تازہ تر ین

استحقاق

شفقت حسین
آج مجھے کسی تمہید باندھنے کی احتیاج ہے اورنہ ہی کسی منزل تمہید پررکنے کی ضرورت ہے۔ میں چونکہ رزقِ معرفت کی تلاش اور اس کے حصول کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتا ہوں اور خوش قسمتی سے یہ ہمیشہ مجھے میرے حصے‘ میری جستجو اور سعی کے مطابق ملتا رہتا ہے۔ میں نے جب بھی مطالعہ کیا بطور خاص اللہ بزرگ وبرتر کے پاک کلامِ برحق کا مجھے ماسوائے ذات واجب اوراس کی محبوب ترین ہستی سرکارِ دوعالمؐ کے کسی کا استحقاق نظر نہیں آیا لیکن چونکہ ہم نے کتاب ہدایت سے اورنہ ہی اس کے مبلغِ اعظم سے حتیٰ کہ اگر میں یہ بھی کہوں تو بے جانہ ہوگا کہ ہم نے خالقِ کائنات سے بھی ایک خاص مفہوم میں رہنمائی نہیں لی۔ ہم اپنے آپ کو ہدایت اور رہنمائی کا مکلف اورپابند ہی خود کو کبھی نہیں بناسکے‘اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے لیکن اس کے برعکس کسی بھی اچھی سے اچھی شے کا حصول اپنے استحقاق سے بڑھ کر استحقاق سمجھتے ہیں اس کے لئے ہمیں چاہے کسی بھی چیز کو پاؤں تلے روندنا ہی پڑے کسی کے حق پر ڈاکہ ہی کیوں نہ ڈالنا پڑے‘ کسی کاخون ہی کیوں نہ کرنا پڑے اور اس میں معاشرے کے دیگر افراد اور طبقات کے مقابلے پر ہمارے منتخب نمائندے ایک دوقدم نہیں بلکہ کوسوں آگے اور سرِ فہرست ہیں۔
ہم یہاں بھی ان کا استحقاق مجروح نہ کرتے ہوئے(کیونکہ ذرا ذرا سی بات پر معمولی سے معمولی اپنے خلاف ہونے والی بات پر ان کا استحقاق مجروح ہو جاتاہے)عرض کریں گے کہ یہ طبقہ بلاشبہ عوام کا براہ راست منتخب کردہ ہوتاہے بعض انتخابی حلقوں میں رائے دہندگان کی تعداد تھوڑی ہوتی ہے جبکہ اکثر مقامات پراور علاقوں میں ووٹرز لاکھوں میں ہوتے ہیں اس تناسب سے عوامی نمائندے لاکھ لاکھ ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ بسا اوقات دولاکھ سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس میں روپے پیسے کی کارفرمائی کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔
عوامی نمائندوں کا اثرورسوخ بھی فراموش کیے جانے کے لائق نہیں‘کہیں کہیں دھونس دھاندلی چھینا چھپٹی اور کلاشنکوف کلچر بھی اپنا اثر ظاہر کیے بغیر نہیں رہتے لیکن بعض عوامی نمائندے پُرامن بقائے باہم کے اصول پر چلتے ہوئے کسی منفی سرگرمی اور تشدد کا راستہ اختیار کیے بغیر بھی کامیاب وکامران ہوتے ہیں اور اپنی شرافت‘ متنانت‘ سنجیدگی کی بدولت عزت بھی انہیں حاصل ہوتی ہے۔ ہم اہل قلم بھی ان کے منہ سے نکلی ہوئی کسی بات کوچشمِ زدن میں عوام تک پہنچانے میں سبقتِ لسّانی حاصل کرنے کی فکر میں ہروقت رہتے ہیں بلکہ ہمارے دل میں بھی عوامی نمائندگان کی عزت واحترام معاشرے کے کسی بھی طبقے کے دل میں پائے جانے والے عزت واحترام سے کم نہیں بلکہ شاید کچھ زیادہ ہی ہو لیکن کبھی کبھی نہیں بلکہ اکثر قومی وصوبائی اسمبلیوں کے فلورپریاپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سینیٹرزحضرات بھی شریک ہوتے ہیں۔ عرصے سے ایک خاص اور مروجہ اصطلاح کے مطابق پورا ایوان مچھلی منڈی کامنظر پیش کررہا ہوتاہے اور زیر بحث مسئلہ استحقاق ہی ہوتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں قومی اسمبلی کے منعقدہ ایک اجلاس کے حوالے سے اسلام آباد میں مقیم میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز اور ”خبریں“ کے سینئر کالم نگار خضر کلاسرا نے ایک تفصیلی کالم لکھا جو اراکین اسمبلی کے استحقاق کے متعلق تھا ایک پوری ارکان اسمبلی کی فہرست انہوں نے کالم میں پیش کی جو معمولی معمولی باتوں پراپنے استحقاق کے حوالے سے سیخ پا تھے بلکہ چیخ رہے تھے ان میں ایک ممبر ریاض محمود مزاری جبکہ دوسرے معززرکن غوث بخش مہر تھے۔ ان دونوں ممبران کا استحقاق پولیس کے محکمے کے حوالے سے تھا جبکہ باقی نو دس کے قریب ممبران کا استحقاق کسی دیگر وجوہ سے مجروح ہورہا تھا۔
ریاض محمود مزاری کے استحقاق کی وجوہ کیا ہیں شاید وزیراعظم عمران خان زیادہ بہترطورپر جانتے ہوں یاان کے علاقے کے عوام اور صحافتی نمائندے علم رکھتے ہوں ہو سکتاہے ڈیرہ غازیخان کے آرپی او فیصل رانا کے علم میں یقینا ہوگا لیکن انہیں ایوان میں اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جاسکا لیکن جہاں تک غوث بخش مہر کا تعلق ہے ان کے مجروح ہونے والے استحقاق کو میں نے اپنی آنکھوں پر محدب عدسہ لگا کر دیکھا‘ خداگواہ ہے کہ مجھے کہیں ان کااستحقاق مجروح ہوتا ہوا نظر نہیں آیا ماسوائے اس کے کہ پولیس کسی غلط فہمی کی بناپر ان کی صاحبزادی کے گھر ضرور گئی لیکن قارئین! دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے اگر کسی وجہ سے استحقاق مجروح ہوا ہے تو ان کی صاحبزادی کاتو کہا جا سکتاہے کہ وہ بلاوجہ پریشان ہوئیں لیکن غوث بخش مہر کایہ کہناکہ میرا استحقاق مجروح ہوا ہے سراسر ناقابل فہم ہے۔ کسی رکن اسمبلی کے استحقاق کے ساتھ اس کے خاندان کے ارکان کو کس طرح جوڑا جا سکتاہے یہ سوال جواب طلب ہے۔
کائنات عالم کے استحقاقات قربان ہوں میرے حضور اکرمؐ کی نوکِ نعلین پر جن کے ہم نام لیوا ہیں جن کا اسوہئ حسنہ ہمارا مشعل راہ ہے جو جنگ کے زمانے میں بھوک کے باعث پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھے‘ جن کے لباسِ مبارک پر جگہ جگہ پیوند لگے ہوتے تھے‘ جو سارے استحقاق رکھنے کے باوجود صحابہ کرام ؓ کے درمیان چٹائی پر بیٹھ کرعام اور سادہ غذا تناول فرماتے تھے‘ جن کی صاحبزادی اوردخترِ نیک اختر کی چکی کی مشقت کے تذکرے آج بھی زبانِ زدِ عام ہیں۔آنحضورؐ کے چچا زاد اور داماد حضرت علیؓ کرم اللہ کی حیات مبارکہ بھی ہر مسلمان پر روزروشن کی طرح واضح ہے لیکن کہیں آپ کو نمودونمائش‘ ظاہری شان وشوکت اور استحقاق نظر نہیں آئے گا۔ اگر دنیاوی اعتبار سے دیکھیں تو جس خطہ ارضی پر ہم آزادانہ طورپر بغیر غلام بنے زندگی بسر کررہے ہیں اور جس کے دم سے بسر کررہے ہیں وہ قائداعظمؒ کی ذات ہے جو1941ء میں ایک مرتبہ لاہور تشریف لائے تو عوام کے ساتھ ساتھ کچھ طلبا سے بھی ان کی ملاقات ہوئی اور دوران گفتگو وہ ان سے گھل مل گئے اورایک مرحلے پر کہنے لگے کہ میں نے بطور وکیل پریکٹس شروع کی تو بڑے بڑے سینئر اور قابل وکلا موجود تھے۔ اس دور میں انگریز‘پارسی‘ عیسائی اور ہندو وکلاء کا طوطی بولتا تھا۔ لہٰذا غیر مسلم وکلاء میں مجھے اپنی جگہ بنانے کے لئے شدید محنت کرناپڑی۔
آمدم برسرمطلب قائداعظمؒ نے دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ یہ کہنابھی ضروری سمجھا کہ میں نے ذاتی زندگی میں محنت اور مشقت سے جو کچھ کمایا اوراس میں سے اپنی بقیہ زندگی کے لئے جو کچھ بھی پس انداز کیا وہ مجھے کافی ہے اوراب میرا استحقاق اتنا لمبا عرصہ محنت کرنے کے بعدیہی بنتا ہے کہ میں ریٹائرمنٹ کا استحقاق رکھتا ہوں لیکن میں ریٹائر ہونا پسند نہیں کرتا اس لئے کہ میرے نزدیک روپیہ پیسہ‘عزت‘ شہرت سب کچھ بے معنی ہے کیونکہ میں ایک غلام قوم کا فرد ہوں اور میں ہروقت آزادی کے لئے تڑپتا ہوں۔ قائداعظمؒ نے یہ بھی کہاکہ آزادی کا احساس مجھے ہروقت بے چین اور بے کل کیے رکھتاہے لیکن میں عمر کے آخری حصے میں بھی بیماری کے باوجود گھوم پھر کر آزادی کی راہ ہموار کر رہا ہوں تاکہ ایک آزاد ریاست حاصل کرسکوں۔
لیکن سچی بات ہے کہ ہم نہ تو بطور مسلمان تعلیمات نبویؐ پر دل سے کبھی عمل پیرا ہوئے ہیں اور نہ ہی بطور ریاستِ پاکستان کے شہری قائداعظمؒ کے فرمودات کو اہمیت دے سکے ہیں۔ ہماری نظر میں استحقاق کے کچھ حدود وقیود اور دوائر ہیں انہیں ہم توڑ نہیں سکتے چاہے کسی کوکسی بھی ایوان کی نمائندگی بھی حاصل ہو۔ہم ہی کیا حکومت اور وزارت داخلہ تک ان کے استحقاق کا احترام کرتی ہے یقین نہ آئے تو ذیل کی خبر پڑھ لیجئے جوپہلے شایداخبارات کے قارئین نے بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھی ہوگی کہ گزشتہ آٹھ سالوں سے ممبران پارلیمنٹ پر ممنوعہ بور کا اسلحہ رکھنے کی پابندی وزارت داخلہ نے ختم کردی ہے اوراب ہمارے معززاراکین اسمبلی بارہ بور‘ ٹرپل ٹو‘ موزر‘سیون ایم ایم اور پمپ ایکشن وغیرہ رکھ سکیں گے جس کی فیس ایک لاکھ روپے ہے۔ واضح رہے کہ ہماری نظر میں وزارت داخلہ نے ممبران کے استحقاق کے پیش نظر ہی ممنوعہ اسلحے کے لائسنس کی اجازت دی ہوگی لیکن یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ استحقاق اگر نہیں ہے تو صرف میرا نہیں ہے‘ عام عوام کا نہیں ہے۔
کیا میں عمائدین حکومت سے یہ پوچھنے کا استحقاق نہیں رکھتا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران21مرتبہ بجلی کے بلوں میں اضافہ کرکے صارفین پر دو ارب روپے کا بوجھ کیوں ڈالاگیا؟۔یہاں یہ امربھی باعث افسوس ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے حکومت کویہ اختیار دے رکھا ہے کہ وہ کسی بھی وقت بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرسکتی ہے۔کیا میرا یہ استحقاق نہیں ہے کہ پچھلے ماہ تک گردشی قرضہ2600ارب روپے کیسے ہوگیا؟۔ یہ قرضہ ماضی کی حکومتوں نے حاصل کیا یا کسی اور نے مگر خدا کی قسم اس لین دین میں میرا اور عام عوام کاکوئی کردار نہیں۔ کیا میں یہ استحقاق نہیں رکھتا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے عروج اور عذابِ مسلسل کا کیاجواز ہے؟ لیکن نہیں استحقاق صرف معزز اراکین اسمبلی کا ہے20/22کروڑ بھیڑ بکریوں کی مانند عام عوام کاہرگز نہیں۔
(کالم نگار سیاسی‘سماجی اورمعاشرتی موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain