سیدتابش الوری
قوم کی شان، محسن پاکستان، دو نشان امتیاز اور ایک ہلال امتیاز کے اعزاز یافتہ منفرد انسان، نہ جانے کس شاہ باز کے حکم پر سرکاری اعزاز کے ساتھ مدفون ہو گئے ہیں۔ساری دنیا اپنے محسنوں، مو جدوں اور سائنسدانوں کو اپنے سر کا تاج اور تعظیم و توقیر کا نشان امتیاز بناتی ہے لیکن ہم نے اپنے سب سے عظیم موجد وسائنسدان کو بے خطا اسیر و پا بہ زنجیر رکھاجس پر قوم ہی نہیں پوری قومی تاریخ ہمیشہ شرمندہ رہے گی۔
کون نہیں جانتا کہ سقوط ڈھاکہ کے المناک سانحے کے بعد جب قوم خود کو نحیف و نزار محسوس کر رہی تھی اور بھارتی ایٹمی تیاریوں سے ہمارے دفاعی حصار کو خطرات لاحق ہو نے لگے تھے تو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ایما پر ایٹمی راز دان عبدالقدیر خان نے وقت کی آواز کو لبیک کہتے ہوئے ہالینڈ کی پر مسرت اور آسودہ زندگی کو خیر باد کہہ کر پاکستان کا رخ کر لیا تھا انھیں پاکستان کے دفاع کی خاطر ایٹم بم بنانے کا ٹاسک ملا تھا جوپاکستان جیسے بے وسیلہ غریب ملک کے لئے بظاہر ناممکن تھا لیکن غیر معمولی حوصلہ مند قدیر خان نے یہ چیلنج قبول کر لیا کیونکہ ان کے بقول وہ کسی دوسرے سقوط ڈھاکہ کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے جوہری مقصد کیلئے ایک موثر و منظم ادارہ معرض وجود میں لایا گیا قابل ترین محب وطن اور تجربہ کار سائنسدان اور انجینئر چنے گئے۔ ریزہ ریزہ جمع کر کے ادارے کا سانچہ ڈھانچہ تیار کیا گیا اور نہ جانے کن کن حیلے بہانوں سے کن کن کے ذریعے کن کن قیامتوں سے گزر کر دنیا جہان سے مشینیں آلات پرزے اور خام مواد جمع کیا گیا ہر قدم پرچیلنج تھا اور ہر مرحلہ ایک کڑا امتحان۔
جڑیں پہاڑوں کی ٹوٹ جاتیں زمیں تو کیا عرش کانپ اٹھتا
اگر میں دل پر نہ روک لیتا تمام زور شباب تیرا
قدیر خان کی مستعد ذہین ا ور انتھک ٹیم نے حالات کی نامساعدت کے باوجود کام شروع کیا تو راستوں سے راستے نکلتے چلے گئے اور منزلیں نئی منزلوں کا پتہ دیتی چلی گئیں ایٹم بم سازی ایسا خطرناک اور وسیع البنیاد منصوبہ ہے کہ اس کے متعلق سوچتے ہوئے بھی بڑے بڑے سرمایہ دار اور وسائل بر دار ملکوں کی پھپری کانپنے لگتی ہے مغربی مما لک خصوصاً امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت کو پاکستانی ایٹم بم کی گن سن لگی تو وہ تمام حواس بیدار کر کے ایڑیوں پر کھڑے ہو گئے اور سازشوں دھمکیوں اور جارحانہ ہتھکنڈوں سے ہمارے جوہری منصوبے کو ناکام بنانے پر جت گئے۔
قدیر خان کی زندگی داؤ پر تھی انھیں براہ راست دھمکیاں مل رہی تھیں اور ایجنسیاں انھیں مسلسل خبردار بھی کر رہی تھیں لیکن مجاہد قدیر خان کہہ رہے تھے کہ میں نے اتنے عبدالقدیر خان تیار کردئیے ہیں کہ میری موت بھی میرے ایٹم بم کا راستہ نہیں روک سکتی۔بلا شبہ عبدالقدیر خان کی سربراہی میں سائنسدانوں کی ٹیم کا جوہری قوت میں تاریخ ساز بنیادی اور کلیدی کردار رہا لیکن یہ بھی ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ اس معرکتہ الآ را کام میں فوج، انتظامیہ، صدور، وزرائے اعظم اور کابینہ نے بلا استثنیٰ، اپنی اپنی جگہ کم و بیش مسلسل بھر پور کردار ادا کیا اور پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی قومی ضرورتوں کی تکمیل کرتے رہے۔
آخر ہماری تاریخ کا وہ انمول اور ناقا بل فراموش لمحہ آگیا جب ہم ایٹم بم جسے یورپ اسلامی بم کہتا رہا بنانے میں کامیاب ہو گئے اور بھارت کے ایٹمی دھماکوں سے زیادہ دھماکے کر کے ہم نے پوری دنیا کو ششدر کر دیا۔بلا شک و شبہ پاکستان کے قیام کی طرح ایٹم بم کی ایجاد ایک فقیدالمثال سائنسی معجزہ تھا جس نے نہ صرف ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنادیا بلکہ قوم کوفخرو اعتماد کے لازوال جذبوں سے سر شار کر دیاہے۔افتخار و اعزاز کی اس شاندار کہانی کے ہیرو اپنے قابل فخر رفیق سائنسدانوں کے ساتھ جوہری بم کے موجد عبدالقدیر خان ہیں جنھیں بجا طور پر حکومت پاکستان نے دو مرتبہ نشان اعزاز اور ایک مرتبہ ہلال امتیاز کے عظیم اعزاز سے نوازا پاکستان اور دنیا بھر سے انھیں ان کے علاوہ سترّ کے قریب طلائی تمغے اور اعزازات ملے ملکی افواج کے سربراہوں صدر مملکت وزیر اعظم گورنروں وزرائے اعلیٰ اور سیاسی و سماجی اکابر نے ان پر تحسین و آفرین کے پھول نچھاور کئے اور سب سے بڑھ کر قوم کی محبتوں اور عقیدتوں کے زمزم نے انھیں نہلا دیا۔
ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی ریاست ہیں۔ چھ ریاستوں نے اپنے اپنے ایٹمی سائنسدانوں کو سب سے بڑے اعزازات و مناصب عطا کئے یہاں تک کہ بھارت نے اپنے ایٹمی موجد کو مسلمان ہو نے کے باوجود صدارت کے منصب ِجلیلہ پر فائز کر دیا۔لیکن اس کے بر عکس ہمارے ہاں اپنے قابل تکریم ایٹمی سائنسدانوں کے ساتھ ہماری حکومت کے بعض حکمرانوں کاسلوک شرمناک حد تک نا قابل رشک رہا ہے۔جنرل پرویز مشرف سابق آمر جرنیلوں میں ذہانت وفطانت کے اعتبار سے نسبتاً بہتر سمجھے جا تے ہیں لیکن انھوں نے ایٹمی دھماکوں سے مشتعل سامراج کے سامنے جس طرح ہتھیار ڈالے اور بے حمیتی و بے ہمتی کا افسوسناک مظاہرہ کرتے ہوئے محسن پاکستان عبدالقدیر خان اور ان کے باکمال ساتھیوں کو جس طرح سنگین اذیتوں اور شدید سختیوں کا نشانہ بنایا اور انھیں ان کے مناصب سے الگ کیا وہ ایک دکھ بھری بپتا ہے۔انتہا یہ ہے کہ محسن پاکستان کو پی ٹی وی پر جبراً اعتراف جرم کرا یا گیااور معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا یہی نہیں بلکہ نشان امتیاز اور ہلال امتیاز کو ملک بدر کر کے امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
تفو بر تو اے چرخ گر داں تفو
وہ تو میر ظفر اللہ خان جمالی کی غیرت قومی کو سلام جنھوں نے اپنی وزارت عظمیٰ کو داؤ پر لگا تے ہوئے ملک بدری کی دستاویز پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ عبدالقدیرخان مرحوم ملک بدری سے تو بچ گئے لیکن در بدری سے نہ بچ سکے انھیں تمام آزادیوں، سہولتوں اور وسیلوں سے محروم کر کے بے یارومددگار اپنے ہی گھر میں قید کر دیا گیا پا بہ زنجیرمحسن پاکستان نے مختلف انٹرویوز میں بتایا کہ انھیں ملک سے باہر جانے کی اجازت تو کیا اپنی بیٹیوں اور دوستوں کے گھر جانے کی اجازت بھی نہیں تھی اور کسی جنازے پر بھی”کسی“ کی چشم و ابرو کے اشارے کنا ئے کے بغیر جانا ممکن نہیں تھا گھر کے اندر بھی نگرانی تھی اور باہر بھی پہریداری ! حکم حاکم کے بغیر پرندہ پر نہیں مار سکتا تھا۔
صابر و شاکر عبدالقدیر خان نے اس صورت حال پر ایک انٹرویو میں ایک بڑا بلیغ فقرہ کہا کہ وہ وقت کے کو فیوں میں گھر گئے ہیں ان پر کیا کیا الزام و اتہام نہیں لگائے گئے کہا گیا کہ ان کے اربوں ڈالر ز کے بنک اکانٹ مختلف مملک میں موجود ہیں جائیدادیں ہیں ہوٹل ہیں مگر قہاری اقتدار و اختیار کے باوجود کہیں سے بھی کچھ نہ نکلا اورقوم کی تقدیر عبدالقدیر اپنی پنشن پر بمشکل گذارہ کر تے ہوئے درویشانہ زندگی اپنائے رہے کوئی اس سے بھی بڑا ظلم ہو سکتا ہے کہ ان سے ایٹم بم بنا نے کا اعزاز تک چھیننے کی کوشش کی گئی اور جھوٹے دعویداروں کی بھر پور پبلسٹی کرائی گئی لیکن سورج پر کتنا ہی کیچڑ اچھالا جائے اس کی تب و تاب کہاں کم کی جا سکتی ہے آج حقیقت کا آفتاب عالم تاب نصف الّنہار پر ہے اور جھوٹ فریب حسد عناد اور الزامات و اتہامات کا طومار تاریخ کے گردو غبار میں گم ہو چکا ہے۔محسن پاکستان کی ایٹم سازی کی ولولہ انگیز کامیابی اوران کے مصائب کی دل دوز اور رقت انگیز کہانی کا سارا احوال محترم جبار مرزا نے بڑی ہمت و جرات سے اپنے کتاب نشان امتیاز میں بھی خون دل میں ڈوبی ہوئی انگلیوں سے لکھ دیا ہے۔
دیکھو اسے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
تعجب یہ ہے کہ یہ اسیری پرویز مشرف کے بعدبھی تمام حکومتوں میں جاری رہی اور وہ عظیم سپوت جو سانحہ مشرقی پاکستان سے تڑپ کر اور بھارتی ایٹمی تیاریوں کا جواب بن کر ساری آسائشیں ٹھکراتا ہوا پاکستان پہنچا وہ ملکی دفاع کو ناقابل تسخیربنانے کے باوجود اپنی سرزمین پر جرم ناکردہ گناہی میں اسیر و پا بہ زنجیر رہا اور بالآخر اسی اسیری میں زندگی کی قیدو بند سے آزاد ہو گیا، زندگی میں جو کبھی پوچھنے نہ آئے وہ اسکی موت پر یا اسکے جنازے پر کیسے آتے۔تاریخ اور وقت اس کے جنازے پر بھی آنسں کی برکھا برساتے رہے اور اب بھی اسکی ویران قبر پر نوحہ کناں ہیں۔کاش محسن اعظم کا مزار قائد اعظم کے مزار کے احاطے میں ہوتا یا کراچی کے کسی مرکزی مقام پر تعمیر ہوتا جہاں زندگی میں نہ سہی مرنے کے بعد ہی سہی تلافی مافات کے طور پر قوم حقیقی خراج عقیدت پیش کرسکتی اور آئندہ نسلوں کے سامنے شرمندہ ہو نے سے بچ سکتی۔
پاکستان ہی کیا پوری امہ کے ہیرو
مہر عالم تاب کی صورت رخشندہ ہیں
غربت میں، ایٹم کی قوت، معجزہ ٹھہری
آپ تواریخ عالم میں، پا ئند ہ ہیں
(کالم نگارمعروف شاعراورادیب ہیں)
٭……٭……٭