عبدالباسط خان
قرضوں میں جکڑی قوم پر پٹرولیم مصنوعات میں تاریخی اضافہ اور بے قابو مہنگائی کا رونا عوام تو کر رہے ہیں مگر جنہوں نے اس ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیلا اور قوم کو اس حال میں پہنچایا وہ میڈیا میں آ کر عوام کے وکیل بن رہے ہیں یہ درست ہے کہ عمران خان کی نیت ٹھیک ہے مگر ان کے طرز حکمرانی پر ہر کوئی اپنے تجزیے کے مطابق سوال اٹھا سکتا ہے۔ ہماری ماضی کے حکمران جن میں نواز شریف سرفہرست ہیں نے ایک ایسے ملک میں بے بہا قرضے لئے جن کے زر مبادلہ کے ذخائر انتہائی سطح پر گرے ہوئے تھے۔ کیا ان قرضوں نے پاکستان کی معیشت کو مضبوط کیا یا برباد کیا اس کا ادراک پاکستان کا عام شہری نہیں کر سکتا وہ کیسے اس کی سمجھ بوجھ رکھ سکتا ہے کیونکہ اس کے پاس نہ تو تعلیمی اور نہ ہی معاشی عقل و دانش ہے وہ تو صرف اس بات پر خوش ہے کہ لاہور، اسلام آباد موٹرویز بن گئی یہ تو شائد صنعتی تجارتی معاشی انقلاب ہے۔ اگر لوگوں کے سفر میں ایک دو گھنٹے کا فاصلہ کم ہو گیا تو کون سا تیر مار لیا گیا۔ اس موٹر ویز نے مالی طور پر اس ملک کو استحکام بخشا کیا ہم نے یہ قرضے ادا کئے۔ اس موٹر ویز نے سفر تو کم کر دیا مگر ملکی، ترقی اور قوم کی خوشحالی کے سفر کو بہت لمبا کر دیا۔ ہمارے عوام کو ایکسپریس وے، موٹر ویز بناکر وہ بھی قرضے لے کر آج جس حال میں انہوں نے پہنچایا وہ شائد کوئی دشمن بھی ہمارے خلاف نہ کرتا۔ سیدھی سی بات ہے اگر میں قرضہ لے کر ایک بہت مہنگی گاڑی خرید لیتا ہوں اور بعد ازاں اس قرضے کو ادا نہ کروں تو پھر ایک دن وہ گاڑی بھی ضبط ہو گی اور قرضہ ادا نہ کرنے کی پاداش میں مجھے جیل بھی جانا پڑے گا۔ اگر میں اپنے رہنے کیلئے ایک عالیشان گھر بنا لوں اور بعد ازاں وہ قرضہ اتارنے کیلئے میرے پاس پیسے نہ ہوں تو میرا گھر بھی ضبط ہو گا اور مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑے گا۔
یہ سب تمہید میں اس لئے باندھ رہا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے ایسے منصوبے بنائے جس نے ہماری معیشت کو آئی سی یو میں پہنچا دیا۔ یہ منصوبے یقیناً سود مند ہوتے اگر اس موٹر ویز پر تجارتی سرگرمیاں زوروں پر ہوتیں یا پھر اس موٹر ویز سے منسلک علاقوں میں انڈسٹریل اور کمرشل زونز تعمیر ہوتے لوگوں کو روزگار ملتا اور معیشت کا پہیہ بھی چلتا لیکن یہ موٹر ویز اس قوم کیلئے عیاشی ثابت ہوئی۔ مگر اس قوم نے اپنے دشمنوں کو نہیں پہچانا جنہوں نے یہ قرضے تواتر سے لئے۔
90ء کی دہائی میں اس ملک میں ان حکمرانوں نے معاشی تباہی کی ایسی سرنگیں بچھائیں جس کا نتیجہ آج ہم مہنگائی کی شکل میں بھگت رہے ہیں آج ہر ایک ہی بات کہتا ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے تین سال کے عرصے میں سب سے زیادہ قرض لیا حالانکہ یہ بات معاشی تجزیہ کار بخوبی سمجھ سکتے ہیں مگر عام شہری کو میٹھے زہر کی گولی قرضوں کی شکل میں نوازشریف اور زرداری کے ادوار میں دی گئی۔ اس دہائی میں 17.4 بلین ڈالر کا قرضہ ہمارے ان حکمرانوں نے عوام کو تحفہ دیا جبکہ مشرف کی حکومت نے اس مدت میں بھی اکتوبر 1999ء سے 2007ء تک صرف ساڑھے تین بلین ڈالر کا قرضہ لیا گیا اس دھائی کو قرضوں کی دہائی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے لیکن یاد رہے اس دہائی میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت تھی پھر 2008ء سے 2018ء تک دونوں جماعتوں نے اپنے ادوار میں 55 ارب ڈالرز کا تاریخی قرضہ لیا لہذا اگر 90 ء کی دہائی کا قرضہ جو دونوں جماعتوں نے مل کر لیا اس کو 55 ارب ڈالر میں شامل کر لیا جائے تو آج اگر ملک پر 120 ارب ڈالرز کا قرضہ ہے تو نصف سے بھی بہت زیادہ ان دنوں جماعتوں نے لیا اور اس قرضے سے نہ تو ملکی آمدنی میں اضافہ ہوا اور نہ ہی عوام کی بنیادی صحت و تعلیم اور حالت میں کوئی قابل ذکر اضافہ دیکھنے کو ملا اب اگر اورنج ٹرین اور میٹرو بس جو ہم نے قرضے سے بنائی ہے تو سوچئے کتنا بڑا ظلم کیا گیا اس غریب عوام پر۔ اپنے اسی موقف کی تائید میں یہ بات بتاتا چلوں کہ ہندوستان جو معاشی طور پر ہمارے سے بہت بہتر حالت میں ہے آج دہلی اور بمبئی کے درمیان موٹر ویز بنا رہا ہے جو 2023ء میں مکمل ہو گی مگر یاد رہے کہ ان کے ہندوستان کے زرمبادلہ کے ذخائر600 ارب ڈالرز سے زائد ہیں لیکن ہم نے قرضے لے کر یہ تمام موٹر ویز بنائیں۔ اورنج ٹرین کا ملبہ بھی اس غریب قوم نے اٹھایا۔ یہ کون سی معاشی ترقی تھی جس کا کریڈٹ لیتے مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی تھکتی نہیں ہیں۔ سی پیک کا ذکر بھی دونوں جماعتیں بڑے فخر سے کرتی ہیں کہ سی پیک ان کے دور میں شروع ہوا۔
میں پوچھنا چاہوں گا کہ قرضے لینا اور ان قرضوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے لینا کہاں کی دانشمندی ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ بڑے خضوع و خشوح کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ سیاسی مصلحتوں کے تحت بہت مہنگی بجلی خریدنا اور ایسی بجلی جس کے فعال ہونے کا دارومدار تیل پر ہو اور تیل جب آسمان سے باتیں کرے گا تو پھر یقیناً بجلی کے ریٹ بڑھانے پڑیں گے۔ IPP کا استعمال ہو یا نہ ہو اس کا کرایہ آپ کو ادا کرنا پڑے گا۔ اب اگر یہ ماضی کی حکومتیں قرضے لینے اور ان کو غیر ترقیاتی مد میں خرچ کرنے کی بجائے ڈیمز بنانے پر توجہ دیتیں تو یقینا آج ہم بجلی کی قیمت یہ ادا نہ کررہے ہوتے۔ حکومتی کارکردگی کا انحصار ٹیکس کی آمدنی میں اضافہ سے نہیں بلکہ سرمایہ کاری خاص طورپر بیرونی ممالک کے سرمایہ کاروں کو پاکستان لانا برآمدات کو بڑھانا، ٹورازم سیکٹر کو فروغ دے کر ڈالر کو پاکستان لانا، سروسز سیکٹر کو فروغ دیتا ہے۔ یہ سب حکومت کی کارکردگی کو ظاہر کرتی ہے مگر ہمارے ہاں قرضے لیکر عوام کو ریلیف دینے کا رواج پڑ چکاہے اور یہ افیون کی گولی یا میٹھا زہر ہمارے ماضی کے حکمرانوں کا دیا ہوا تحفہ ہے جس کاخمیازہ موجودہ حکومت کے ساتھ ساتھ غریب عوام کو بھگتنا پڑ رہاہے۔ اگر ماضی میں یہ سیاسی جماعتیں عوام کے ساتھ یہ کھلواڑ کر چکی ہیں تو خدارا سچائی اور جذبہ حب الوطنی کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت کا ساتھ دیں کیونکہ اگر وہ اسی حکومت کو گرائیں گے تو پھر کون سی جادو کی چھڑی ہے جس سے گرانی ختم ہو گی۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭