کے ہمراہ دو دہائیوں تک افغانستان کے پہاڑوں سے سر پھوڑنے کے باوجود امریکی طالبان کو جھکا نہیں سکے اور افغان حکومت و دیگر اتحادی گروہوں اور طالبان کے مابین اقتدار کے کسی قابلِ عمل فارمولے پر پہنچے بغیر رات کی تاریکی میں افغان حکا م کو اعتماد میں لئے بغیر بگرام بیس خالی کر دی۔ خطے کی تبدیل ہوتی صورتحال کے تناظر میں پاکستانی منصوبہ سازوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ صرف طالبان پر تکیہ کرنے کی بجائے ایک متبادل حکمتِ عملی پر بھی توجہ دیں تا کہ اتحادی افواج کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد خطے کی مجموعی صورتحال میں پاکستان کے کردار کا از سرِ نو تعین کیا جا سکے۔ بھارت کی مسلسل یہ کوشش رہی ہے کہ وہ جس قدر ممکن ہو سکے افغانستان میں پاکستانی اثر و نفوذ کو کم کر ے اور اس خطے میں اپنی سیاسی اور معاشی برتری قائم کرے۔ بھارت کی خواہش تو یہ تھی کہ امریکہ افغانستان میں اس حد تک کمزور نہ ہو کہ اسے یہاں سے اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑے۔ اسے اندازہ ہے کہ جونہی امریکہ افغانستان سے رخصت ہو گا وہاں بھارت کے اثر و رسوخ میں کمی واقع ہو جائے گی۔ دوسری جانب چین بھی اس خطے میں فعال کردار ادا کرنے کا خواہشمند ہے کیونکہ وہ وسطِ ایشیا کے توانائی کے ذخائر کو اپنی معاشی ترقی کے اہداف کے حصول کے لئے استعمال کرنے کے علاوہ افغانستان کو اپنی مصنوعات کی تجارت کے لئے راہداری کے طور پر استعمال کرنا اس کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں ایران اور روس بھی اپنے اثر و نفوذ میں اضافے کے خواہشمند ہیں۔ ترکی بھی اچانک میدان میں کود پڑا ہے اور وسطی ایشیائی ممالک میں دلچسپی بڑھا دی ہے جو پاکستان کا تو دوست ہے لیکن چین کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ ہیں، ان حالات میں خطے میں مفادات کے نئے ٹکراؤ کے امکانات بڑھتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔ اسی بناء پر مفادات کے حصول کے لئے یہ ممالک اپنی اپنی حکمتِ عملیاں اپنائیں گے جس کے نتیجے میں افغانستان آنے والے دنوں میں ایک خوفناک بحران میں مبتلا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ جس کے اثرات علاقائی ممالک پر پڑنے کے خطرات اپنی جگہ ہیں۔ ان حالات میں اگر پاکستان خطے میں جنم لینے والی نئی صورتحال سے چشم پوشی کرتے ہوئے ماضی کی رومانیت میں مبتلا رہتا ہے تو اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ بظاہر یہ بڑا مشکل نظر آ رہا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر طالبان کی مدد سے افغانستان پر اسٹرٹیجک بالادستی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
ادھر افغانستان سے بیرونی فوجیں نکل جانے کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے سامنے بنیادی چیلنج یہی ہو گا کہ وہ تاریخ دہرائے جانے کا سامان نہ کریں۔ ماضی میں کیا ہوا؟ اس سب سے قطع نظر اہم کام اپنے وطن اور عوام کا تحفظ ہے۔ فریقین کے لئے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر فیصلوں کا وقت آن پہنچا ہے۔ اس حوالے سے افغان اجتماعی دانش اور اہلِ سیاست کو بہت کچھ سوچنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کی جغرافیائی اہمیت اپنی جگہ لیکن امن کو اپنے فائدے میں کیسے استعمال کیا جائے؟ یہی افغان قیادت کی آزمائش ہے۔ وگرنہ جنگیں جیتنا اور کامیابیاں حاصل کرنا کوئی نئی بات نہیں ہیں، دنیا میں ہمیشہ سے ایسا ہوتا رہا ہے۔ انقلاب اور آزادی کی جد و جہد کے اختتام پر اصل آزمائش شروع ہوتی ہے۔ اب مقابل اپنے ہی لوگ ہوتے ہیں انہیں کیسے مطمئن کیا جائے۔ اب تمام نظریں طالبان اور حکومت پر ہیں کہ وہ کس طرح کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ افغان قوم کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی موقع میسر نہیں آ سکتا کہ وہ اپنے ہاں امن کا بول بالا کرے۔ افغان طالبان اور بالخصوص افغان حکومت کو فائدہ اٹھانا چاہئے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش نہیں کی جانی چاہئے۔ اسے دیکھنا چاہئے کہ وہ کون لوگ ہیں جن کا مفاد افغانستان میں قتل و غارت میں ہے۔ طالبان، حکومت اور دیگر سب کو اپنے ملک کو پر امن بنا کر اس میں سیاسی عمل کے اجراء کے لئے متحد ہونا ہو گا اسی میں سب کی بھلائی ہے۔ افغانستان میں مکمل قیامِ عمل سے افغانستان کا معاشی و اقتصادی استحکام ممکن ہو گا، افغانستان میں ترقی کی نئی راہیں ہموار ہوں گی، طالبان ماضی کی نسبت جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ایک ماڈریٹ قوت کے طور پر متعارف ہوں گے۔
(کالم نگارمختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain