قبوضہ وادی سمیت دنیا بھر میں کشمیری عوام کی جانب سے یوم سیاہ منانے کا عمل دراصل اس امر کا اعلان ہے کہ مقبوضہ سر زمین پر بھارتی تسلط قبول نہیں کریں گے ،طاقت کے استعمال سے کشمیریوں کی جدوجہد کو کسی قیمت پر دبایانہیں جاسکتا،کرکٹ میں بھارت کی شکست پر کشمیریوں کا جشن اصل میں نئی دہلی سے نفرت کا اظہارتھا۔جہاں تک 27 اکتوبر کو یوم سیاہ منانے کے عمل کا سوال ہے تو یہ رد عمل دراصل اس مؤقف کا اظہار ہے کہ ہم مقبوضہ وادی میں بھارت کا غاصبانہ قبضہ تسلیم نہیں کرتے اور یہ کہ کشمیری عوام یہاں موجود بھارتی افواج سے نفرت کرتے ہیں کشمیریوں کے اس رد عمل کا بڑا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ تمام تر طاقت اور قوت کے استعمال کے باوجود ہمیں پسپائی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا اور انہیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ ریاستی دہشت گردی کے باوجود کشمیریوں کی پر امن سیاسی جدوجہد نے اپنے مقدمے کو عالمی حیثیت دے کر دنیا کو متوجہ کیا ہے اور گیند دنیا کی کورٹ میں ہے اور خود بڑا سوال ان کے سامنے یہ کھڑا ہے کہ اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے عمل پر ان کا کردار ہے تو یہ کردار کشمیر جیسے سلگتے ایشو پر کیونکر حرکت میں نہیں آ رہا، یہاں خواتین اور بچوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم و ستم پر ان کا ضمیر کیونکر نہیں جاگ رہا اگر مشرقی تیمور، سوڈان اور ایریٹریا کے مسئلہ پر وہاں کے عوام کو حق خود ارادیت مل سکتا ہے تو کشمیر اور فلسطین کے ایشو پر ایسا کیونکر نہیں ہوپاتا کیا یہ عالمی برادری کا دوہرا اور منافقانہ کردار نہیں، کشمیر کاز پر کشمیریوں کی آواز اور ان کے کردار کو حرکت میں آئے 74 سال گزر چکے ہیں لیکن اپنے معاشی مفادات کے تحت عالمی قوتیں ٹس سے مس نہیں ہو رہیں اور بھارت کی انتہا پسند اور شدت پسند نریندر مودی سرکار کشمیریوں کی نسل کشی کا سفاکانہ کھیل کھیل رہی ہے ۔ الٹا اس نے ظلم، درندگی اور وحشت ناکی سے باہر کی دنیا کو بے خبر رکھنے کا پورا بندوبست کررکھا ہے اور بھارتی حکمران روز اول سے جھوٹ اور فریب کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی بزدلانہ کوششیں کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن زمینی حقائق یہی ہیں کہ گھر گھر تلاشی کے اس عمل کے نام پر خواتین اور بچوں کی تذلیل کے ساتھ کشمیری نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ کا عمل جاری اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس روز مقبوضہ وادی میں کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے نہ گونجتے سنائی دیتے ہوں، 27 اکتوبر 1947 کے بعد سے بھارت کی فاشسٹ حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں اس کے نتیجہ میں آزادی کی یہ تحریک کمزور ہونے کے بجائے اور بھی مؤثر ہوتی گئی اور وہ بھارت سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھتے اور اپنے بنیادی مسئلہ اور مطالبہ یعنی حق خود ارادیت سے پسپائی اختیار کرنے کو تیار نہیں ،کشمیریوں کی پاکستان سے یکجہتی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ دبئی میں کرکٹ کے میدان میں جب پاکستانی کھلاڑی اپنے بھرپور کھیل کے ذریعے بھارت کو شکست فاش سے دو چار کرتے ہیں تو مقبوضہ وادی کشمیر کے گلی محلوں اور چوکوں چوراہوں پر پاکستانی جیت کا جشن منایا جاتا ہے اور کھلے طور پر بھارت سے نفرت کا اظہار ہوتا ہے اور یہی وہ رجحانات ہیں جس کی بنیاد پر خود عالمی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ بھارت اگر مسئلہ کشمیر کا کوئی حقیقت پسندانہ حل نہیں نکالتا تو پھر کشمیر بھارت کیلئے ویتنام ثابت ہو سکتا ہے اور ایک بھارتی جنرل کا انٹرویوریکارڈ پر ہے جس کا کہنا ہے کہ سالہا سال کی طاقت کے بھرپور استعمال کے باوجود ہم کشمیریوں کی مزاحمت پر قابو نہیں پا سکے ۔