شفقت اللہ مشتاق
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب بھی مرشد اور مرید میں غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے تو قصور بلھے شاہ کا ہی ہوتا ہے اور زبان زد خواص و عام ہوجاتا ہے کہ قصور بلھے شاہ کا ہے۔ آج بھی “قصور” بلھے شاہ کے حوالے سے جانا پہچانا جاتاہے۔ ہاں البتہ غلط فہمی فہم و فراست سے دور کی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ عنایت شاہ کی طبیعت اور مزاج کو کون کونسی چیزیں متاثر کرتی ہیں پھر ناچنا پڑتا ہے اور وہ بھی کنجری بن کر جبکہ کنجری بن کر ناچنا تو عورت کے لئے بھی اتنا بڑا مہنا ہے کہ خدا کی پناہ کجا مرد کنجری کا روپ دھار کر ایسا کرنا شروع کردے اور وہ مرد بھی سید ہو”مجھیں نوں ڈبن مہنا” اسکے باوجود ایسا سارا کچھ کرنا شاید مجبوری تو ہوتا ہی ہے وقت کی بھی ضرورت ہوتا ہے بصورت تگنی کا ناچ نچا دیا جاتاہے اس کی کوئی بھی صورت ہو سکتی ہے آسمان سے گر کر بندہ کھجور میں اٹک سکتا ہے بلکہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ سکتے میں آنے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ دیگرانسان حواس باختہ ہو سکتا ہے، پہاڑ سے چھلانگ بھی لگا سکتا ہے ہر وقت ہنس بھی سکتا ہے اور ہر وقت رو بھی سکتا ہے مزید اس سکتے کی حالت میں پتھر بھی کھائے جاسکتے ہیں اور چھتر بھی کھائے جا سکتے ہیں دھکے کھانا تو بہر حال انسان کا مقدر ہے۔ اس ساری صورتحال سے بچنے کے لئے بلھے کی طرح اپنا قصور مان کر کنجری بن جانا خالی از حکمت نہیں ہوتا اس طرح قصور بھی بلھے کا اور یار بھی بلھے کا بیک وقت دو شد۔ ایک ایک ہوتا ہے اور دو گیارہ۔
جب سے مسلمان ممالک خلافت کی دولت سے محروم ہوئے ہیں ایک ایک ہو کر روندے جا رہے ہیں کاش یہ دو ہو کر گیارہ ہوجاتے تو صیہونی قوتوں کو دن کے وقت تارے نظر آنا شروع ہو جاتے۔ لیکن ایسا دن دیکھنے کے لئے خون صد ہزار انجم کرنا پڑتا ہے اور ہم ستاروں کے علم کے بارے میں ابہام کا شکار ہیں۔ صیاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک ہی دفعہ طاقتور ترین کا شکار کرے اور خود طاقتور ترین کے ہاتھوں شکار نہ ہوجائے۔ ”شکار کرنے سے یوایس ایس آر کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور شکار ہونے کی صورت میں یو ایس اے بے تاج بادشاہ بن جاتا ہے“۔ تاج تو بالآخر گرنے ہی ہیں بہتر ہے ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ایسا ہو جائے۔ افسوس ہم دیکھ رہے ہیں کاش ہم تاج گرانے کے اس سارے عمل کا حصہ بن جاتے۔ اب بھی ہمیں کردار ادا کرنا چاہئیے ورنہ ہم دیکھتے ہی رہ جائیں گے اور ویسے کے ویسے رہ جائیں گے “نہ تتر نہ بٹیر” ویسے تو تتر اور بٹیر جسمانی توانائی کے لئے بڑے مفید ہیں لیکن ان کا حصول شکار کا محتاج ہے اور شکار کا کرنا بھی ایک پوری سائنس ہے اور سائنس کی تھیوری کی بنیاد مشاہدات، تجربات اور نتیجہ پر ہے۔ نتیجہ کی بنیاد پر نشانہ لگایا جاتا ہے اور اگر نشانہ خطا ہو جائے تو ایک نئی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ہمیں تو منصوبہ بندی کے لفظ سے پر لے درجے کی چڑ ہے کیونکہ اس سے ہماری آبادی کنٹرول ہوجائے گی۔ پہلے ہم کافروں کے ہاتھوں زچ ہو رہے ہیں اور اگر ماوں نے بچے بھی جننے چھوڑ دیا تو ہم کہاں سے بڑی بڑی جنگیں لڑ سکتے ہیں۔ کاش کوئی ہمیں یہ سمجھائے کہ جنگیں دانشمندی، حکمت اور جوش و جذبے سے لڑی جاتی ہیں ایسے ہی تو نہ مسلمانوں نے بدروحنین جیت لی تھیں۔ ایسے ہی تو نہ محمود غزنوی نے سترہ دفعہ ہندوستان کو روند ڈالا تھا اور ایسے ہی تو نہ مختصر فوج کے ساتھ ظہیر الدین بابر نے مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھ دی تھی۔ بہرحال میں ناں مانوں حالات بدل چکے ہیں۔ جمہوریت کا دور دورا ہے بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا۔ ہمیں دھڑا دھڑ بچے پیدا کر کے جمہور کی زبان میں بات کرنا چاہیئے اور بے روزگاری کی ہمیں کوئی فکر نہیں کیونکہ روزگار فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
ہماری ایک دیرینہ خواہش ہے کہ ممولہ اور شہباز آپس میں لڑ پڑیں اور یہ لڑائی مارکٹائی میں بدل جائے۔ بھڑ تو خیر شروع ہو گیا ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ ایک طرف امریکہ ہے اور دوسری طرف چین اور باقی سارے خاموش تماشائی۔ تماشہ بننے اور تماشہ دیکھنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ویسے تو بندے بندے میں بھی فرق ہوتا ہے۔ کوئی جلوہ گر ہوتا ہے اور کوئی جلوہ آراء ہوتا ہے۔ بہرحال چین اور امریکہ دونوں چین سے نہیں بیٹھ سکیں گے کیونکہ دونوں دنیائے عالم کی مارکیٹوں میں اپنا اپنا مال بیچنا چاہتے ہیں اور چورن تب ہی بکے گی اگر اچھی پیکنگ میں ہوگی اور ارزاں قیمت میں فروخت کی جائیگی۔ مال کا نایاب ہونا بھی شرط ہے۔ مجبوری کا فائدہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔ اب صارفین کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اپنا نفع نقصان دیکھ کر سودے طے کرنا ہونگے نہیں تو ایٹم بم تو تیار پڑے ہیں اور طالبان بھی ایک نئے جذبے اور ولولے سے میدان میں اتر رہے ہیں اور ان کا ہدف افغانستان ہے یا کافر ممالک اس کا فیصلہ آئندہ چند دنوں میں ہوجائیگا۔ کسی کی زمین استعمال کرنا بڑا آسان ہوتا ہے اور دوسروں کے مفاد کے لئے اپنی زمین غیر کو بلا مشروط مہیا کردینا بڑا ہی مشکل کام ہے اور ہم نے یہ مشکل کام کئی بار کیا ہے بلکہ بار بار کیا ہے۔ اب ہماری آنکھیں مکمل طور پر کھل چکی ہیں اور ہم اب بات بھی کھل کھلا کر کریں گے اور انشاء اللہ اب صحراؤں میں بھی تھوک کے حساب سے خود رو پودے اگیں گے اور پھر سوچ کے دیئے غلامی کی دنیا ہمیشہ کے لئے روشن کردیں گے۔ روشنی میں چیزیں صاف اور واضح نظر آتی ہیں اب شاید امریکہ امن کے خلاف میں نفرت کا تابوت نہیں لپیٹ سکے گا اور غربت کے خاتمے کے چکر میں تھرڈ ورلڈ کو قرضوں میں جکڑنا مشکل ہوگا۔ مارکیٹ کا کینوس کھلا ہوگیا ہے امریکی اور چینی مصنوعات ایک ہی دکان کے آمنے سامنے والے شیلفوں میں موجود ہیں اور خریدار نے حقیقت کی عینک پہن رکھی ہے۔ حقیقت تک پہنچنے کے لئے روڈ بیلٹ پروگرام موجود ہے۔ بخارا سمرقند اور کاشغر کے مکین انگڑائیاں لے رہے ہیں پاکستان مکمل طور پر بیدار ہو گیا ہے تاہم عرب ممالک اور ایران کو ابھی ہوش کے ناخن لینا ہیں بصورت دیگر ان کو لینے کے دینے پڑجائینگے۔ اس سارے کھیل میں رشیا کیا باونڈری لائن پر ہی بیٹھا رہے گا؟۔ شاید ہر گز نہیں وہ ایک پلیئر ہے لائن مین نہیں۔ دنیائے عالم کی اقوام کو متحد کرنے والا ادارہ ہچکولے کھا رہا ہے اور یہ اپنے مستقبل پر آپ ہی قہقہے مار رہا ہے۔ اسرائیل کو فی الحال کھلی چھٹی ہے اور وہ تھوک کے حساب سے فلسطینیوں کو مار رہا ہے۔ اسرائیل بھی اپنی نوعیت کا منفرد مارسانپ ہے جس کو جتنا جی چاہے عرب ممالک “چلیاں ” دودھ پلا لیں۔ اب ویسے تو مسلم ممالک کی آنکھوں سے خوش فہمی کے ککرے مسلم قوم کے خون سے دھو دیئے گئے ہیں اور انہیں تسخیر کائنات کے خواب کی عملی تفسیر پیش کرنا ہے لیکن یہ جان جوکھوں کا کام ہے اور مسلمان تو تساہل پسند ہو چکے ہیں ان میں سے بیشتر کو تو امریکی سرپرستی بہت پسند ہے اور اس نشے میں وہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں تاکہ فرقہ بندی کی بنیاد پر صف بندی کی جاسکے حالانکہ مخالف قوتیں ان کی نس بندی کا خواب دیکھ رہی ہیں ویسے تو خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں اور سوچ پر ویسے بھی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ البتہ سوچ کو بیدار کیا جا سکتا ہے اور اس کے لئے صور اسرافیل پھونکنے کی ضرورت ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کام امریکہ کرے گا، چین کریگا، ایران کریگا، افغان کریگا یا پاکستان یا ان ساروں کو ملکر کرنا ہوگا تاہم اس کام کے لئے انہیں روحانی قوت سعودی عرب سے لینا پڑے گی
بقول راقم الحروف
جس سے ہلچل مچے قصر اغیار میں
کوئی جدت وہ لا اپنے افکار میں
اے مسلمان! بیدار ہو، ہوش کر
وقت ضائع نہ کر بحثِ بیکار میں
(کالم نگار‘ممتاز شاعراورضلع بہاولنگر
میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہیں)
٭……٭……٭