شفقت حسین
اکثر سننے میں آیا ہے کہ نوکری ہمیشہ محنت، اطاعت اور وفاداری کی عملی تصویر ہوا کرتی ہے اور نوکری اگر اسی جذبے کے تحت کی جائے تو اس کا مزہ ہی اپنا ہوتا ہے۔ قادر الکلام شاعر اور استاذ الاساتذہ مرزا غالب نے وفاداری بشرطِ استواری اصل ایمان کہہ کر گویا اس پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔ معروف صوفی شاعر درویش اور صاحب طرز ادیب کم اعلیٰ بیوروکریٹ جو اتفاق سے میرے ہم نام بھی ہیں، وہ نوکری اور ملازمت کو بلکہ خدمت کو ہی اپنے لئے نیک شگون، آخرت کا زادِراہ اور بخشش کا ذریعہ گردانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی بیس بائیس سالہ سرکاری نوکری کے دوران کسی بھی جگہ انہوں نے اپنے بچے ساتھ نہیں رکھے بلکہ گاؤں ہی کے عام سکولوں میں انہیں ابتدائی تعلیم دلوائی، ٹھاٹھ باٹھ، اعلیٰ عہدوں کے کروفرجاہ وجلال کو کبھی قریب نہیں پھٹکنے دیا۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ یہ محض ایک نام نہیں بلکہ اور بھی بے شمار اور لاتعداد نام اور سرکاری افسران ہمارے ہاں ضرور پائے جاتے ہیں لیکن سچی بات اور تلخ اور کڑوی حقیقت یہی ہے کہ ایسے افسران اور سرکاری نوکری کرنے والوں کے نام فرفر زبان پر نہیں آتے بلکہ ایسے لوگ خال خال اور کم کم ہی دکھائی دیتے ہیں اور صرف انگلیوں کی پوروں پر ہی گنے جاسکتے ہیں جو خود کو آفیسر نہیں، سرکاری نوکر بھی نہیں بلکہ صحیح معنوں میں عوام کا خادم سمجھتے ہیں اور محنت پر یقین رکھتے ہیں اور اسی جذبے کے تحت زندگی کی گاڑی کو آگے سے آگے لے جانے میں کوتاہی نہیں کرتے۔ عوام کو پہنچنے والی کسی معمولی سے معمولی تکلیف کو بھی گویا اپنی تکلیف اور درد سمجھتے ہیں مگر ایسے افسران جو عوام کی زندگیوں سے کھلواڑ کرتے ہیں ان کے طرزِعمل اور عامتہ الناّس کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویوں کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے اور ہماری حیرانگی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔
مذکورہ بالا تمہید میں نے وزیر توانائی میاں حماد اظہر کے اس فیصلے کے حوالے سے باندھی جس میں انہوں نے فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (فیسکو) کے چیف ایگزیکٹو ارشد منیر وڑائچ کو معطل کیا۔ واضح رہے کہ ”خبریں“ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق 20 جولائی جمعرات یعنی عید سے ٹھیک ایک روز قبل سرشام بجلی کی سپلائی میں تعطل آیا اور بدقسمتی سے یہ سلسلہ اس قدر طویل ہوا کہ اگلے دن یعنی عیدالاضحی رات گیارہ بجے کے بعد بحال ہوا۔ غسل اور وضو تو ایک طرف لوگ رفع حاجت کے لیے بھی پانی کی ایک ایک بوند کے لئے ترس رہے تھے۔ مرد حضرات تو پھر بھی کہیں نہ کہیں پاکیزگی برقرار رکھ سکتے تھے لیکن ماؤں، بہنوں اور بہو، بیٹیوں کے لیے جو مشکلات پیدا ہوئیں ماسوائے کفِ افسوس ملنے کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ ضلع کے عوام اپنے اپنے علاقوں میں قائم بجلی کی سپلائی کے ذمہ داران کو فون کرتے تو جواب ندارد۔ اگر کوئی اہلکار فون اٹھاتا تو بھی جواب ملتا خراب فیڈرز کی مرمت کا عمل جاری ہے لیکن یہ نہ بتایا جاتا کہ مرمت کا عمل مکمل کب تک ہوگا۔ قارئین کرام! فیصل آباد کے عوام شدید گرمی اور حبس کے موسم میں تڑپ رہے تھے اور فیسکو افسران بڑے اطمینان کے ساتھ عید کے مزے لوٹ رہے تھے۔
بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم مقاصدِ الٰہیہ کے سچے اور حقیقی ترجمانؐ اور سرکارِ دوجہانؐ جو عالمین کے لیے رحمت ہیں، جو حاکم اعلیٰ ہونے کے باوصف محنت پر یقین رکھتے تھے اُن سے سچی اور دلی وابستگی کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن عملاً ہماری صورتحال کیا ہے اس کا اندازہ فیسکو چیف ارشد منیر وڑائچ کی معطلی سے لگا لیجئے۔ ایسے افسران کے دل میں نہ تو خوف ِخدا دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی ان کے دلوں میں عوام کے لئے جذبہئ تراحم پیدا ہوتا ہے۔ ان کے دلوں میں کبھی یہ احساس جاگزیں نہیں ہوا کہ ہمیں ملنے والی بے تحاشا سہولیات اور مراعات، لگژری گاڑیاں، موسموں کی شدت اور حدت کے مطابق دفاتر بہت بڑی بڑی تنخواہوں اور مشاہرے، ٹی ایز، ڈی ایز اور ماتحت ملازمین کی فوج ظفر موج عوام اپنا خون اور پسینہ ایک کرتے ہیں تب انہیں ملتی ہے۔ اعلیٰ سرکاری افسران اور ارشد منیر وڑائچ کے پائے کے افسران کو حاصل سہولیات کو دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا کہ ہمارا ملک ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے بلکہ اس کے افسران ترقی یافتہ اور معاشی استحکام کے اعتبار سے متمّول معاشروں کے افسران سے مماثل دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن قارئین کرام! میرا تاثر بلکہ سوال ہے کہ کیا فیسکو چیف کی معطلی سے مسائل حل ہوجائیں گے۔ نہیں بالکل بھی نہیں۔ ہرگز ہرگز نہیں۔ یہ آج معطل ہوئے اسی طرح بیک جنبش قلم بحال بھی ہوجائیں گے۔ یہ سزا بہت کم ہے۔ تھوڑی ہے بلکہ قلیل ہے۔ ایسے افسران کی دس پندرہ سالہ سروس ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو کم ازکم دو تین سال تک پوسٹنگ ہی نہیں دینی چاہیے لیکن ہماری حالت کیا ہے۔ ہم نے ارشد منیر کو معطل کرکے ان کی جگہ لیسکو کے چیف انجینئر بشیر گجر کو قائم مقام چیف ایگزیکٹو فیسکو مقرر کردیا ہے جس کا میرے نزدیک مطلب اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ ہمارے پاس قابل اور لائق افسران کی نمایاں حد تک کمی ہے۔ ان کی جگہ لگایا بھی ہے تو نہ صرف ایک دوسری کمپنی کے چیف انجینئر کو بلکہ وہ بھی جونیئر افسر کو۔ ہم لوگ جو صوبائی دارالحکومت میں رہنے کا اعزاز رکھتے ہیں یہاں بھی حالت یہ ہے کہ ٹرانسفارمر خراب ہوجائے تو وہ بھی بعض اوقات سترہ سترہ، اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے درست ہونے میں نہیں آتا اور اس کے ذمہ دار ایک دو افسران نہیں بلکہ لیسکو چیف سے لیکر نیچے لائن مین تک براہِ راست ہوتے ہیں لیکن جوابدہی کے نظام کے فقدان کے باعث یہ لوگ سزا کے عمل سے محفوظ رہتے ہیں۔ دوردراز کے علاقوں میں تو لائن سپرنٹنڈنٹ کیا لائن مین بھی ظالمانہ کردارادا کرتے ہیں۔ قدم قدم پر رشوت کا چلن عام ہے۔ ان کے اثاثے ان کے شاہانہ ٹھاٹھ بلکہ درونِ پردہ ان کے چھپ چھپا کر کیے جانے والے کاروبار دیکھ کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ لائن لاسز اور بجلی چوری بھی انہی کی آشیرباد سے ممکن ہوتی ہے جن کا افسران بالا کو بھی علم ہوتا ہے اور انہیں گھر بیٹھے بٹھائے حصہ بقدرِجثہ مل جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اکثر کام چور افسران کو الٹا لٹکا دینے کی باتیں کرتے ہیں جبکہ ایسے ٹیسٹ کیسز روزانہ کی بنیادوں پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسی طرح روزانہ کی بنیادوں پر سامنے آنے والے کیسز کے فیصلے بھی اسی سرعت کے ساتھ سامنے آنے چاہئیں جس طرح فیسکو چیف ارشد منیر وڑائچ کی معطلی کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔
(کالم نگار سیاسی‘سماجی اورمعاشرتی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭