تازہ تر ین

تنخواہ، مہنگائی اور عوام الناس

ڈاکٹر عاصم ثقلین
کل ایک اٹھارہ گریڈ کے پروفیسر نے میرے سامنے انتہائی دُکھ کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا کہ اس سال میں قربانی نہیں کرسکاکیونکہ اگر قربانی کرتاتو بقیہ تنخواہ سے اگست تک کے تمام اخراجات کس طرح پورے ہوتے۔ صاحب فرما رہے تھے کہ وہ اس امید سے تھے کہ اس ماہ تنخواہ کے ساتھ ملنے والے اضافے سے قربانی کے لیے کوئی جانور خریدنے کے قابل ہوں گے لیکن اس بار ایک تو قربانی کے جانوروں کی گرانی اور دوسرا اس ماہ اضافے کی بجائے تنخواہ سے کنوینس الاؤنس کی مد میں کٹوتی نے تنخواہ دار لوگوں کو حیران و ہلکان کر دیا گیا۔ شاید پہلی بار اس طرح کی صورتِ حال کا سامنا ہے کہ حکومتی اربابِ اختیار کے اعلانات کے باوجود ماہِ جون کی تنخواہ میں کیا گیا اضافہ اگست کی تنخواہ کے ساتھ بھی نہیں مل پایا۔اب اللہ ہی جانے کہ یہ تاخیرتمام سرکاری ملازمین کی نظر میں اس حکومت کا بگڑا ہوا امیج مزید بگاڑنے کی سازش ہے یادفتری کاغذات کووقت پر سیاہ نہ کر سکنے کی وہ روایتی سُستی جس کے سرکاری عہدہ داران ہمیشہ سے عادی رہے ہیں۔۔۔ بہر حال یہ طے ہے کہ اگست کی بلا اضافہ ملنے والی تنخواہ سے سرکاری (غیر مراعات یافتہ) ملازمین کی سخت دل شکنی ہوئی ہے جو شاید یکم ستمبر تک کسی صورت کم ہونے والی نہیں۔
دوسری طرف مہنگائی کا جن ہے کہ کسی طور قابو میں نہیں آ رہا۔یوں بھی مہنگائی اور معیشت کے کچھ گنجلک معاملات ہماری کم فہمی سے ہمیشہ ماوراء ہی رہے ہیں۔ اگر چہ بی۔اے میں اکنامکس بھی پڑھی تھی لیکن اس کے بعد علم معاشیات کا جنرل نالج ”مساوی افادہ مختتم“ اور ”تقلیلِ افادہ مختتم“کی رٹی رٹائی دو دو مثالوں سے آگے نہیں بڑھ پایا۔ کچھ عرصہ قبل تو یہ بات بہ آسانی سمجھ آ رہی تھی کہ روپے اور ڈالر کے تناسب میں پیدا کردہ جعلی استحکام ختم کرنے اور روپے کو انٹرنیشنل مارکیٹ میں اس کے اصل مقام پر لانے کی وجہ سے چوں کہ ڈالر کی قیمت ڈیڑھ گنا سے بھی زیادہ ہو گئی اس لیے اشیا کی قیمتوں میں اضافہ نا گزیر تھا لیکن پریشان کُن امر یہ ہے کہ روپے اور ڈالر کا یہ مد وجزر تو ایک ہی بار آیامگر مہنگائی کے بھنور کا دائرہ تو عوام الناس کے لیے مسلسل بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ نچلا اور مفلس طبقہ تو ہمیشہ ہی سے ہماری مائل بہ زوال معیشت کا شکار رہا ہے مگر اب تو وہ لوگ بھی مہنگائی کے عذاب سے ہلکان ہیں جو بظاہر مڈل کلاس کی کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں عام آدمی کی رسائی سے دور ہو رہی ہیں۔پٹرول اور پھر پٹرول کے ساتھ ساتھ آٹا، گھی، چینی اور دال تک کی قیمتیں تسلسل کے ساتھ بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔
اب تو لوگوں نے حکومتی ”صاحبانِ اقتدار“ سے کسی شے کی مہنگائی اور گرانی کاشکوہ کرنا بھی اس لیے چھوڑ دیا ہے کہ کہیں ہمارے حکمران خدا نخواستہ کسی ”مافیا“ کے خلاف حرکت میں نہ آجائیں اور جواب آں غزل کے طور پر وہ مافیا اُسی شے کی قیمت مزیدبڑھانے پر نہ تُل جائے کیوں کہ ماضی قریب میں ایسی ہر لڑائی کا آخری شکار عوام ہی بنتے نظر آئے ہیں۔وقت اور حالات آہستہ آہستہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ پاکستان میں قوت و اختیار کا ہر منبع کسی خاص شعبے، گروہ یا طبقے کی بجائے محض کرپٹ مافیاز کی گرفت میں ہے۔ اور یہ مافیاز اپنی ادھر ادھر سے لُوٹی ہوئی دولت کے بل پرمعاشرے میں اپنی جڑیں اس قدر مضبوط کر چکے ہیں کہ کوئی فرد ِ واحد کیا بڑے بڑے اور طاقت ور محکمے بھی ان کے سامنے بے بس ہیں۔
بہت سوچنے کی بات ہے کہ آخر ہمارے ہاں ہی کیوں لوگوں کا لالچ اور حرص کم نہیں ہوتا۔ امیر کی دولت کے ساتھ ساتھ اس کی مادیت پرستی بھی کیوں بڑھتی رہتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ روپے کما کر، فیکٹریوں پر فیکٹریاں،کارخانوں پر کار خانے اور پلازوں پر پلازے بنواکر بھی دولت مندطبقہ آخر ایک زندگی میں کتنی زندگیوں کے لیے مال بٹورنا چاہتا ہے؟ اس کی ہوسِ زر کہیں تھمتی کیوں نہیں؟ بقول ِ عرفان ستار:
کہیں تو جا کے سمٹے گا ترا کارِ جہاں بانی
کبھی تو تُو بھی دیکھے گا کہ ویرانی کہاں تک ہے
کاش ہمارے ہاں موجود طبقہئ امرا کبھی دیکھ پاتا کہ مفلس و نادار کے گھر کی ویرانی کس قدر بڑھ چکی۔ کاش عام آدمی کے خون تک کو مال و زرمیں ڈھال کر لوٹ لینے کی خواہش رکھنے والا یہ بے حس مافیا ذرا سوچ ہی سکتا کہ سارا دن اینٹیں اور مٹی ڈھو کر پانچ چھ سو روپیہ کمانے والے اُس مزدور کے لیے گھی کی قیمت کا تین سو روپے کلو ہو جانا کیا معنی رکھتا ہے جس کے بچے سارا دن اس انتظار میں رہتے ہوں کہ ابا جب رات کوواپس آئے گا تو ہمارے گھر میں روٹی بھی پکے گی۔
ہم اپنے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ پینسٹھ کی جنگ کے دوران میں نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان نے جو اس وقت اس مغربی پاکستان کے گورنر تھے، اشیائے خور و نوش کی قیمتیں نہیں بڑھنے دی تھیں کہ اس طرح عوام الناس کی تکلیف میں اضافہ ہوگا۔ ممکن ہے ارض پاک کے موجودہ اربابِ اختیار یہ سمجھتے ہوں کہ اب ہم چوں کہ الحمدللہ حالتِ جنگ میں نہیں بلکہ صورتِ امن میں ہیں، اس لیے ہر چیزکی قیمت ہر روز بڑھا کر عوام کی تکلیفوں میں اضافہ بہ آسانی کیا جا سکتا ہے۔
ابھی کچھ روز قبل تکلیفوں میں گھِرا ایسا ہی ایک آدمی اپنی مشکلات کا ذکر کرتے کرتے یہ کہہ کر چلتا بنا کہ آخرِ کار ہمیں پریشان کرنے والے یہ لوگ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اس لیے پریشانیوں اور مشکلات میں پھنسے یہ عوام کم از کم شاباش کے مستحق تو بنتے ہیں جو ایسے حالات اور ایسی مہنگائی میں بھی پُر سکون رہنے کا بہانہ ہی ڈھونڈ لیتے ہیں۔اپنی اُجڑی دنیا دیکھ کر کسی کی آخرت کی بربادی کے یقین سے خود کو تسلی دے لیتے ہیں۔
(کالم نگار ممتازماہرین تعلیم ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain