ملک منظور احمد
پاکستان کے سیاسی ماحول میں ایک ہلچل کا سما ں ہے۔ سیاسی منظر نامے پر ایک بے چینی سی پائی جا رہی ہے اور ایک بار پھر کچھ ایسی قیاس آرائیاں زیر گردش ہیں کہ جلد ہی کچھ ہو نے جا رہا ہے،یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ایسی قیاس آرائیاں زیر گردش رہی ہوں لیکن بہر حال جیسے جیسے حکومت کی مدت کا وقت گزر رہا ہے ایسی قیاس آرائیاں زور پکڑ تی جا رہی ہیں۔حکومت اس وقت بے شمار مسائل میں گھری ہو ئی ہے،ایک طرف مہنگائی کے سونامی اور تباہ حال معیشت کے چیلنجز درپیش ہیں تو دوسری طرف اہم قومی اداروں کے ساتھ کچھ غلط فہمیوں اور مسائل کا بھی سامنا ہے اور اس کے ساتھ ایک مشکل بین الا اقوامی صورتحال بھی حکومت کے لیے مشکلا ت کا باعث بنی ہو ئی ہے۔اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے پر تول رہی ہیں،مہنگائی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور اس احتجاج میں نہ صرف سیاسی جماعتیں بلکہ وکلا اور تاجر تنظیمیں بھی حکومت کے خلاف میدان میں اتر چکی ہیں۔اس بات میں کو ئی شک نہیں ہے کہ حکومت اس وقت شدید دباؤ کی کیفیت میں ہے،اور ایسے میں ایسی باتوں کا سامنا آنا کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی راولپنڈی میں اہم ملا قاتیں ہو ئیں ہیں جوبہت ہی معنی خیز ہیں۔اس بات میں کو ئی شک نہیں ہے کہ کوئی بھی حکومت عوام کو نا راض کرکے بر سر اقتدار نہیں رہ سکتی ہے،اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت عوام کی بڑی تعداد کو مہنگائی اور معیشت کی ابتری کے حوالے سے مطمئن کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔
پلس سروے کے مطابق 57فیصد پاکستانی عوام نے وزیر اعظم عمران خان کے معیشت کے حوالے سے فیصلوں پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے جبکہ اسی سال کے آغاز میں ان افراد کی تعداد 37فیصد تھی اس سے معلوم ہو تا ہے کہ معاشی ابتری اور مہنگائی یقینا عوام کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے متنفر کرنے کا باعث بن رہی ہے۔بلوچستان میں سیاسی بحران بھی حکومت کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جہاں پاکستان تحریک انصاف اور باپ پارٹی کی اتحادی حکومت کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے۔اور اطلا عات کے مطابق خود حکمران جماعت باپ پارٹی کے 33سے زائد ارکان وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کما ل کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر چکے ہیں جس پر کہ پیر کے روز ووٹنگ کی جائے گی۔اور اس حوالے سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ باپ پارٹی کے منحرف اراکین کو اس حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔وزیر اعلیٰ بلوچستان کی پوزیشن کافی کمزور دیکھائی دے رہی ہے اور اگر وہ اپنے منصب پر برقرار رہنے میں ناکام رہتے ہیں تو وفاق میں بیٹھی ہوئی وفاقی حکومت کے لیے بھی بڑا دھچکا ثابت ہو گا اور اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہی معلوم ہو تا ہے کہ اگر بلوچستان میں تبدیلی آجائے تو پھر اس تبدیلی کا سلسلہ رکتا نہیں ہے بلکہ پھیلتا چلا جاتا ہے۔
مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومت کے دوران بھی سب سے پہلی سیاسی تبدیلی بلوچستان میں ہی آئی تھی اور اس کے بعد آہستہ آہستہ اقتدار پر مسلم لیگ ن کی گرفت کمزور سے کمزور ہو تی چلی گئی۔مہنگائی اس وقت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے سب سے بڑے چیلنج کی شکل اختیار کر چکی ہے اور حکومت اپنے دعوؤں اور باتوں کے باوجود اس پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ حکومت کبھی اس مہنگائی کے طوفان کو سابقہ حکومتوں کی پالیسوں کا نتیجہ قرار دیتی رہی ہے،اور کبھی عالمی حالات اور کرونا کو اس مہنگائی کا ذمہ دار ٹھہراتی آئی ہے لیکن اس حوالے سے خود کوئی ذمہ داری لینے یا اپنی پالیسیوں پر نظر ڈالنے کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں ہے اور ان حالات میں جب کہ حکومت کو اپنی غلطیوں کا ادراک ہی نہ ہو تو اس سے درستگی کی توقع رکھنا حقیقت پسندانہ عمل نہیں ہے۔اس وقت میری نظر میں مہنگائی کی بنیادی وجہ حکومت کی بیڈ گورننس اور بد انتظامی کے علاوہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہے حکومت نے مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ کی پالیسی تو اپنا رکھی ہے اور حکومت کے مطابق اس سے معیشت کو فائدہ ہو ا ہے لیکن حکومت کے پاس اس پالیسی کے نتیجے میں ملک میں برپا ہونے والے مہنگائی کے طوفان کو روکنے کا حکومت کے پاس کوئی طریقہ موجود نہیں ہے،عوام کو مطمئن کرنے کی غرض سے کبھی کوئی کمیٹی بنا دی جاتی ہے اور کبھی کہا جاتا ہے مافیاز مہنگائی کے ذمہ دار ہیں اور ہم ان مافیا کے پیچھے جا رہے ہیں۔لیکن یہ باتیں صرف باتیں ہی رہ جاتی ہیں۔اگر اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے بر سراقتدار آنے کے بعد ڈالر کی قیمت میں 70فیصد اور بجلی کی قیمتوں میں 52 فیصد تک اضافہ کیا جاچکا ہے،لیکن اس کے باوجود نہ تو پاکستان کا تجارتی خسارہ کنٹرول میں ہے اور گردشی قرض بھی 2.2کھرب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ایسے حالات میں عوام شدید پریشان ہیں لیکن سیاسی طور پر سوال یہ بنتا ہے کہ کیا اپوزیشن جماعتیں اس بار عوام کو سٹرکوں پر لانے میں کامیاب ہو ں گی اور حکومت پر اتنا دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہو سکیں گی کہ حکومت کو گھر جانا پڑے یا پھر قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرنا پڑے؟
مہنگائی کے خلاف احتجاج کا اعلان تو کر دیا ہے اور پی ڈی ایم اور پاکستان پیپلز پا رٹی اس حوالے سے الگ الگ احتجاج کرنے میں مصروف ہیں لیکن اپوزیشن کے چند رہنماؤں کی طرف سے ایسے بیانات بھی سامنے آئے ہیں جس سے اندازہ ہو تا ہے کہ شاید پیپلز پا رٹی بھی واپس پی ڈی ایم میں شمولیت کرنے پر آمادہ ہے۔بہر حال اہم قومی اداروں کے ساتھ ناچاقی،مہنگائی کا طوفان اور سیاسی خلفشار مل کر حکومت کے لیے ایسی صورتحال پیدا کر رہے ہیں کہ حکومت اس وقت تو ایک بہت ہی کمزور وکٹ پر کھڑی ہو ئی دکھائی دے رہی ہے۔رہا سوال اس بات کا کیا معاملات حکومت کے خاتمے اور قبل از وقت انتخابات تک جاسکتے ہیں یا پھر حکومت اپنی مدت پوری کرے گی؟ اس سوال کا جواب دینا تو مشکل ہے لیکن پاکستان کی سیاست میں کسی بھی چیز کی توقع کی جاسکتی ہے۔بہر حال جو بھی صورتحال ہو آئندہ آنے والے حالات کسی بھی صورت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے بہتر دکھائی نہیں دے رہے ہیں اور اب تو محسوس ایسا ہی ہو تا ہے کہ ہواؤں کا رخ تبدیل ہو رہا ہے۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭