خدا یار خان چنڑ
”زراعت ملکی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے“، ”زرعی ترقی اقتصادی ترقی کی ضامن“ یہ اور اس جیسے کئی دیگر نعرے ہم بچپن سے ہی سنتے آ رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار زراعت پر ہے۔اس شعبہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ زراعت سے متعلقہ بنی ہوئی مصنوعات کا حجم ملکی آمدنی میں 80 فیصد ہے جبکہ ملکی شرح نمو میں زارعت کا حصہ تقریباً 21 فیصد اور 50 فیصد سے زائد لوگوں کا روزگار بھی اس سے وابستہ ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ہمارے حکمرانوں کو اس شعبہ کی طرف بطور خاص توجہ دینی چاہئے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر آنیوالا حکمران زرعی شعبہ کی بہتری اور کسان کی خوشحالی کی بات تو کرتا ہے لیکن اس کیلئے عملی اقدامات نہ اٹھانے کے برابر ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں فوجی ڈکٹیٹروں نے بھی حکومت کی جبکہ تاجر، بیوروکریٹ اور صنعتکار بھی یہاں حکمران رہے۔ چونکہ یہ طبقات کسان کی مشکلات سے عملی طور پر آگاہ نہیں تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج کا کسان بڑی مشکلات کا شکار ہو چکا ہے۔ماضی میں زرعی شعبہ میں بہتری لانے کی حکومتی پالیسیاں صرف کاغذوں تک محدود رہیں اور کسان طبقہ تک اس کے ثمرات نہیں پہنچ سکے۔
ایک وقت تھا جب ملکی آبادی کا ستر فیصد سے زائد اس پیشہ سے وابستہ تھا لیکن رفتہ رفتہ صنعتی ترقی نے لوگوں کا رخ اس طرف موڑدیالیکن اب بھی ملکی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ اس پیشہ سے منسلک ہے۔ حکومت اس شعبہ میں بہتری کیلئے وقتاً فوقتاً متعدد اقدامات تو اٹھاتی رہتی ہے لیکن ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث کسان کی زندگی میں اس سے کوئی بہتری نہیں آتی ہے۔
زرعی شعبہ بڑی صنعتوں مثلاً ٹیکسٹائل، چمڑے، چاول کی پروسیسنگ، خوردنی تیل اور فوڈ پروسیسنگ کو خام مال مہیا کرنے کا ذریعہ بھی ہیں۔لیکن کچھ عرصہ سے ملک میں مناسب کاٹن پالیسی نہ ہونے کے باعث ہمارے کسان کپاس جیسی نقد آور فصل، جسے دنیا میں سفید سونا (وائٹ گولڈ) بھی کہا جاتا ہے، کی کاشت سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ کئی کاشتکار ایسے ہیں جو ہمیشہ اپنی زمینوں پر کپاس کاشت کیا کرتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم کپاس چھوڑ کے گندم، مکئی اور چاول کی طرف جا رہے ہیں کیونکہ کپاس میں سراسر نقصان ہے۔پاکستان جنرز ایسوسی ایشن کے مطابق اس سال ملک میں کپاس کی پیداوار 60 لاکھ گانٹھیں رہیں جو گذشتہ 30 سالوں میں سب سے کم ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے دوران 22 لاکھ ہیکٹرز رقبے پر کپاس کاشت کی گئی جو 1982ء کے بعد سے کم ترین رقبہ ہے۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستان کپاس میں خود کفیل تھا اور سالانہ 25 لاکھ گانٹھیں بیرون ملک بھیجا کرتا تھا لیکن اب صورتحال اتنی خراب ہو گئی ہے کہ اس سال ٹیکسٹائل ملز اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے 70 سے 80 لاکھ گانٹھیں درآمد کریں گی۔ کپاس کی فصل کی زبوں حالی کا اندازہ لگانے کے لیے پنجاب کے ضلع وہاڑی کی اکثر مثال دی جاتی ہے جہاں دس سال قبل تک کپاس کی پیداوار 16 لاکھ گانٹھیں تھیں، لیکن گذشتہ چند سال سے وہاں سفید سونے کی ایک ڈالی بھی نہیں اگائی جا رہی۔ اب ہمارا کسان کپاس کو چھوڑ کر دھان، کماد اور مکئی کی فصلیں اگانے کی طرف راغب ہو رہا ہے۔
پاکستان کی کل ملکی برآمدات میں زراعت کا شعبہ تین چوتھائی ہے اور اس کا 60 فیصد حصّہ صوبہ پنجاب سے حاصل ہوتا ہے۔کئی برسوں سے صوبہ پنجاب ملک میں جاری فوڈ سکیورٹی کے چیلنج سے نبرد آزماہے۔ محکمہ زراعت صوبہ میں غذائی تحفظ یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ زرعی لاگت کو موثر انداز میں جدید پیداواری ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرے جس سے کاشتکار خوشحال ہوں اور ان کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہو سکے۔ حکومت اور عوام کو قومی ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہئے زرعی شعبے کو مہمیز لگانے کی اشد ضرورت ہے۔ میرے خیال میں زرعی شعبہ واحد ایسا شعبہ ہے جو کم از کم مدت میں معجزے برپا کر سکتا ہے۔ زرعی شعبے کی بہتری کے لئے جن تبدیلیوں کی ضرورت ہے اگر ہم نے کوتاہی کا ارتکاب کیا تو پھر ہم غربت افلاس اور بھوک سے نہیں بچ سکتے۔
گزشتہ تین برسوں سے ملک میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ کہ وزیراعظم عمران خان کسان اور زمیندار طبقہ کی مشکلات کو سمجھتے ہوئے ان کو حل کرنے میں سنجیدہ نظر آ تے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں میں یہ اکثر دیکھا جاتا تھا کہ زمینداروں کو اپنی گندم بیچنے کیلئے سخت دھوپ میں کئی کئی گھنٹے قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا تھا لیکن حالیہ تین برسوں میں زمینداروں سے عزت کے ساتھ گندم خریدی جا رہی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حالیہ برسوں میں فرٹیلائزر مہنگی ہوئی ہے لیکن اس کے مقابل دیکھا جائے تو کسان کو اسکی فصل کی بہت اچھی قیمت بھی مل رہی ہے۔ماضی میں کاٹن کا کوئی خریدار نہیں ملتا تھا لیکن آج اسکی قیمت ریکارڈ سطح تک پہنچ چکی ہے۔ صنعتکار طبقہ خود چل کر کسان کے پاس جا رہا ہے کہ مجھے کاٹن دیدو۔اسی طرح ماضی میں ہم سب نے دیکھا کہ شوگر ملوں کے باہر گنوں سے لدی سینکڑوں ٹرالیاں کھڑی رہتی تھیں لیکن موجودہ حکومت میں ایسے مناظر دیکھنے کو نہیں مل رہے بلکہ کسان طبقہ عزت کے ساتھ گنا بیچ رہا ہے۔ ماضی میں جب گنا فروخت ہو جاتا تھا تو شوگر مل مافیا کسانوں کو کئی کئی ماہ ادائیگی نہیں کرتا تھا اور وہ بیچارا چکر لگا لگا کر تھک جاتا تھا۔عمران خان حکومت نے شوگر مل مافیا کی بدمعاشی کو توڑ دیا ہے اور شوگر ملز والے کسان کو فوری ادائیگی کر رہے ہیں۔ ملک میں مہنگائی تو ہے لیکن اس کے ساتھ اگر دیکھیں کہ زمیندار کو کتنی عزت ملی ہے۔ عمران خان حکومت نے کسان اور زمیندار طبقہ کی عزت کو بڑھاوا دیا ہے۔آج زمیندار، ڈیری کا کام کرنیوالے، جانورگوشت اور دودھ کا کام کرنیوالوں کو بڑے مناسب دام مل رہے ہیں اور ان تین برسوں میں جتنی خوشحالی ان شعبوں میں آئی ہے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔تاہم حکومت کی طرف سے کسانوں کو بلاسود قرضوں اور جدید مشینری کی فراہمی کے حوالے سے جو بلند بانگ وعدے کیے گئے تھے وہ ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں۔حکومت اس جانب توجہ دے کہ وہ زرعی شعبہ میں بہتری کیلئے جس پالیسی کا بھی اعلان کرے اس پر سو فیصد عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔
حکومت زراعت کی ترقی کیلئے دن رات کوشاں ہے اور تمام زرعی یونیورسٹیوں کو فصلوں کی پیداوار بڑھانے کیلئے ٹاسک دیا گیا ہے۔ اسی سلسلے میں گزشتہ دنوں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ایک سیمینار منعقد ہوا جس میں وزیراعظم کے معاون خصوصی جمشید اقبال چیمہ، کاٹن کمشنر فیصل آباد پروفیسر اقبال بندیشہ اور کئی زرعی ماہرین نے شرکت کی۔ وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب اور پروفیسر ڈاکٹر علی رضا کی کاوشوں سے منعقدہ اس سیمینار میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ بہاولپور کو کاٹن ایریا بنانے کی بھرپور کوشش کی جائیگی۔چولستان میں 66لاکھ ایکڑ خالی زمین پڑی ہے اگر حکومت اس طرف توجہ دے اور اس کو قابل کاشت بناکر وہاں کاٹن کاشت کی جائے تو اس سے ملکی معیشت میں کافی بہتری لائی جا سکتی ہے۔
(کالم نگارسیاسی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭