اسرار ایوب
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال پر ایئر مارشل اصغر خان صاحب(مرحوم) کا ایک انٹرویو یاد آگیا، اُن سے پوچھا گیا کہ آپ اتنے بااصول اور سچے ہیں تو سیاست میں مقبول کیوں نہیں ہوئے؟جواب میں اصغرخان صاحب نے یہ دلچسپ سوال کیا کہ میں مقبول نہیں ہوا تو کون ہوا، ”بابائے قوم“ جنہیں شدید علالت کی حالت میں کراچی لایا گیا تو ایئر پورٹ پر ایک ایسی ایمبولنس بھیجی گئی جو راستے میں ہی خراب ہو گئی، یا لیاقت علی خان جنہیں عین جلسے میں قتل کر دیا گیا اور قاتل تاحال نہیں مل سکا، یا”قائدِ ملت“ کے بعد6برس میں تبدیل کئے گئے6وزرائے اعظم جن میں حسین شہید سہروردی جیسی ہستی بھی شامل تھی،یا”مادرِ ملت“جن کے بارے کیا کچھ نہیں کہا گیا،یا ایوب خان جنہیں اتنا بے عزت کیا گیا کہ اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے، یا ذولفقار علی بھٹو جن کی لاش تک نہیں ملی، یا ضیاالحق جن کوبم دھماکے میں اڑا دیا گیا؟
ایئر مارشل صاحب کے انٹرویو تک یہی سب لوگ مقبول ہوئے تھے سو انہوں نے انہی مثالوں پر اکتفا کیا لیکن کون نہیں جانتا کہ مقبولیت کا یہ سلسلہ اس کے بعد بھی جاری و ساری رہا، پروزیر مشرف پر غداری کا کیس چلا اور وہ بیرونِ ملک چلے گئے، بے نظیر بھٹو کو سرِعام قتل کر دیا گیا اور ان کا قاتل پیپلز پارٹی کی اپنی حکومت میں بھی نہیں پکڑا جا سکا۔ نواز شریف اور آصف زرداری کے حالات بھی سب کے سامنے ہے، اور عمران خان کاجو حال ہو رہا ہے وہ بھی سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں؟ قصہ مختصرکوئی اچھا تھا یا بُرا ہم نے کسی کو بھی نہیں چھوڑاکہ یہی ہمارا قومی وطیرہ ہے۔
بچپن کے دنوں میں ہماری اردو کی کتاب میں ”محسنِ پاکستان“کے عنوان سے ایک مضمون شامل ہوا کرتا تھا جس کے ذریعے ہمیں پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمارے قومی ہیرو ہیں تو ہم اسی تصور کے ساتھ بڑے ہوئے لیکن پھر جنرل مشرف کی حکومت آ گئی اور ہمیں یہ باور کرایا جانے لگا کہ ہمارے بچپن کا یہ سبق حقیقت پر مبنی نہیں تھا۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب کو بطورِ مجرم امریکہ کے حوالے کئے جانے کی باتیں تک منظرِ عام پر آنے لگیں جن پرڈاکٹر صاحب تادمِ مرگ رنجیدہ رہے۔توکیا وہ بچے قومی ہیرو بننے کا تصوربھی ذہن میں لا سکتے ہیں جنہوں نے ”محسنِ پاکستان“کو اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے خلاف سڑکوں پر بیٹھ کر احتجاج کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا؟یہی نہیں بلکہ وہ اس بات کے بھی چشم دید گواہ ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی نمازِ جنازہ میں کون آیا اور کون نہیں آیا؟بالفرضِ محال ڈاکٹر صاحب ”محسنِ پاکستان“نہیں بھی تھے تو بھی حکمرانوں کو کم از کم اس سبق کی لاج تو رکھ لینی چاہیے تھی جوہمیں سکولوں میں پڑھایا جاتا رہا۔
مشہور شاعر،فلسفی اور مصورجبران خلیل جبران(1883-1931)نے اپنی ایک نظم(Pity the Nation)میں ایک”شرمناک قوم“کے متعلق کہا تھا کہ وہ عقائد سے بھری لیکن مذہب سے خالی ہوتی ہے،وہ کپڑا پہنتی ہے جو خود نہیں بُنتی،وہ روٹی کھاتی ہے جو اس کے اپنے کھیتوں میں نہیں اُگتی، غنڈوں کو ہیرو قرار دیتی ہے اور ہر غالب آنے والے کو جھولی بھر بھر کے درازیء عمر کی دعا ئیں دیتی ہے،اس کی آوازجنازوں اورماتمی جلوسوں کے سوا کہیں بلند نہیں ہوتی، اپنے کھنڈرات پر ناز کرتی ہے، اس وقت تک بغاوت پر آمادہ نہیں ہوتی جب تک موت کے منہ میں نہ پہنچ جائے۔اس کے سیاست دان اور سفارت کار لومڑ اور فلسفی مداری ہوتے ہیں،تخلیق سے عارعی ہوتی ہے اور اس کا ہُنر نقالی ہوتا ہے،ہر حکمران کا استقبال خوشی کے نقارے بجاکر کرتی ہے اور آوازے کَس کَس کے اسے رخصت کرتی ہے تاکہ اس کے بعد والے کو بھی شادیانوں کے ساتھ خوش آمدید کہہ کر گالیوں کے ساتھ گڈبائے کہہ سکے۔ قومی یکجہتی سے دور ہو کر اس طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہوتی ہے کہ ہر ٹکڑا خود کو ایک الگ قوم تصور کرنے لگ جاتاہے۔
جبران نے جو کہا اسے پاکستانی قوم کے حالات کو سامنے رکھ کر ایک مرتبہ پھرپڑھیے اور سوچیے کہ کیا اُس نے ہمارا ہی نوحہ نہیں لکھا؟پاکستان کا ماحول اول تو ایسا ہے ہی نہیں کہ یہاں فی الواقعہ کوئی ہیرو پیدا ہوکہ یہ معاشرہ نااہلی اور کرپشن کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ بالفرضِ محال کوئی ہیرو پیدا ہو بھی جائے تو ہم اُس پر یوں کیچڑ اچھالنا شروع کر دیتے ہیں جیسے کوئی قومی فریضہ انجام دے رہے ہوں۔
یاد رکھیے کہ کسی قوم کی تاریخ دراصل اُن لوگوں کی سوانح عمری ہوتی ہے جنہیں وہ اپنا ہیرو سمجھتی ہے، یہ میں نہیں کہتا بلکہ مشہور سویڈش مورخ ”تھامس کارلائل“کہتے ہیں جوریاضی اور فلسفے کے ماہر بھی تھے، تاریخ پر اُن کی مشہور کتاب کا نام ہے ”آن ہیروز، ہیرو ورشِپ اینڈ دِی ہیرواِک اِن ہسٹری“۔ اس کتاب میں اُنہوں نے دنیا کی اُس وقت تک کی تاریخ کو چھ ابواب میں تقسیم کئے گئے ہیروز کی سوانح عمری قرار دیا ہے(ہیرو بطور دیوتا، ہیرو بطور پیغمبر، ہیرو بطورشاعر، ہیرو بطور پادری، ہیرو بطور صاحب علم، اور ہیرو بطور بادشاہ)۔’ہیروبطور پیغمبر‘والے باب میں فقط ایک ہی نام درج ہے اور وہ ہے خدا کے آخری اور ہمارے پیارے نبیؐ کا (جبکہ کارلائل مسلمان نہیں تھے)، اس کتاب پر کسی اور وقت تفصیل سے بات کریں گے فی الوقت یہ بتانا مقصود ہے کہ اسلام کی اولین تاریخ نبی مکرم محمدؐ کی”آٹو بائیو گرافی“کے سوا کچھ نہیں۔
کارلائل کے فارمولے کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ جو قوم جیسے لوگوں کو اپنا ہیرو تصور کرتی ہے ویسی ہی خود بھی بن جاتی ہے یا جو قوم جیسی خود ہوتی ہے ویسے ہی لوگوں کو اپنا ہیرو بھی مانتی ہے۔اس اُصول کو مدِ نظر رکھا جائے تو وطنِ عزیز کی بدقسمت تاریخ پر حیران ہونے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
(کالم نگار ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنسلٹنٹ
اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں)
٭……٭……٭