وزیر احمد جوگیزئی
افغانستان کی صورتحال میں دن بدن تیزی کے ساتھ تبدیلیاں آرہی ہیں،ہردن کوئی نہ کوئی نئی پیشرفت ضرور ہوتی ہے،افغانستان کی صورتحال سے پاکستان کو بھی علیحدہ نہیں رکھا جاسکتا ہے۔کیونکہ اس صورتحال کے پاکستان پر بھی اثرات یقینا مرتب ہو ں گے اسی لیے اس مسئلہ پر جتنی بات کی جائے کم ہے افغانستان میں بڑھتی ہوئی خانہ جنگی کے اثرات پاکستان پر آنا شروع ہو بھی چکے ہیں۔پاکستان میں حالیہ دنوں میں دہشت گردی کی وارداتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔اور پاکستان کے سیکورٹی مسائل میں بھی اضافہ ہو تا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔دنیا کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ افغان طالبان ایک حقیقت ہیں ان کو افغان عوام کی ایک بڑی اکثریت سپورٹ کرتی ہے اور ان کو افغانستان میں آنا ہی آنا ہے۔کسی کو اچھا لگے یا نہ لگے طالبان ہی افغانستان میں اگلی حکومت بنائیں گے۔طالبان بھی 20سال قبل والے طالبان نہیں رہے ہیں،اس مرتبہ طالبان جنگ کے ساتھ ساتھ سفارت کاری بھی کررہے ہیں اور انہوں نے چین،روس اور ایران کے ساتھ مذاکرات بھی کیے ہیں۔طالبان کا سیاسی دفتر اتنے سالوں سے دوحا میں موجود ہے۔اس پر کبھی کسی کو اعتراض نہیں ہو ا ہے تو اب طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے یا ان کو تسلیم کرنے کے حوالے سے اعتراض کیوں کیا جا رہا ہے۔امریکہ کو اب افغانستان کی صورتحال میں دلچسپی نہیں رہی ہے،امریکہ تو ہا تھ جھاڑ کر اس خطے سے چلا ہی جائے گا لیکن افغانستان کی صورتحال کے اثرات اس خطے کے ممالک پر مرتب ہوں گے افغانستان کی صورتحال کو مل جل کر سنبھالنے کی ضرورت ہے۔خطے کے ممالک کو مل کر افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے کوششیں کرنی چاہیے،میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اب بھی دہراتا ہوں کہ اگر افغانستان کی مدد کرنی ہے تو طالبان کی مدد کی جائے۔
افغانستان میں تو طالبان کی پیش قدمی جاری ہے لیکن اس بار فرق یہ ہے کہ انہوں نے افغانستان کے جنوب کے ساتھ ساتھ شمالی علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔یہ امر طالبان کی حقیقی طاقت اور مسلسل بڑھتی ہوئی قوت کا مظہر ہے۔طالبان کو بھی اپنی گزشتہ غلطیوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے اور ان کو چاہیے کہ اس بار افغانستان میں امن اور استحکام کے وسیع تر مقاصد کو مد نظر رکھتے ہو ئے ازبک،تاجک اور ہزارہ کمیونٹی کے افراد کو بھی ساتھ لے کر چلیں۔یہ افغانستان میں امن کے لیے بہت اہم ہے،کیونکہ اگر کوئی بھی افغان گروپ افغانستان کی حکومت سے باہر ہو گا تو وہ بر سر اقتدار گروپ کے خلاف ہتھیار اٹھا لے گا اور افغانستان میں خانہ جنگی کا سلسلہ مسلسل طول پکڑتا جائے گا اور کبھی ختم نہ ہو گا۔افغانستان کو اس صورتحال سے نکالنے کے لیے تمام فریقین کو دانش مندانہ فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔طالبان کے آنے سے ہی افغانستان میں امن آئے گا،اور عالمی برادری کو بھی جلد یا بدیر ان کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔جب 90ء کی دہائی میں طالبان کی افغانستان میں حکومت آئی تھی تو اس وقت صرف تین ممالک،جن میں پاکستان،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل تھے نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا لیکن یہ میری پیشگوئی ہے کہ اس مرتبہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد بہت زیادہ ہو گی،حال ہی میں برطانوی وزیر دفاع نے بیان دیا ہے کہ اگر طالبان افغانستان میں حکومت قائم کرتے ہیں تو پاکستان ان کی حکومت کو تسلیم کرے گا۔ برطانوی وزیر دفاع کا یہ بیان آنے والے حالات کا اشارہ ہے لیکن محسوس ایسا ہو رہا ہے کہ افغان حکومت ابھی تک سامنے موجود حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور بلی کے سامنے کبوتر کی مانند آنکھیں بند کیے حقیقت سے نظریں چرا رہی ہے۔جوں جوں افغانستان میں صورتحال خراب ہو تی جارہی ہے اسی تیزی کے ساتھ افغان حکام کے پاکستان کے اوپر الزامات کا سلسلہ تیز ہو تا جا رہا ہے۔بظاہر ایسا ہی لگ رہا ہے کہ افغان حکام اپنی تمام کمزوریوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے پر بضد ہیں۔اور اس حوالے سے دن بدن ان کا پروپیگنڈا تیز تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔افغان نائب صدر امر اللہ صالح کی جانب سے پاک فضائیہ پر افغان طالبان کی مدد کرنے کے بے بنیاد الزامات اور اس کے بعد تاشقند میں افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے پاکستان پر افغانستان میں منفی کردار ادا کرنے کے الزامات اس بات کی واضح دلیل ہیں۔ اگرچہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر تو وزیر اعظم عمران خان اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے ان الزامات کا بھرپور جواب دے دیا ہے لیکن پاکستان کو اس حوالے سے ایک منظم ریسپانس دینے کے حوالے سے کام کرنا چاہیے،حالیہ دنوں میں لاہور میں ہونے والابم دھماکہ اور پھر داسوں میں چینی انجینئرز کی بس پر حملہ محض اتفاق نہیں ہے۔
پاکستان کو اس حوالے سے بھارت کو بھرپور انداز میں عالمی سطح پر بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے 70ہزا ر شہریوں اور 150ارب ڈالر کا نقصان کروایا ہے اور اب کسی صورت پاکستا ن کو افغانستان اور ہندوستان کی جانب سے الزامات کی یک طرفہ بوچھاڑ برداشت نہیں کرنی چاہیے۔یہاں پر میں یہ بھی کہنا چاہوں گا گو کہ میں نے بھی وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے امریکہ کو اڈے دینے سے صاف انکار کے معاملے پر ان کی تعریف کی تھی لیکن،وزیر اعظم بہر حال ملک کے وزیر اعظم ہیں ان کو سفارتی انداز میں ممالک کے ساتھ ڈیل کرنا چاہیے۔امریکہ کو کرنی تو نہ ہی تھی لیکن سفارتی انداز میں بھی کی جا سکتی تھی۔یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ امریکہ اور یورپ کی پاکستان کو ضرورت ہے پاکستان کی برآمدات کا ایک بہت بڑا حصہ امریکہ اور یورپ ہی جاتا ہے اور اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی بھی امریکہ اور یورپ میں مقیم ہیں جو کہ ملک کو اربوں ڈالر کی ترسیلات زر بھی بھیجتے ہیں۔ وزیر اعظم جس انداز میں اپنے سیاسی مخالفین کو دھتکارتے ہیں اسی انداز میں دیگر ممالک کے ساتھ بات نہیں کی جانی چاہیے،پاکستان کو اپنے خارجہ امور میں بیلنسڈ پالیسی کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭