تازہ تر ین

تجارتی حجم میں خاطرخواہ اضافے کی ضرروت

ڈاکٹر شاہد رشیدبٹ
افغانستان کی صورتحال میں بہت تیزی کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہو ئیں ہیں،طالبان ایک مرتبہ پھر کابل کی حکومت حاصل کر چکے ہیں،اور سابق افغان قیادت ملک سے فرار ہو گئی ہے۔بہر حال سیاسی معاملات تو اپنی جگہ پر لیکن اس تمام ترصورتحال کے معاشی مضمرات پر بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ افغانستان ایک غریب ملک ہے اور اس سے تجارت کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہے لیکن حقیقت اس عمومی تاثر سے یکسر مختلف ہے۔
پاکستان تجارت کے لیے افغانستان کے لیے کلیدی حیثیت کا حامل ہے اور افغانستان سے سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے جبکہ دوسری طرف افغانستان کی اہمیت بھی پاکستان کے لیے کسی طور پر بھی کم نہیں ہے اور افغانستان پاکستان کی برآمدات کے لیے دنیا کی چوتھی بڑی ما رکیٹ ہے۔اور حالیہ برسوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت میں خاطر خواہ اضافہ بھی دیکھا گیا ہے۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2021ء میں پاکستان کی افغانستان کو برآمدات 15فیصد اضافے سے 869ملین ڈالرزہیں جو کہ گزشتہ برس 754ملین ڈالر تھیں۔ پاکستان نے آئندہ برس افغانستان کو 1.5ارب ڈالر تک کی برآمدات کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے جو کہ مشکل ہے لیکن بہر حال محنت کے ساتھ حاصل کیا جاسکتا تھا لیکن اب افغانستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں اس ہدف کا حصول مشکل دیکھائی دے رہا ہے۔تقریباً دو ہفتے قبل پاکستان اور افغانستان کے درمیان سپین بولدک کا بارڈر طالبان کے قبضے کے بعد بند کر دیا گیا اور اس تحریر کے لکھتے وقت تک تجارت کے لیے بند ہے جبکہ کچھ ایسی ہی صورتحال طو رخم بارڈر کی بھی ہے۔ لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ یہ صورتحال عارضی ثابت ہو گی کیونکہ طالبان افغانستان میں حکومت قائم کر چکے ہیں،اور بڑی حد تک معاملات کو کنٹرول میں لے چکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں طالبان نے کابل میں پریس کانفرنس کی ہے اور اس پریس کانفرنس میں جہاں پر طالبان نے عالمی برادری کے ساتھ مل کر چلنے کی خواہش کا اظہار کیا وہیں پر انہوں نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے جا ئیں گے۔ان کی اس بات سے یہ محسوس ہو تا ہے کہ آنے والے چند دنوں میں افغانستان کے ساتھ پاکستان کی تجارت کی صورتحال آہستہ آہستہ معمول پر آنا شروع ہو جائے گی اور پاکستان کو اس حوالے سے زیادہ نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا،اور اعداد و شمار بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔کسٹمز کے اعداد و شمار کے مطابق 15اگست کو پاک افغان سرحد پر 415مال بردار ٹرکوں کی نقل و حمل دیکھی گئی،جو کہ ریکارڈ کم سطح پر تھی لیکن دو روز بعد ہی جیسے ہی افغانستان کی صورتحال کچھ واضح ہو ئی تو 17اگست کو پاک افغان سرحد پر 1123مال بردار گاڑیوں نے سرحد عبور کی جبکہ محرم گزر جانے کے بعد اس تعداد میں مزید اضافہ بھی متوقع ہے۔
پاک افغان سرحد پر ابھی تک صورتحال مکمل طور پر کنٹرول میں ہے اور وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق ابھی تک سرحد پر مہاجرین کی آمد کے بھی کوئی آثار نہیں ہیں۔ یہ پیشرفت بھی پاکستان کے لیے بہت مثبت ہے اور افغانستان میں زندگی معمول کے مطابق ہونے کا ایک اشارہ ہی تصور کی جاسکتی ہے۔ میں پہلے بھی اپنی تحریر وں میں اس بات کاذکر کرتا رہا ہوں کہ پاکستان کی برآمدات کے لیے منڈیاں روایتی اور قلیل رہی ہیں جس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان روایتی طور پر امریکہ،یو رپ اور چین کو ہی برآمدات کرتا آیا ہے جبکہ دنیا اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے،پاکستان کو مشرق وسطیٰ،افریقا،وسطی ایشیا ء اور لا طینی امریکہ میں اپنی برآمدات کو وسعت دینے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک جن میں افغانستان اور ایران قابل ذکر ہیں ان کے ساتھ اپنی موجودہ تجارتی حجم میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف برآمدات کے شعبے کے لیے انپٹ کا سٹ کو کم کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت کو درکار را میٹریل جس میں بجلی،گیس،پانی کے علاوہ لیبر اور کپاس بھی شامل ہیں کی قیمتوں میں خا طر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہو ئی قیمتوں کے باعث ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے،جبکہ پاکستان کے تمام ہمسایہ ممالک،اور خصوصا ً بھارت اور بنگلہ دیش میں ان بنیادی ضروریات کی قیمتیں برآمدی صنعت کے لیے نہایت ہی کم ہیں۔
پاکستان کے برآمد کنندگان نے ہمسایہ ممالک میں کرونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کے باعث فائدہ اٹھا یا اور پاکستان کی برآمدات میں اضافہ کیا لیکن اب بڑھتی ہو ئی انپٹس اور ہمسایہ ممالک کی صنعتیں فعال ہونے کے باعث اب پاکستان کے برآمد کندگان کو سخت مقابلے کا سامنا ہو گا حکومت پاکستان کو فوری طور پر اس حوالے سے توجہ دینے اور اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔خصوصا ً حکومت پاکستان کو کپاس اور کاٹن کی پاکستان میں مقامی پیدا وار میں اضافہ کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ سپننگ انڈسٹری اس وقت ٹیکسٹائل شعبے کے آرڈر پورے نہیں کر پا رہی ہے۔ بھارت میں سستے داموں میں یہ اشیا ء امپورٹ ضرور کی جاسکتی ہیں لیکن موجودہ حالات میں ایسا ممکن نہیں ہے لہذا پاکستان کو اپنے دم پر ہی اپنی ٹیکسٹائل کی صنعت میں استعمال ہونے والی اشیا ء کی پیدا وار میں خاظر خواہ اضافہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف پاکستان کی صنعت کی ضرورت پوری ہو بلکہ کپاس اور کاٹن کی قیمتوں میں بھی کمی آسکے۔
(سابق صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain