ندیم اُپل
13 اگست کی شب جب آفس کا کام مکمل کرنے کے بعد گھر جانے کیلئے روانہ ہوا تب پاکستان کا 75واں یوم آزادی پانچ منٹ کے فاصلے پر تھا اور یہ پانچ منٹ کافاصلہ ریگل چوک (مال روڈ)تک پہنچے پہنچتے طے ہو چکا تھا۔پھر ٹھیک رات 12بجتے ہی مال روڈ پر منچلوں نے ایسا شور شرابہ کیا کہ عہد حاضر کاپاکستان میں نے اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا۔ مال روڈ روشنیوں میں نہایاہوا تھا جن کے دلوں میں جھوٹ اور منافقت کے اندھیرے تھے انہوں نے بھی اندر کے اندھیروں کو باہر کی روشنیوں میں چھپا رکھا تھا۔اچانک دیکھتے ہی دیکھتے طوفان بدتمیزی اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ممی ڈیڈی نوجوانوں کی موٹر سائیکلز کے سائلنسرز نے ایسی خوفناک آوازیں نکالناشروع کر دیں جیسے بد روحیں چیخ رہی ہوں۔میرے قریب سے گزرنے والی نوجوانوں کی موٹر سائیکلزکی لمبی قطار نے بھونپوبجا بجا کر حشر کا سماں بپا کر رکھا تھا۔سرخ اشارے پر رکنے والی گاڑیوں میں بیٹھی فیملیز کے سامنے بیچ چوراہے میں ممی ڈیڈی نوجوانوں نے انڈین گانوں پر اس طرح سے وحشیانہ انداز میں ڈانس شروع کر دیا کہ گاڑیوں میں بیٹھی خواتین اور بچے یوں سہم گئے جیسے ایک با ر پھر آزادی کے قافلوں پر دشمن حملہ آور ہونے والے ہوں۔اسی دوران نوجوانوں کی ایک اور ٹولی بیڈن روڈ سے نمودار ہوئی اور ان جوشیلے نوجوانوں نے آتش بازی کے نام پردل ہلادینے والے پٹاخے چھوڑ کر ایسا خوف پھیلا دیا گویا کوئی بڑا سونامی آرہا ہو۔ان نوجوانوں کے تیور بتا رہے تھے کہ اگر کسی شریف شہری یا بزرگ نے انہیں منع کرنے کی کوشش کی تو وہ اس کی پگڑی اچھالنے میں ذرا دیر نہیں کریں گے۔اسی دوران مخالف سمت سے ایک ہارن بجاتی ایمبولینس کا گزر ہوا مگر اس کے ہارن کی آواز نوجوانوں کے بھونپو اور باجوں میں دب کر رہ گئی جس کے اندر ایک مریض کو آکسیجن لگی ہوئی تھی۔زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا اس مریض کی ایمبولینس کو بھی راستہ نہیں مل پا رہا تھاخدا جانے وہ مریض زندہ سلامت ہسپتال پہنچا ہوگا یا نہیں مگر ہماری نوجوان نسل جس نہج پر پہنچ چکی ہے وہ ہماری قوم کا بہت بڑا المیہ ہے۔
اسی دوران جب مال روڈکی دوسری طرف نظریں اٹھیں تو وہاں کچھ فیملیاں لب سڑک آئس کریم انجوائے کر رہی تھیں۔فاسٹ فوڈ کی دکانوں پر یوں رش تھا اوردھکم پیل ہو رہی تھی گویا لنگر تقسیم ہو رہا ہو۔اس سے کچھ فاصلے پر اونٹ کی سواری کرانے والی گاڑی بھی کھڑی تھی جس میں کچھ دیسی اور کچھ ولائتی فیملیز اپنے بچوں کے ساتھ انجوائے کر رہی تھیں۔ایک اچھا سین یہ دیکھنے کو ملا کہ اسی اونٹ گاڑی میں لیجنڈ گلوکار مہدی حسن کا یہ قومی گیت بج رہا تھا:
یہ وطن ہمارا ہے
ہم ہیں پاسباں اس کے
مگر یہ نغمہ مال روڈ پر غل غپاڑہ کرنے اور اودھم مچانے والے نوجوانوں سے یہ سوال بھی کر رہا تھا کہ کیا پاسبان ان جیسے ہوتے ہیں؟ اسی دوران میرے قریب سے ایسے ہی منچلے نوجوانوں کی موٹر سائیکلز پر ایک اور لمبی قطار گزری۔ان نوجوانوں کی موٹر سائیکلز میں ایک خاص بات یہ تھی کہ ان کی پشت پر نمبرپلیٹ کی جگہ جعلی حروف میں یہ الفاظ درج تھے ”مزے مزے“
لیکن ”مزے مزے“ کرنیوالے آج کے ان نوجوانوں نے آزادی کے دوران ہندووں کے وہ نیزے بھالے کہاں دیکھے ہوں گے جو پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان آنے والے قافلوں میں شریک مسلمانوں کے سینوں میں اتار دیے گئے تھے۔ان نوجوانوں نے تو سکھوں کی وہ کرپانیں بھی نہیں دیکھی ہوں گی جو قافلوں میں شریک حاملہ مسلمان عورتوں کے شکموں میں پار کرکے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی ان کے بچوں کو ہوا میں اچھال دیا گیا تھا۔ایسے عاقبت نااندیش نوجوانوں نے توہندوستان سے آنے والی اس آخری ٹرین میں آنے والی ان بند بوریوں کو بھی کھول کر نہ دیکھا ہوگا جو نوجوان لڑکیوں کے جسمانی اعضا سے بھری پڑی تھیں۔
یہ تھیں وہ قربانیاں اور یہ تھی آزادی کی وہ قیمت جو ہمارے بزرگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے حاصل کی تھی مگر ہم تواس آزادی کی حفاظت بھی نہ کرسکے۔بابائے قوم نے پاکستان کی صورت میں جو امانت ہمارے سپرد کی تھی آزادی کے چوبیس برس بعد ہی ہم نے اس کی امانت میں بھی خیانت کر دی اور ہمارا مشرقی بازو کٹ گیا مگر ہم پھر بھی نہیں سمجھے۔ آج کوئی بتائے کیا یہ آزادی ون ویلنگ کرکے،موٹر سائیکلزکے سائلنسز نکال کر اور ماؤں بہنوں کی گاڑیوں کا راستہ روک کر اور ان کے سامنے ڈانس کرکے حاصل کی گئی تھی۔اس کا جواب شاید کسی کے پاس بھی نہ ہو۔پھر جب آزادی مل گئی اور اللہ کے دین کی حرمت کا سوال آیا تو ایک ترکھان کا بیٹا ایک گستاخ رسول کو جہنم واصل کرکے غازی علم اّلدین شہید قرار پاتا ہے۔اسی طرح جب اس ملک کی قومی سلامتی اور دفاع کا موقع آتا ہے تو کوئی میجر عزیز بھٹی شہید،کوئی میجرشبیر شہید اور کوئی راشد منہاس بن جاتا ہے آج کے ایسے نوجوان جویوم آزادی کے موقع پر اس طرح کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں میں کیسے توقع کروں کہ ان میں سے ہمیں مستقبل کا کوئی غازی علم الدین شہید،کوئی میجرعزیز بھٹی شہید اور کوئی راشد منہاس شہیدمل جائے گا۔دنیا کے سارے ”مزے مزے“ دنیا میں ہی رہ جائیں گے اور دوام صرف انہی کو ملے گا جو سناں کی نوک بھی آواز حق بلند کریں گے۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭