انگلینڈ کے 25 سے زائد بک میکرز کے پاس انڈیا فیورٹ چلتا رہا ہے اور انڈیا کا بھاﺅ 50پیسے رہا جس کا مطلب
ہے کہ ایک سٹے باز جواریا ایک سو روپے انڈیا پر لگاتا ہے تو اس کو انڈیا کی جیت کی صورت میں 150روپے ملیں گے۔ 100 روپیہ اس کا اپنا اور 50روپے جیت کے۔ اس طرح سے انگلینڈ کے لیگل اور رجسٹرڈ بک میکرز کے پاس پاکستان کا بھاﺅ 1.75 رہا ہے۔ مطلب ہے کہ اگر کوئی سٹے باز پاکستان کی جیت پر 100 روے لگاتا ہے تو اس کو پاکستان کی جیت کی صورت میں 275 روپے ملیں گے یعنی کہ 100 روپے اس کے اپنے اور 175 روپے جیت کے۔ اب انگلینڈ کے لیگل اور رجسٹرڈ بک میکرز نے انڈیا کو فیورٹ کیوں کیا کیونکہ جس طرح سے کرکٹ کے ماہر ایکسپرٹ کرکٹ کے حوالے سے بہت کچھ جانتے ہیں۔ اسی طرح سے بک میکرز بھی دونوں مخالف ٹیموں کے حوالے سے بہت سا ڈیٹا ریکارڈ اور معلومات رکھتے ہیں جس کی بنیاد پر بک میکرز کسی ٹیم کو فیورٹ کر دیتے ہیں کیونکہ بک میکرز نے پیسے کمانے ہوتے ہیں۔ ان کی کمائی کا ذریعہ ذاتی پسند اور ناپسند نہیں ہوتے بلکہ ڈیٹ، ریکارڈ اور سابقہ پرفارمنس ہوتی ہے۔ انگلینڈ کے بک میکرز میں بڑے وجوہات کی بنیاد پر انڈیا کو فیورٹ قرار دیتے رہے۔ پہلی وجہ کہ پاکستان کی باﺅلنگ انڈیا کی نسبت کمزور ہے جس کا ایک ثبوت ساﺅتھ امریکہ کے ساتھ آخری میچ میں ملا۔ دوسری بات انڈیا کے دو بیٹسمین راہول اور روہت شرما اب تک T20 میچوں میں بہت اچھی پرفارمنس دے چکے ہیں۔ تیسری بات کہ انڈیا دوبئی میں پچھلے ایک ماہ سے کھیل رہا ہے جہاں کی وکٹوں سے اور پچز سے وہ پاکستان کی نسبت زیادہ روشناس ہو چکے ہیں۔
پاکستان
اس کے علاوہ انگلینڈ کے بک میکرز پاکستان ٹیم کا بھی ریکارڈ ایک خاص حوالے سے مطالعہ کرتے ہیں جیسے انگلینڈ کے بک میکرز کی ofhual cuelnute میں یہ بات درج ہے کہ پاکستان کے شروع کے تین کھلاڑی جسے وہ ٹاپ تھری آرڈر کہتے ہیں ان کے مطابق پچھلے میچوں میں پاکستان نے جتنے بھی سکور کئے اوسط 70فیصد سکور پاکستان کے انہیں شروع کے تین کھلاڑیوں نے کئے۔ خاص طور پر بابر اعظم اور محمد رضوان نے پاکستان کی طرف سے کئے گئے سکور کا اوسط 58فیصد سکور کیا۔ اس کے علاوہ انگلینڈ کے بک میکرز پاکستان کو واحد آﺅٹ سائیڈر اور Danle House ڈکلیئر کر رہے ہیں جو T-20 ورلڈ کپ جیت سکتا ہے۔
انڈیا پاکستان بک میکرز
انگلینڈ اور دنیا کے وہ ممالک جہاں سٹے بازی قانونی ہے اور رجسٹرڈ ہے کے مقابلے میں انڈیا اور پاکستان میں سٹے بازی ایک جرم ہے اور ان دو ملکوں کے بک میکرز بھی غیر قانونی ہیں۔ قانونی اور رجسٹرڈ بک میکرز کے آن لائن، آن ریکارڈ اپنوں کی بات کر سکتے ہیں لیکن انڈیا اور پاکستان کے بک میکرز آن لائن اور آن ریکارڈ ریٹ بھاﺅ نہیں دے سکتے ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے بک میکرز کے لیے کمائی کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ اگر دونوں ملکوں کے بک میکرز کے دلی خواہش پوچھی جائے تو وہ یہی کہیں گے کہ زیادہ تر میچز پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہی ہونے چاہئیں کیونکہ انڈیا کی آبادی ایک ارب 30 کروڑ ہے اور پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے۔ دونوں ملکوں کی آبادی ایک ارب 50 کروڑ ہے اگر دونوں ملکوں کی آبادی کا ایک بہت ہی چھوٹا حصہ بھی اس میچز میں سٹے بازی کرتا ہے تو پھر بھی انڈیا اور پاکستان کے لیے سٹے بازی کی دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ اگر انڈیا کا بک میکرز پاکستان اور انڈیا کے میچر کے دوران کام نہیں کرے گا تو 100 روپوں میں صرف 2 روپے کی سٹے بازی ہوگی کیونکہ انڈیا کے بڑے بک میکرز جب انڈیا پاکستان کے میچز کے لیے بک کھولتے ہیں تو وہ پاکستان کے بڑے بک میکرز کو لائسنس دے دیتے ہیں اور پھر پاکستان کے بڑے بڑے بک میکرز پاکستان کے چھوٹے بک میکرز کو لائسنس دیتے ہیں۔ یہ لائسنس بک میکرز سٹے بازی کی لگائی گئی رقم کو آگے لگانے میں مدد دیتے ہیں۔ بک میکرز کبھی بھی سٹے بازی نہیں کرتا بلکہ وہ بھاﺅ اور ریٹ میں کچھ پیسوں کا یعنی 5 پیسے یا اس سے زیادہ کا فرق نکال کر سٹے بازی کی رقم کو آگے بڑے بک میکرز کی طرف نکال دیتا ہے۔ اس صورت میں انڈیا اور پاکستان میں کوئی بھی جیتے، بک میکرز کی جیت دونوں طرف سے یعنی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے بک میکرز کی ہارنے کے امکانات کم ہوتے ہیں کہ وہ پسند اور ناپسند میں نہیں پھنستا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر بک میکر اپنی کسی پسند میں پھنس گیا ہے تو وہ ہار بھی سکتا ہے یا پھر بک میکرز کو موقع ہی نہ مل سکا کہ اپنی بک میں بیٹ کو لائنوں کے ذریعے اس صورت میں بک میکرز کے ہارنے کی سب سے بڑی وجہ اس کا کسی بھی ٹیم پر لگا ہوا جوا باہر نہ نکالنا ہے۔ اگر کسی بک میکر کے پاس ایک بڑی رقم میچ کے دوران ایک ایسے حصے میں لگ گئی ہے جو وہ لائنوں کے ذریعے باہر نہ نکال سکا ہو تب ہی بک میکرز کے ہارنے کی وجہ بن سکتی ہے۔ پاکستان ہو یا انڈیا شائقین کی حد تک تو جنگ کا سماں بن جاتا ہے لیکن بک میکر چاہے پاکستان کا ہو، چاہے انڈیا کا۔ دونوں میں کوئی بھی محب وطن ہندوستانی یا محب وطن پاکستانی نہیں رہتا۔ وہ کاروبار کر رہے ہیں۔ انہیں صرف ہار جیت سے ہی غرض ہے۔ اگر پاکستان بک میکر جیت چاہتا ہے تو اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ پاکستان ہار گیا۔ اس طرح سے اگر ہندوستانی بک میکر جیت جاتا ہے تو اسے بھی اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ انڈیا میچ ہار گیا ہے۔ اس طرح سے سٹے باز جواریوں کی 80 فیصد سے زائد وہ سٹے باز ہوتے ہیں جو اپنے اپنے حساب سے ٹیموں کی کھلایوں کی پرفارمنس کے مطابق ہی میچ یہ سٹہ لگا رہے ہوتے ہیں اس حساب سے پاکستان سٹے باز انڈیا پر اور انڈیا کا سٹے باز پاکستان پر سٹہ لگا رہا ہوتا ہے۔ یہ صرف 20 فیصد وہ سٹے باز ہوتے ہیں جو حب الوطنی میں انڈیا یا پاکستان پر سٹہ لگا رہے ہوتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر میچ فکس ہو سکتا ہے کیونکہ ممبئی اور دبئی میں بیٹھا ہوا بک میکر کی وجہ سے یہ سب کچھ ممکن ہوتا ہے۔ 2011ءکے ورلڈ کپ کا سیمی فائنل بھارت کے شہر موہالی میں ہوا تھا۔ پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ موہالی کی اسٹیڈیم میں موجود تھے۔ انڈیا کے ایک بک میکر پارتھیو نے انگلینڈ کے ایک انویسٹی گیٹو رپورٹر کو موبائل پر بھی پیغام بھیجا کہ پاکستان اپنی اننگز میں شروع کے 100 سکور بڑی تیزی سے مکمل کرے گا پھر وکٹیں گرنا شروع ہو گی اور 159سکور پر 5کھلاڑی آﺅٹ ہو جائیں گے اور پاکستان ورلڈ کپ کا یہ سیمی فائنل 20 رنز سے زائد اسکور سے ہار جائے گا، ایسا ہی ہوا۔ ایسا لگا کہ میچ کا نتیجہ آنے سے پہلے ہی پارتھیو نے ایک اسکرپٹ لکھا تھا جو بالکل سچ ثابت ہوا۔ نہ ہی آئی سی سی نے اس انفارمیشن کو سنجیدہ لیا نہ ہی انڈیا کرکٹ بورڈ نے اور نہ ہی پاکستان کرکٹ بورڈ نے میچ ختم ہوتے سے بہت پہلے کی معلومات کو سنجیدہ لیا۔