جاوید ملک
افغانستان میں امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں کی ذلت آمیز شکست کے بعد صورتحال یہ ہے اب تک چار لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو کر کابل میں پناہ گزین ہوئے تھے انکی تعداد میں مزید اضافہ ہورہا ہے بھوک، بیماری اور غربت میں زندگی گزارنے والے افغانستان کے لاکھوں افراد سامراجی طاقتوں کے خونی پنجوں میں گزشتہ چار دہائیوں سے جکڑے ہوئے ہیں اور اب پھر ایک نئی خانہ جنگی کا آغاز ہونے جا رہا ہے جس کے گہرے اثرات پاکستان کے محنت کش طبقے پر بھی مرتب ہوں گے۔
بائیں بازو کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دودہائیوں کی امریکی سامراج کی مسلط کردہ جنگ کی ناکامی نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر اس خونریزی اور بربادی سے نجات ممکن نہیں۔ دو ہزار ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کرنے اور لاکھوں کی تعداد میں فوج تعینات کرنے کے باوجود امریکی سامراج اور اس کے تمام تر اتحادی افغانستان کو ایک جدید ریاست بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ سامراجی طاقتوں کی مسلط کردہ کابل حکومت امریکی فوجوں کے مکمل انخلا سے پہلے ہی گرنا شروع ہو گئی تھی۔ تین لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل فوج امریکہ کے فراہم کردہ اسلحے سے لیس ہونے کے باوجود تاش کے پتوں کی طرح بکھر چکی ہے۔ افغانستان پر سامراجی طاقتوں کی جانب سے مسلط کردہ اس حکومت کو کبھی بھی عوامی حمایت نہیں مل سکی تھی اور یہ اپنے آقاؤں کی بیساکھیوں پر ہی قائم تھی۔ جیسے ہی وہ بیساکھیاں سرکنے لگی تو یہ دھڑام سے زمین بوس ہوگئی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں فراڈ الیکشنوں اور دیگر طریقوں سے اس حکومت کو مسلط کر کے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ افغانستان میں جمہوریت قائم ہو گئی ہے۔ لیکن خطے کے لوگ بخوبی جانتے تھے کہ اس عمل میں سامراجی طاقتیں اپنی کٹھ پتلیوں کو فوجی طاقت کے بل بوتے پر مسلط کر رہی ہے جبکہ عوام میں ان کے خلاف شدید نفرت اور غم و غصہ موجود ہے۔ ان کٹھ پتلیوں کی کرپشن، بے دریغ لوٹ ماراور عوام دشمن کارروائیوں کے باعث اس نفرت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور آج اس کا نتیجہ واضح ہے کہ شمال میں موجود اپنے محفوظ ترین علاقوں میں بھی یہ اپنے سے کئی گنا کم قوتوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہیں۔ شیرغان، کندوز اور دیگر ایسے شمالی علاقے جو اس کابل حکومت کے سب سے مضبوط گڑھ سمجھے جاتے تھے وہاں بھی یہ ابتدائی مراحل میں ہی بدترین شکست سے دوچار ہو گئے۔
المیہ یہ ہے کہ اس سامراجی کٹھ پتلی کے خلاف خانہ جنگی برپا کرنے والی قوتیں بھی مختلف سامراجی طاقتوں کی ہی کٹھ پتلی ہے اور اس قوت سے بھی عوام کی شدید نفرت اور حقارت موجود ہے۔
یہ سطور تحریر کی جاچکی تھی کہ افغانستان سے حیران کن خبر سامنے آئی کہ جلال آباد سمیت دس دیگر شہروں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد نے افغانستان کے پرچم بلند کرتے ہوئے طالبان کے خلاف مظاہرے کیے اور ان مظاہروں پر طالبان کی طرف سے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجہ میں تین افراد ہلاک اور بارہ شدید زخمی ہوگئے اسی طرح کا ایک حیران کن احتجاج خواتین کی طرف سے بھی کیا گیا جس میں انسانی بنیادی حقوق اور روزگار کی فراہمی کے ساتھ ساتھ خواتین نے اپنے مطالبات پیش کیے تاہم موجودہ افغان فورسز نے خواتین کے مظاہرے پر فائرنگ نہیں کی ایک ممتاز تجزیہ نگار کے مطابق یہ مظاہرے ثابت کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں افغانستان کے اندر مخلوط یا کسی بھی نوعیت کی جو بھی حکومت بنائی جائے گی اسے بھرپورعوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اگر طالبان نے پچھلے بیس سال میں کچھ سبق حاصل کیا ہے تو افغانستان میں بسنے والے چار کروڑ عوام نے بھی بہت سے تلخ اسباق پڑھے ہیں جس کا غیر متوقع اظہار جلال آباد سمیت دیگر شہروں میں ہونے والے مظاہروں کو دیکھ کر بآسانی کیاجاسکتا ہے۔
(کالم نگار سیاسی و سماجی ایشوز پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭