میڈیا کی بہت ساری خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ جب کوئی پارٹی اپوزیشن میں ہو اسے یہ بہت پیارا لگتا ہے لیکن جونہی وہ پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو اسے سب سے زیادہ جھنجھلاہٹ اور چڑ اسی میڈیا سے ہو جاتی ہے۔ وہ میڈیا جو تکلیف و آزمائش کے دنوں میں پیارا اور راج دلارا ہوتا ہے، طاقت اور اقتدار آتے ہی وہ غیر ذمہ دار اور قابل اصلاح سمجھا جانے لگتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف جو خود بھی اقرار کرتی ہے کہ اس کے برسر اقتدار آنے میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ ایک بڑی وجہ میڈیا کا بھر پور ساتھ دینا تھا۔ لیکن کیا کیجئے کہ صرف 3 سال بعد ہی اسے اپنا مخالف سمجھنے لگی اور اس کی سمت درست کرنے کی باتیں ہی نہیں بلکہ عملی اقدامات ہو رہے ہیں۔پہلے پنجاب اسمبلی میں ارکان اسمبلی کا استحقاق بل لایا گیا جسے تمام حکومتی و اپوزیشن پارٹیوں نے اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر منظور کر لیا۔ یہ واحد موقع تھا کہ جب حکومت کو کرپشن کے خلاف اپنا اصولی موقف یاد رہا نا پیپلزپارٹی کو جمہوریت یاد آئی۔ مسلم لیگ ن جو عمران خان پر نریندر مودی کو ترجیح دینے سے نہیں کتراتی ”ووٹ کو عزت دو“کا نعرہ بھی فراموش کرکے اسی حکومت کے ساتھ جا بیٹھی جسے آج تک وہ تسلیم نہیں کرتی۔ بقول علامہ اقبال میڈیا کے خلاف
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
صحافیوں کے شور مچانے اور گورنر کے دستخط نا کرنے کے باوجود اس طفل تسلی کے ساتھ بل دوبارہ منظور کر لیا گیا کہ یہ قانون میڈیا کے خلاف استعمال نہیں ہوگا۔
ابھی پنجاب اسمبلی کا شور تھما نہیں تھا کہ وفاقی حکومت باقاعدہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس (پی ایم ڈی اے)کے نام سے نئی تلوار ہی نہیں پورا بم لے آئی ہے جسے پاکستان بھر کی تمام میڈیا تنظیموں نے بیک زبان مسترد کر دیا ہے۔ ویسے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے مروت میں اس کا نام پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی رکھا ہے حالانکہ یہ سیدھی سادی پاکستان میڈیا کنٹرول اتھارٹی(پی ایم سی اے)ہے۔
اس سے پہلے کہ اس مجوزہ اتھارٹی بارے مزید کچھ کہا جائے صحافیوں کی اپنی اخلاقی حالت کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔ برصغیر میں پہلا اردو اخبار 1830 کے بعد سامنے آیا۔ اس طرح پرنٹ میڈیا کی 3 صدیاں مکمل ہونے کے قریب ہیں۔ پاکستان میں اگرچہ ٹیلی ویژن کا آغاز 26 نومبر 1964 سے ہوا تاہم گزشتہ صدی کے اختتام تک صرف سرکاری ٹی وی کا راج رہا۔ملک میں الیکٹرانک میڈیا کا اصل دور رواں صدی کے ساتھ شروع ہوا……اور افسوس کہ صرف ڈیڑھ عشرے میں عروج پا کر واپسی کا سفر بھی شروع ہو گیا۔ آج صرف 20 سال بعد الیکٹرانک میڈیا پر غلبہ ٹیلی ویژن کا نہیں بلکہ سوشل میڈیا کا ہے۔2021 میں اس وقت کے حاکم جنرل پرویز مشرف نے ٹی وی چینلز کو دھڑادھڑ لائسینس دینے شروع کئے تو سوال پیدا ہوا ٹیلی ویژن کے اس وسیع تر کردار کے بعد کیا اخبار زندہ رہے گا؟ آج ٹی وی کا سورج ڈھلنے پر بھی اخبار زندہ ہے لیکن سوشل میڈیا کی چکا چوند میں جکڑے ٹی وی بارے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ٹی وی زندہ رہے گا؟ میرے خیال میں اخبار ختم ہوا نہ ٹی وی کہیں جا رہا ہے البتہ فطرتی ارتقائی عمل کے تحت انداز ضرور تبدیل ہو رہے ہیں۔بقول اقبال
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے ساز بدلے گئے
ٹی وی اور اخبار نے جس قدر جلد اور جتنے بہتر انداز میں خود کو نئی ضروریات کے مطابق ڈھال لیا، اسی قدر مقبولیت اور آب و تاب کے ساتھ یہ میڈم زندہ و جاوید رہیں گے۔
پاکستان میں جب ٹی وی چینلز کو عروج ملا تو اخبارات سے صحافی جوق در جوق ٹی وی کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ اخبارات میں جو تنخواہیں ہزاروں میں لیتے تھے وہ ٹی وی میں لاکھوں روپے لینے لگے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ یہ تاثر ابھارا گیا کہ ملک کے بڑے صحافی جس کی چاہیں حکومت گرا سکتے ہیں اور جسے چاہیں حکومت میں لا سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ یہ عروج مختصر ہی رہا۔ بقول اختر ضیائی
اس کو منزل ملی نہ گھر ہی رہا
تم سے بچھڑا تو دربدر ہی رہا
زیست صد جشن آرزو ہی رہی
یہ فسانہ بھی مختصر ہی رہا
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف جب بار بار یہ کہتے ہیں کہ اس حکومت کو جتنی سازگار فضا دی گئی تاریخ میں کسی کو نہیں ملی تو ان کا اشارہ مخصوص سمت کے ساتھ ساتھ میڈیا کی طرف بھی ہوتا ہے کیونکہ پاکستان میں میڈیا کبھی اتنا کم خطرناک نہیں رہا جتنا آج ہے۔ بڑے بڑے صحافی اور اینکر پرسن اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں اور مکاتب فکر کو پیارے ہو چکے۔ مخالف صحافی دن رات حکومت کے لتے لینے میں لگے ہیں جبکہ حکومت کے پیارے حکمرانوں کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملانے میں مصروف ہیں لیکن عوام پر ان کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ بقول میر تقی میر
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
اس بے توقیری میں حادثات زمانہ کے ساتھ ساتھ صحافیوں کا اپنا رویہ بھی شامل ہے۔ ضروری تھا کہ وکلا اور ججز کے احتساب کیلئے بنائے گئے اداروں کی طرز پر صحافیوں اور میڈیا کے بھی ادارے موجود ہوتے جن کی باگ ڈور حکومت کے بجائے صحافیوں کے اپنے ہاتھوں میں ہوتی۔ کالی بھیڑوں کے گرد خود شکنجہ سخت کیا جاتا، اس طرح صحافیوں کو اپنی مونچھیں کسی اور کے ہاتھ میں دینے کی نوبت ہی نہ آتی۔ لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔اب عالم یہ ہے کہ صحافت کے وہ بڑے بڑے نام جو میر تقی میر کے انداز میں کہا کرتے تھے
سارے عالم پر ہوں میں چھا یا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
وہ جغادری جن کی ٹی وی چینلز پر مراعات ملینز روپے ماہانہ ہوتی تھیں بیروزگاری سے تنگ آکر سوشل میڈیا میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ یو ٹیوب، فیس بک پر اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی دکانیں بنا کر سنسنی خیزی، غلط بیانی، فریب، جھوٹ، بہتان تراشی سمیت ہر وہ چیز بیچ رہے ہیں جن کے خریدار ان کو میسر ہیں۔خود احتسابی کے فقدان کے باعث سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ بڑی ڈھٹائی سے پیاروں کے کرتوتوں پر پردے ڈالے جبکہ مخالفین کے کھاتوں میں ناکردہ گناہ بھی لکھے جا رہے ہیں۔ ایسے میں نہیں لگتا سوشل میڈیا اپنے عروج کا ایک عشرہ ہی پورا کر سکے۔آج ضروری ہو گیا ہے کہ اہل صحافت اپنے طرز عمل کا خود جائزہ لیں تاکہ ریاست کے اس اہم ستون کی ساکھ برباد ہونے سے بچائی جا سکے۔ دوسری طرف حکومت بھی میڈیا کو اپنے زیر نگیں لانے کی خواہش ترک کر دیااور صحافت کی تطہیر کا عمل اپنے ارتقا کی طرف جانے دے نہ یہ صرف ملک اور جمہوریت ہی نہیں بلکہ حکومت کے لئے بھی بہتر ہوگا۔
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭