علی سخن ور
”بنگلہ دیش ایک جہادستان بن چکا ہے۔ وہاں کے مدرسے بنیاد پرستو ں کی تربیت گاہ ہیں اور وزیراعظم بنگلہ دیش حسینہ واجد مذہبی انتہا پسندی کو اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل میں استعمال کر رہی ہیں۔بدھ مت اور ہندومت کے پیروکار وہاں تیسرے درجے کے شہری شمار ہوتے ہیں۔اور گذرتے وقت کے ساتھ ہندوؤں کے خلاف تیزی سے بڑھتی ہوئی نفرت کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ دکھائی دیتی ہے۔“ ان زہریلے خیالات کا اظہار ابھی حال ہی میں ملعون زمانہ تسلیمہ نسرین نے اپنی ایک تحریر میں کیا جو بھارتی روزنامے ’دی ہندو‘ میں ۱۹، اکتوبر کو شائع ہوا۔ بلاشبہ تسلیمہ نسرین کی یہ تشویش اپنی جگہ جائز ہے کہ اس بد نصیب عورت نے ایک مسلمان گھرانے میں آنکھ کھولنے کے باوجود لادینیت کو اپنا عقیدہ قرار دیا۔1962میں پیدا ہونے والی تسلیمہ نسرین کی ایک بد نصیبی یہ بھی ہے کہ اپنے مکروہ عقائد کے باعث اسے اپنے ہی ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں، اس کی کتابوں کی اشاعت اور فروخت بھی بنگلہ دیش میں ایک ناقابل معافی جرم کے برابر ہے۔ ان ہی وجوہات پر وہ بھارت کے شہر دہلی میں پناہ گزین ہے۔ ہندو انتہا پسند اسے دیوی کا درجہ دیتے ہیں اور دنیا بھر میں وہ ہندوؤں کی ترجمان کے طور پر جانی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش میں ہندو انتہا پسند ایک مدت سے امن و امان خراب کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ حالات اس قدر خراب ہوجائیں کہ بھارت کو براہ راست مداخلت کا موقعہ مل جائے اور جس طرح پاکستان پر اقلیتوں کی حق تلفی کے الزامات لگا کر اسے مختلف انٹر نیشنل فورمز پر بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، بنگلہ دیش کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ کیا جاسکے۔ تاہم بنگلہ دیش کے لوگ ہر معاملے پر سمجھوتہ کر سکتے ہیں، دین کے نام پر نہیں۔وہ اپنی سرزمین پر کسی بھی دین دشمن قوت کو کبھی بھی پنپنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی 170ملین آبادی میں 10فی صد کے لگ بھگ ہندو اقلیت کے لوگ ہیں۔
بنگلہ دیش میں گذشتہ کئی روز سے ہندو مسلم فسادات جاری ہیں۔ تفصیلات کے مطابق، ان فسادات کی ابتداء تب ہوئی جب کومیلا میں دورگا پوجا کے دوران کلام پاک کے صفحات مقدس کی بے حرمتی کی خبریں سوشل میڈیا پرآئیں۔یہ خبر بھی عام ہوگئی کہ کسی ہندو نے ایک مسجد کو بھی ناپاک کردیا۔ ساتھ ہی کسی نے اس سانحے کی ویڈیو بھی اپ لوڈ کردی۔ مسلمانوں تک یہ خبر پہنچی تو ایک کہرام برپا ہوگیا۔ فسادات کی آگ ایسی بھڑکی کہ بہت سے ہندوؤں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔مندر، مورتیاں کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔ جواب میں ہندو انتہا پسندوں نے بھی کوئی کثر نہیں چھوڑی۔ مسلمانوں کی دکانیں اور گھر نذر آتش کردیے گئے۔ مختصر یہ کہ کومیلا سے شروع ہونے والے فسادات کی لہر نے پورے بنگلہ دیش کو لپیٹ میں لے لیا۔ ادھر ان واقعات کے بعد ہندو جگرانہ ویدک کے سیکریٹری جگدیش کرناتھ نے ایک بیان میں کہا کہ بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کچھ نیا نہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان بھارت کو ایک مسلم ریاست بنانے کے لیے اپنا پورا زور لگارہے ہیں۔ ہم ہندو ابھی تک سمجھ نہیں پائے لیکن حقیقت میں مسلمان ہمارے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش میں مسلمانوں اور ہندو انتہا پسندوں کے بیچ فسادات کو دنیا بھر کا ہندو میڈیا ظلم اور زیادتی کی ایک خوفناک مثال بنا کر پیش کر رہا ہے۔ بے شک انسانی جان کسی کی بھی ہو اس کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے، اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری بنیادی معاشرتی رویوں کا حصہ ہوتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ تمام قوائد و ضوابط صرف اور صرف مسلمانوں کے لیے کیوں ہیں۔ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو ظلم و ستم ڈھایا جاتا ہے اس پر صدائے احتجاج کیوں بلند نہیں کی جاتی۔ابھی چند ہفتے پہلے کی بات ہے، اتر پردیش کے علاقے کان پور کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائیرل ہوئی جس میں ایک پینتالیس سالہ مسلمان رکشہ ڈرائیور کو ہندو انتہا پسندوں کا ہجوم بدترین تشدد کا نشانہ بنا رہا تھا۔اس رکشے والے کی چھ سالہ بیٹی ہجوم سے ہاتھ جوڑ جوڑ کر التجا کرتی رہی کہ میرے بابا کو نہ مارو لیکن کسی نے ایک نہ سنی۔ ہجوم نے اسے جے شری رام اور ہندومت زندہ باد کے نعرے لگانے پر مجبور کیا۔ وہ نعرے لگاتا رہا لیکن اس پر تشدد کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ بعد میں پولیس نے اسے نیم مردہ حالت میں ہجوم کے قبضے سے چھڑایا۔ظلم اور نا انصافی کی اس بدترین مثال پر نہ تو تسلیمہ نسرین کو کوئی تکلیف ہوئی نہ ہی جگدیش کرناتھ کو۔انٹرنیشنل میڈیا بھی چپ رہا۔ہمارے خیال میں بنگلہ دیش میں جو کچھ بھی ہوا وہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی مسلسل نا انصافی اور ظلم و ستم کا رد عمل تھا۔اصل میں ابھی تک وہ تالی دریافت نہیں ہوسکی ہے جو ایک ہاتھ سے بجتی ہو۔یہ کیونکر ممکن ہے کہ لوگ میرے گھر کو آگ لگا دیں اور میں امن سے رہنے کا بھاشن سنتا رہوں۔
(کالم نگار اردو اور انگریزی اخبارات میں
قومی اور بین الاقوامی امور پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭