محمدنعیم قریشی
پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کے الیکشن میں ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں میں کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے،تمام سیاسی رہنما اپنے طورپر اپنے اپنے حلقوں میں انتخابی مہم چلانے میں مصروف ہیں، آزاد کشمیر الیکشن کمیشن نے 724امیداروں کی حتمی فہرست جاری کردی ہے۔25جولائی کے روز 45انتخابی حلقوں میں یہ تمام امیدوارسیاسی قسمت آزمائی کرینگے۔
آزاد جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی 53نشستوں پر مشتمل ہے جن میں سے 45نشستوں پر براہ راست انتخابات ہوتے ہیں جبکہ خواتین کے لیئے 5ٹیکنوکریٹ، علماء مشائخ اور بیرون ملک کشمیریوں کے لیئے ایک ایک نشست مخصوص ہے۔ جن نشستوں پر براہ راست انتخابات ہوتے ہیں ان میں 12نشستیں پاکستان میں مقیم ان مہاجرین جموں کشمیر کے لیئے مختص ہیں جو 1947 میں ہجرت کر کہ پاکستان آئے تھے۔ 2018 میں ہونے والی 13ویں ترمیم کے بعد پاکستانی کشمیر کے انتخابی قوانین میں تبدیلی لائی گئی جب کہ جموں و کشمیر الیکشن ایکٹ 2020کے نفاذ کے بعد خطے میں پہلے ہی سے رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن منسوخ کر دی گئی۔ نئے الیکشن ایکٹ کے تحت 32سیاسی و مذہبی جماعتوں کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے جن میں پاکستان کی مرکزی اہم جماعتوں کے علاوہ کشمیر کی سطح پر قائم سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ آزاد جموں کشمیر الیکشن کمیشن کے مطابق آزاد جموں و کشمیر کے عام انتخابات 2021میں 32لاکھ 20ہزار 546رائے دہندگان اپنی رائے سے نمائندے منتخب کر سکیں گے، گزشتہ انتخابات بھی یعنی 2016میں تو ووٹروں کی کل تعداد 27لاکھ 38ہزار تھی جو اب بڑھ کر 32لاکھ 20ہزار546ہوچکی ہے۔ آزادکشمیر حکومت اور آزاد جموں کشمیر الیکشن کمیشن کی عملداری نہ ہونے کے باعث وفاق سمیت صوبائی حکومتیں ان 12نشستوں کے انتخابی عمل اور نتائج پر اثرانداز ہوتی ہیں۔یعنی یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی مثال قائم کی جاسکتی ہے۔اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ایک واضح مثال یہ ہے کہ کشمیر میں ایم کیوایم کا کوئی سیاسی وجود نہیں ہے مگر جن دنوں کراچی میں ایم کیو ایم کا عروج تھاتو اس وقت کراچی میں موجود ان نشستوں پر ایم کیو ایم کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں،جس سے انداز ہ ہوتا ہے کہ کشمیری مہاجرین کے انتخابی حلقوں کی تقسیم انتہائی پیچیدہ بھی ہے اور متنازعہ بھی ہے ماضی میں ایسا بھی ہوا ہے کہ یہ بارہ کی بارہ نشستیں آزا د جموں کشمیر کی اس سیاسی جماعت کو ملتی رہی ہیں جس کو وفاق میں حکومت ہوتی یا وفاقی حکومت کی حمایت حاصل ہوتی تھی، ا س طرح دیکھا جائے توآزاد کشمیر کے انتخابات کی تاریخ کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے یہاں طاقتور اور پیسے والے کا ڈنکا زیادہ بجا ہے۔ ایک ایک نشست پر یہاں کے امیدوار مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں،ہر دور میں یہ انتخابات خونی تصادم میں تبدیل ہوتے رہے ہیں، بعض اوقات یہ لڑائیاں اتنی سنگین ہوجاتی ہیں کہ ایک دوسرے پر پانی اور گزرگاہوں تک کو بند کر دیا جاتا ہے، تحریک انصاف کی حکومت سے قبل آزاد کشمیر کے انتخابات میں اس سے قبل ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں مقابلہ چلتا تھا یہی دونوں پارٹیاں آج کل اپوزیشن میں ہیں۔جہاں تک انتخابی مہم کی بات ہے تو اس وقت تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیئے ہر حد عبور کرنے کو تیار ہیں ایک دوسرے کے ماضی کو دکھا کر اسے ذلیل کیا جارہا ہے۔مریم نواز آزادکشمیر میں مسلم لیگ ن کی نمائندگی کرتے ہوئے اس وقت وزیراعظم پاکستان عمران خان اور ان کی حکومت پر کڑی تنقیدکرنے میں مصروف ہیں جن کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کشمیر کا مقدمہ ہارنے کے بعد اب کشمیر کے الیکشن چوری کرنے کے موڈ میں ہیں۔
مریم نواز نے کشمیر سے متعلق یہ انکشاف بھی کیاہے کہ وہ جب بھی نوازشریف کا نام لیتی ہیں تو یہاں عمران خان سمیت دیگر مخالفین پر کپکپی طاری ہوجاتی ہیں۔جب کہ نوازشریف کی کشمیر کے معاملے میں تاریخ کچھ زیادہ اچھی نہیں رہی ہے ان پر اہل کشمیر کے لوگ برملا یہ الزام لگاتے رہتے ہیں کہ نواز شریف جب وزیر اعظم تھے تو انہوں نے کشمیر کو ایک طرف رکھتے ہوئے بھارتی وزیراعظم سے کاروبار اور اپنی دوستی کو ترجیح دی تھی اور قومی سلامتی کے اداروں کو اعتماد میں لیے بغیر سجن جندال کو اپنے مری والے گھر میں بلایا۔مودی کی حلف برداری میں بھی طے شدہ ملاقاتوں کے باوجود حریت رہنماؤں سے ملاقات نہ کرنے کا الزام بھی سابق وزیراعظم نوازشریف پر ہے۔جبکہ ملک کے دانشوروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نوازشریف نے 2015میں مشترکہ علامیہ میں کشمیر کازکر نہ کرکے کشمیر کی جدوجہد کو نقصان پہنچایا تھا،پانچ برس قبل جولائی ہی میں منعقد ہونے والے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن نے 31نشستوں پرکامیابی حاصل کر کہ دو تہائی اکثریت بھی حاصل کر لی تھی جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی اورمسلم کانفرنس نے تین تین نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی لیکن ن لیگ ان پانچ سال کے بعد دوبارہ ووٹ کی بھیک مانگ رہی ہے اور مریم نواز ایک ایسے شخص کے نام پر ووٹ مانگ رہی ہیں جو اس وقت نہ صرف ملک سے مفرور ہیں بلکہ کشمیر کے معاملے میں ان کی ریپوٹیشن بھی کچھ اچھی نہیں ہے۔دوسری طرف کچھ عرصہ الیکشن مہم چلانے کے بعد پی پی چیئرمین بلاول بھٹو آج کل امریکا کے دورے پر ہیں۔ جبکہ ان کی چھوٹی بہن آصفہ بھٹو زرداری ان کی جگہوں پر ان دنوں جلسے جلسوں میں پیپلزپارٹی کا روٹی کپڑااور مکان کا منشور لیکر مظفر آباد کے سیاسی ماحول کوگرما رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں محترمہ بے نظیر کی صاحبزادی آصفہ بھٹو نے مظفر آبادجلسے میں کل آٹھ منٹ کی تقریر میں صرف تین منٹ کی گفتگو کی جس میں پانچ منٹ نعرے بازیوں کی نظر ہوئے،اس الیکشن میں آصفہ بھٹو زرداری کو تین منٹ کے لیے اسٹیج پرلاکر جزباتی انداز میں متعارف کروانے کی کوشش کی گئی۔کیونکہ 1996میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں تو انہوں نے بھی آزادکشمیر میں پیپلزپارٹی کو اکثریت دلواکر حکومت سازی کی تھی۔ کشمیر میں حکومت سازی کے پیچھے وفاق کی جانب سے دیا جانے والا بجٹ بھی ہے، کشمیر کا ایک کھرب چالیس ارب روپے سے زائد کا بجٹ دینا پاکستان کی وفاقی حکومت کے ذمے داری ہے جو وہ اداکرتی ہے۔اس مالی کنٹرول کی وجہ سے کشمیر کے حکمران اور عوام اسلام آباد کی چمک کی طرف دیکھتے ہیں اور اسی چمک سے کشمیریوں کی رائے بدل دی جاتی ہے، اپوزیشن جماعت کے جلسوں کے ساتھ حکومت بھی اس میدان میں کسی طورپر پیچھے نہیں ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کا باغ میں جلسہ عوام کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جہاں انہوں نے کشمیر کے اصل مسائل پر توجہ دینے کے ساتھ یہاں سال کے آخر تک میں کشمیر کے ہر گھر میں ہیلتھ کارڈ پہچانے کا وعدہ کیا،انہوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے موجودہ حکومت کے کردار پر روشنی ڈالی جس سے کشمیر کی آزادی تحریک کے حوالے سے لوگوں کا جوش وخروش دیکھنے کے قابل تھا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کے باوجودتحریک انصاف کے لیے آزاد کشمیر کے انتخابات میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ تحریک انصاف کو ضمنی انتخابات میں پے در پے شکستوں کے بعد اب کشمیر کے عوام سے بھی کچھ خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ ہوسکتاہے کہ میری رائے غلط ثابت ہومگرمہنگائی، بیروزگاری اور معاشی صورتحال کا اثر بھی کشمیر کے انتخابات پر پڑ سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ کشمیر میں پاکستان تحریک انصاف وہ اکثریت جو ن لیگ اورپیپلز پارٹی کو یا اس سے پہلے مسلم کانفرنس کو ملتی رہی ہیں حاصل نہ کر سکے۔ تنہا سادہ اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کو پاکستان کی طرح کشمیر میں بھی اتحادی حکومت بنانے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
(کالم نگار مختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭