نگہت لغاری
کائنات بھر میں پھیلی بے سکونی اور انتشار نے مجھے اتنا بے سکون کر دیا ہے کہ مَیں اپنی سوچ بچار کے میز پر چاروں آسمانی کتابوں کو سامنے رکھے کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہوں۔ مجھے اپنی کم علمی، کم مائیگی اور کمزوری کا پورا پورا احساس ہے اور مجھے یہ بھی علم ہے کہ مَیں اس نصاب کو پوری لگن، ایمانداری اور محنت سے پڑھنے کے باوجود بھی کامیاب نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کوئی حل نکال لینے کا دعویٰ کر سکتی ہوں لیکن مَیں ضرور کوشش کروں گی کہ اِن آسمانی کتابوں سے وہ اقتباسات اپنے قارئین تک پہنچاؤں جنہیں ہم نے اپنی دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے درجہ دوم پر رکھا ہوا ہے۔
ہم خوش قسمت تھے کہ ہمارے پاس وہ کتاب آئی جو تمام آسمانی کتابوں کا خلاصہ ہے اور اس میں موجود وہ سارے علوم ہیں جو اس کرہ ارض میں موجود ہیں۔ یہ کتاب مقدس علم اور ٹیکنالوجی کا وہ سمندر ہے جس میں انسان کو علم و فہم اور راہ راست پر رہنے کے وہ تمام گُر، ہیرے موتیوں کی طرح اس کی تہہ میں اُبل رہے ہیں لیکن ہم ان کو پکڑنے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتے۔ ہمارے صوفیا اور اولیا چونکہ حوصلہ اور طاقت رکھتے تھے، وہ بلاخطر اس سمندر میں کود پڑے اور انسان کے لئے ان ہیرے موتیوں سے ایسے کشتے تیار کئے کہ انسانوں کو روحانی طور پر شفایاب کر دیا تھا۔ وہ اور صحت مند ہو کر اچھے اچھے کام سرانجام دیتے گئے مگر افسوس ہم نے ان معالجوں کی دوائیوں کو OUT-DATED سمجھ کر الماریوں میں بند کر دیا۔ ان کی اس بے قدری پر قادر مطلق کو اتنا غصہ آیا کہ اس نے یہ معالج بھیجنا ہی بند کر دیئے اور جسم کو سہولت اور شفا دینے کے اتنے معالج بھیج دیئے کہ انسان اب صرف اپنی جسمانی بیماریوں کا علاج ڈھونڈنے میں لگ گیا ہے، روحانی بیماری کو انہوں نے بیماری کے درجے سے ہی ہٹا دیا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہم انسانوں نے صرف جسم کی بیماری کو ہی بیماری سمجھا ہے اور اس کی شفا کیلئے اتنا آگے بڑھ کر محنت کی ہے کہ معجزوں کے قریب جا پہنچے ہیں۔ یہ بھی یقینا لازمی تھا اور انسان کو جسمانی شفا کی بھی ضرورت تھی مگر یہ کیوں نہ سوچا کہ انسان کی ساخت دو حصوں پر مشتمل ہے، جسم اور روح۔ ہم نے انسان کے صرف ایک حصہ (جسم) پر ساری محنت، ساری لگن اور ساری جستجو صرف کر دی اور دوسرے حصے کو بے یارومددگار چھوڑ دیا۔ اس حصہ (روح) کو بھی تو علاج معالجے کی ضرورت تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انسان بے توازن ہو گیا اور لنگڑا کر چلنے لگا اور یہ منطقی نتیجہ تھا۔
ہم تو خوش بخت تھے کہ ہمیں ایک ایسی کتاب عطا کی گئی تھی جس کا مصنّف خود خدا ہے، جس کا ہر نقطہ اگر کسی اور انسان کی آنکھ میں اتر آئے تو اسے زندگی بھر کسی عینک یا مصنوعی لینز کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ ایسی مکمل اور مفصل تدریسی کتاب ہے جو زمان و مکان کا تمام علم اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اس میں ہے کہ خدا نے انسان کو عقل اور تمیز دی اور اپنی قدرت کے ایسے آثار دکھلائے کہ انسان کی نافرمانی کی کوئی حجت باقی نہیں رہتی۔ اس میں طرز حیات اور طرز حکومت کی اتنی خوبصورت اور سہل تجاویز ہیں کہ اس کو سمجھ کر پڑھنے کے بعد انسان مسرور و شاداں ہو جاتا ہے۔ یہ ایک خوبصورت جہان میں لے جاتی ہے جہاں پہنچ کر انسان حیران ہو جاتا ہے۔ اس میں اپنی امنگوں کو بیدار رکھنے کی باتیں ہیں۔ اس میں خوشبوؤں اور خوبصورتی کی باتیں ہیں۔ اس میں اپنے ارتقا اور ترقی کیلئے خوشی خوشی کام کرنے کی تلقین ہے۔یہ کتاب کہتی ہے انسان کو ہم نے اشرف المخلوقات بنا کر ایسی طاقت اور توانائی بخش دی ہے اور اس میں ایسے معجزات سے نواز دیا ہے جو اس کی طاقت اور اختیار کا واضح ثبوت ہے۔ وہ کتاب حکیم کہتی ہے انسان کو ہم نے کیسی طاقت عطا کر دی۔ جب میرے پیغمبرؐ نے اپنی ایک نازک انگلی سے ایک طاقتور سیارے چاند کو دو نیم کر دیا یا میرے ایک بندے (موسیٰؑ) نے اپنے دشمن سے بچنے کیلئے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے بے قابو اور خودسر سمندر کو اپنی لکڑی کی ایک معمولی سوٹی سے اپنا راستہ بنانے کیلئے دو پاٹ کرکے اپنے نکلنے کا راستہ بنا لیا، یا جب میرے ایک اور بندے (حضرت عیسیٰ) نے ایک ماں کو اپنے بچے کی موت پر غم سے نڈھال چیختے دیکھا تو ایک ہاتھ پھیر کر اسے زندہ کر دیا۔ کیا آپ سب انسانوں کے لئے اپنی طاقت و توانائی کے یہ اظہار کافی نہیں؟ یا اب تمہاری جسمانی سہولت اور شفا کیلئے عام انسانوں (سائنس دانوں) کو یہ طاقت عطا نہیں کر دی کہ وہ معجزے کے قریب جا پہنچے ہیں۔ میرا ایک شعر ہے۔
پاؤں رکھ کر حسین چاند تم
خود اندھیرے میں ڈوب جاتے ہو
ایک فرانسیسی مصنف کہتا ہے ”ایک انسان (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اتنا علم کیسے اکٹھا رکھ دیا گیا کہ وہ بیک وقت سائنس دان، ماہر نفسیات، باخبر استاد اور اعلیٰ ترین فوجی کمانڈر ہو۔ فوج سے متعلق اس کی حکمت عملی اور معاملات اب بھی مروج اور تازہ ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ہم نے اس تدریسی کتاب (قرآن حکیم) کو اتنا مشکل اور ناقابل فہم بنا دیا ہے کہ ہماری نئی نسل اسے مشکل سمجھ کر اس سے جان چھڑاتی ہے اور بیزار ہے۔ اس کو چند احکامات تک محدود کر دیا گیا ہے جس سے انسان اسے پابندیاں سمجھ کر الگ ہو گیا ہے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا تھا میری شریعت کو میرے بعد اتنا مشکل نہ بنا دینا کہ لوگ اسے شوق اور خوشگواری سے نہ اپنائیں بلکہ مجبوری سمجھ کر بیزار ہو جائیں۔ حضور اکرمؐ بار بار کہتے ہیں، کسی معاملے میں انتہاپسندی نہ اپناؤں، اپنے اندر پاک اور پاکیزہ خواہشات بیدار رکھو یہ تمہیں آگے بڑھاتی ہیں اور سکون مہیا کرتی ہے۔ احساس لذت تمہارا بشری حق ہے، اخلاق کے دائرے میں رہ کر تم ضرور لطف اٹھاؤ۔ اچھے کو اچھا اور برے کو برا سمجھنا کیونکہ اس سے حُسن و قبیح کا منطقی ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ہم قرآن حکیم کی ہر تاویل کو الٹا کرکے پڑھتے ہیں جیسے اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا کہا جائے گا۔ فتنہ پروری جو کشت و خون سے بڑھ کر ہے، عام ہو جائے گی، لوگ دنیا کی خاطر دین کو بیچ دیں گے اور مالداروں کی تعظیم کی جائے گی۔ خواتین کی پردہ داری ختم ہو جائے گی اور زنا محصنہ جس میں مرد عورت دونوں کی رضا شامل ہوتی ہے، رواج بن جائے گا اور یہ وقت وارد ہو چکا ہے۔
حاکم کے لئے بہت ہی معنی خیز دُوررس اور موقر ترین ہدایات ہیں۔ حکومت میں ایسے لوگ لائے جائیں جو اختیار اور انصاف کو امانت سمجھیں۔ حاکم طاقتور ہونے کے باوجود اپنے آپ کو کمزور سمجھے۔ اسے چاہئے کہ وہ حکومت سے وابستہ ہونے کے بعد خدا سے وابستہ ہو جائے اور یہ یقین رکھے کہ اچھی منصفانہ حکومت میں غیب کی امداد شامل ہوتی ہے اور اس کی حکومت سے وابستہ تمام مشکلات دور ہو جاتی ہیں۔ حاکم کا منصف ہونا، اس کی حکومت کا سب سے پہلا جزو ہے۔ وہ جب کوئی مقدمہ سنے تو ظالم اور مظلوم دونوں کے ساتھ اپنا رویہ متوازن رکھے۔ ظالم کے ساتھ لہجہ درشت رکھے، نہ مظلوم کے ساتھ نرم رویہ ظاہر کرے۔ کسی بھی مقدمے میں مطلوب حاکم اپنے آپ کو انصاف کے کٹہرے میں عام آدمی کی طرح کھڑا کرے۔ نور الّدین زنگی اپنے دور حکومت میں ہر وقت ایک قاضی اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ اگر اس سے کوئی زیادتی ہوتی تو وہ کسی ساتھ کی مسجد میں قاضی کو منبر پر کھڑا کرتا اور اس کے سامنے سر جھکا کر کھڑا ہو جاتا اور اسے کہتا کہ اسے اسی وقت سزا سنائی جائے۔ اس طرح جنگ کے بارے میں کتاب مقدس کہتی ہے اگر جنگ کرو تو جھوٹ اور بے انصافی کی خاطر لڑو، اپنے مفادات کیلئے کسی ملک یا قبیلے کے ساتھ جنگ نہ کرو۔ مدمقابل کیلئے اپنے دل میں نفرت یا کینہ نہ رکھو کیونکہ یہ احساسات قادر مطلق کو پسند نہیں۔ اس لئے تم شکست سے دوچار ہو سکتے ہو۔ اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تیار اور چوکنا رہو۔ اگر طاقت اور اسباب میں زیادہ بھی ہو تو اپنے آپ اور اپنے ساتھیوں کو کمزور سمجھو۔ یہی احساس تمہیں طاقت دے گا۔
مَیں کوئی کریڈٹ نہیں لینا چاہتی لیکن کچھ ماہ قبل مَیں نے اپنے ایک اردو کالم میں کچھ ایسے ہی نسخے حاضر کئے تھے۔ (خبریں (22-5-2021) اور آخر میں عرض کیا تھا کہ قرآن کا تدریسی علم لوگوں کو Deliver کرنے کے لئے اساتذہ لے آئیں۔ کندھے پر روایتی رومال رکھے ہوئے تندرست مگر حکومت اور اختیار کے بھوکے علما کے پاس صرف شریعت کی کتاب ہے جو صرف پہلی کلاس میں پڑھائی جا سکتی ہے۔ علم کے لئے تو بہت سی اگلی کلاسوں کیلئے بھاری نصاب موجود ہے۔
(کالم نگارانگریزی اوراردواخبارات میں لکھتی ہیں)
٭……٭……٭