تازہ تر ین

دھرتی کا بیٹا دھرتی کے سپرد

مدثر اقبال بٹ
ہمیں بہت سے تعلق دھوپ چھاؤں میں بھی اپنی پناہ میں رکھتے ہیں ورنہ زندگی اتنی بھی سادہ نہیں جتنی آسودگی میں دکھائی دیتی ہے۔ اس کی تمام تر تلخیاں اور اذیتیں تب عیاں ہوتی ہیں جب آسودہ حالی گزر جاتی ہے۔ آسودگی مال و زر کی بھی ہوسکتی ہے اور اچھے دوستوں کی سنگت کی بھی۔میری زندگی کا نچوڑ یہی ہے کہ اچھے دوست اور غمگسار کسی بھی دولت سے بڑھ کر قیمتی ہوتے ہیں۔ان کا ہونا دکھ کی کیفیت کو کم کردیتا ہے خوشیوں کے لمحات طویل کر دیتا ہے۔یہ زخم زخم ماحول میں مرہم سے لوگ ہیں تو زندگی حسین ہے ورنہ یہ ایسی بے وفا اور سفاک ہے کہ اس کے ساتھ چند لمحے گزارنا بھی مشکل ہوں۔ ڈاکٹر اجمل نیاز ی بھی ایسی ہی دولت تھے جس کی موجودگی میں افسردگی اور شکستگی کی عسرت نے کبھی پریشان نہیں کیا۔ دوستوں کی خوشی میں خوش اور اداسی میں پریشان ہونے کا حوصلہ رکھنے والے ایسے لوگ نہ جانے کیوں اتنی تیزی کے ساتھ اٹھتے جارہے ہیں کہ اکثر ایسی تنہائی کا احساس ہونے لگتا ہے کہ جیسے شاخ محبت کے جھڑتے پتے،سبھی کے سبھی خزاں کی نذر ہوئے جارہے ہیں۔یہ شاخ اتنی خالی خُولی سی ہے کہ کیا خبر کب وہ ایک آدھ بھی جھڑ جائیں،جن کے ہونے سے ابھی کچھ تسلی ہے۔ڈاکٹر اجمل نیازی بھی دل کی تسلی تھے،حوصلہ تھے اور ہمت بھی۔وہ ہر حال میں دوستوں کا خیال رکھنے اور پریشانی کے عالم میں الجھنیں سلجھانے کا خاص مزاج لے کر دنیا میں آئے تھے اور مرتے دم تک اسی مزاج کو اپنی پہچان رکھا۔
ڈاکٹر اجمل نیازی کے ساتھ پہلی ملاقات کب ہوئی، یہ تو یاد نہیں لیکن ایسا ضرورمحسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ تعلق صدیوں پرانا تو ہوگا۔آپ نے اس فلسفے کی بابت تو سنا ہی ہوگا کہ کردار اہمیت نہیں رکھتے،بات نظریے کی ہوتی ہے۔نظریہ مستقل کہانی ہے اورکردار زمانے کے ساتھ اپنے نام بدل کر بس داستان مکمل کرتے ہیں۔ڈاکٹر اجمل نیازی اور میں بھی نظریے کی طویل داستان کے دو کردار ہیں جو شاید اپنے نام بدل کر قربان گاہوں کو اپنے لہو سے سیراب کرتے رہے ہیں۔ ہماری یادیں سکندرکے مقابل لڑتے پورس کے ساتھ بھی سانجھی تھیں اور دُلّے بھٹی یا احمد کھرل کے سپاہیوں میں بھی ہم ایک ساتھ موجود رہے۔ ہم چنگیز اور ہلاکو کے سامنے آئے،پھر بھگت سنگھ کے ساتھ انگریز سرکار کو للکارا۔وہ بھی ہم ہی تھے جو زمانے بدل بدل کے اپنی مٹی پر نثار بھی کئے گئے اور آج بھی یہ قافلہ اپنے رتن اس دھرتی کی نذر کررہا ہے جس نے انہیں جنم دیا،پہچان دی۔
میں ڈاکٹر اجمل نیازی کو اگرچہ صوفی بھی سمجھتا ہوں لیکن ان کے اندر کا حریت پسندہمیشہ اس صوفی پر غالب رہا۔ یہی حریت پسند پچھلے پچاس پچپن سال سے اپنی مادری زبان کے حقوق کے لئے لڑ رہا تھا۔ اسی ادبی اور صحافتی مورچے پر ان سے میری اک بار پھر شنا سائی ہوئی اور ہم نے وہ تمام پرانی یادیں، جو صدیوں کی دھند کے پار چھپی تھیں پھر سے تازہ کرلیں۔ڈاکٹر اجمل نیازی نے پنجابی کا وہ مورچہ سنبھالا تھاجو سب سے کمزور رہاہے۔جب وہ جوانی کی راہ پر قدم جما رہے تھے،تب پنجابی تحریک کسی حد تک چل تو رہی تھی لیکن تحقیق اور فکر کا حصہ بہت کمزور تھا۔ ادب بھی تخلیق ہورہا تھا اور مشتاق بٹ مرحوم جیسے لوگ عملی طور پر بھی میدان کو گرم رکھے ہوئے تھے لیکن یہاں ایسے کردار کی ضرورت تھی جو بیک وقت صاحب علم بھی ہو اور میدان عمل کا سپاہی بھی۔جو پنجابی تحریک کی آواز بنے اور صحافت کا خالی مورچہ بھی پوری طرح سے سنبھالے۔ایسا کردار پنجاب کی ثقافت، زبان کی جنگ لڑنے والی سپاہ کے علم بردار بھی۔ڈاکٹر اجمل نیازی نے اس مورچے پر اپنا کردار خوب نبھایا،اپنی ماں بولی کا حق ادا کیا اور سرخرو ٹھہرے۔
ڈاکٹر اجمل نیازی کے کالم ہوں،شاعری یا پھر نثر،وہ ایک خاص رنگ میں رچی ہوئی ہے۔یہ رنگ قاری کو اپنے ہونے کی وجہ تلاش کرنے کی تحریک دیتاہے۔ دنیا کے وجود میں وہ تلاش کرنے پر اکساتا ہے جو کہیں دکھائی ہی نہیں دیتا۔ ان کا نظریہ بنیادی حقوق کے عملی مظاہر کی تلاش کی جانب لے جاتا ہے۔ صدیوں سے اندھے غاروں میں رہنے والوں کو روشنی سے شناسا کرنے کے لیے کھینچ کھینچ کراُس جگہ پر لاتا ہے جہاں سے سورج دکھائی دے۔ انہوں نے روشنی دکھائی بھی اور پھر اپنے حصے کی شمع جلا کر اسے دوسروں سے منفرد بھی رکھا۔ڈاکٹر اجمل نیازی کی شاعری میں نثری شگفتگی بھی ہے اور نثر میں شعری چاشنی بھی۔ ان کے کردار میں وقار ہے اورگفتارمیں معیار۔ میں نے ایسے لوگ کم ہی دیکھے ہیں جن کی شخصیت میں ایسی کشش ہوکہ آپ ان کی موجودگی میں انہی کودیکھتے رہیں،سنتے رہیں اور آخر پر ان کے دیوانے ہو جائیں۔ڈاکٹر اجمل نیازی ایسے ہی تھے،جس نے ان کے ساتھ ملاقات کی، انہیں دیکھا، انہیں سُنا،پھرانہی کا ہو گیا۔ان کی محبت کسی کو جانے ہی نہیں دیتی تھی، سو جوایک بار ان کی محفل میں آن بیٹھا،اٹھ کر نہیں گیا،لیکن اب کیا ہوگا، اب اس محفل میں آکر بیٹھنے والوں پر کیا بیتے گی کہ خود میزبان ہی اٹھ کر جا رہا ہے۔ جب فہم وشعور کے پیمانے بھر بھر کے دینے والا ساقی ہی نہیں رہا تومے کش کہا ں جائیں،میکدے پہ کیا بیتے گی۔جنہیں ڈاکٹر صاحب کو سننے، پڑھنے اور دیکھنے کی عادت تھی،اب وہ فرزانے کہا ں جائیں۔ یہ جدائی تو عمر بھر کی جدائی ہے،وہ جو دل فگار آتے اور رِستے زخموں پہ مرہم لے کے پلٹتے اب کس سے دوا پائیں گے اور کس کے دستِ شفا سے سکونِ قلب پائیں گے۔کہاں، کب اور کیسے کے سوالات اچھالنے والا شخص اُسی مٹی کی آغوش میں گہری نیند سو رہا ہے جس کے حقوق کے لیے تمام عمر لڑتا رہا۔آج میں آخری بارڈاکٹر صاحب سے مل کر آیا ہوں۔انہیں آخری بار دیکھا،رخصت کیا اور بوجھل دل کو تھامے پلٹ آیا۔اب تنہائی کے پہلو میں بیٹھا انہیں یاد کررہا ہوں۔ قلم اٹھایا، لکھنا چاہا تو جیسے منتشر خیالات یکجا نہیں ہورہے، جیسے دستِ اجل نے خیالات کے اجتماع کاوہ شیشہ ہی توڑ دیا ہوجسے شیشہ گر نے بڑی مہارت سے سنبھال رکھا تھا۔ سوچ رہا ہوں کہ وہ کیسا دوست تھا جس کے جانے پر مجھ جیسے مضبوط انسان کے خیالات بھی یوں بکھرے ہیں کہ انہیں سمیٹنا ہی ممکن نہیں ہورہا۔بات بن نہیں پارہی۔مضمون باندھا نہیں جارہا،منتشر موضوعات کو یکجا نہیں کرپارہا۔۔۔۔ بس اتنی سی بات ہے کہ دھرتی کے بیٹے کو دھرتی کے سپرد کر آیا ہوں۔
(کالم نگارمعروف صحافی ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain