تازہ تر ین

اقتدار کا غرور

نجیب الدین اویسی
آج میں جو کالم لکھ رہا ہوں مجھے خدشہ ہے جب میں 2023ء میں اپنی پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے بورڈ کے سامنے انٹرویو دینے جاؤں گا تو بہت سے عمائدین مسلم لیگ اراکین بورڈ کے سامنے صدائے احتجاج بلند کریں گے۔ اس باغی کو ہر گز ٹکٹ نہ دیا جائے۔ اس کا قلم ہمیشہ زہر اگلتا رہتا ہے۔کوئی مرد مومن اس وقت یہ نہیں کہے گا یہ ہمیشہ سچ لکھتا تھا۔ اس کا مقصد پارٹی میں اصلاح احوال ہوتا تھا۔خیر مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ میں ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہوں میرا ایمانِ کامل ہے عزت ذلت میرے رب کے اختیار میں ہے۔ آج میں جن وزراء کا ذکر کر رہا ہوں وہ سابق وزراء ہیں۔
مجھے یاد ہے 95ء میں جب بینظیر بھٹو شہید کی حکومت تھی۔ مسلم لیگ مسجد شہداء(مال روڈ لاہور) سے پنجاب اسمبلی تک احتجاجی جلوس نکالا۔ پورے پنجاب سے کارکنوں کو کال دی گئی تھی۔ میں بھی اپنے دوستوں کیساتھ مال روڈ پہنچا۔جب ہمارا جلوس مسجد شہداء کے سامنے پہنچا تو کنٹینر پر مسلم لیگ کے لیڈران موجود تھے۔ مجھے میرے دوستوں نے کندھوں پر اٹھا کر کنٹینر پر پہنچایا۔
راجہ نادر پرویز نے نا صرف میرا پر تپا ک استقبال کیا بلکہ میری گردن پر پر جوش بوسہ بھی دیا۔97ء میں پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگ کی حکومت بن گئی۔ راجہ نادر پرویز وفاقی وزیر مواصلات بن گئے۔ ہمیں ان سے ایک کام تھا، ہم پانچ ممبران پنجاب اسمبلی ان کے دفتر گئے۔ مگر وہ دفتر نہیں تھے۔ ان کے دفتر سے ہمیں ایک شریف آدمی نے بتایافلاں بلڈنگ میں وزیر موصوف نے اپنا خفیہ دفتر بنا رکھا ہے وہ وہیں بیٹھے ہیں۔ جب ہم وہاں پہنچے ان کے PAکے کمرے میں بیٹھے تھے ایک کارڈ پر اپنے نام لکھ کر صاحب موصوف کے پاس بھجوائے۔یہ اطلاع سنتے ہی راجہ صاحب غصے سے پھٹ پڑے: کس نے انہیں یہاں کا ایڈریس بتایا؟
وزیر بننے سے پہلے انکا رویہ کیا تھا، وزیر بننے کے بعد کیسے ہوگیا۔
98ء میں ممبر پنجاب اسمبلی کی حیثیت سے میں سلیم اقبال جو صوبائی وزیر جنگلات تھے کے پاس ایک درخواست لے کر گیاتو انہوں نے بڑے تحکمانہ انداز سے مجھ سے پوچھا میں تنظیمی امور کے لئے بہاولپور گیا تھا۔ آپ وہاں کیوں نہیں آئے؟میں نے انہیں جو جواب دیا ایسا جواب انہوں نے زندگی بھر کسی سے نہ سنا ہوگا۔
دوسرا واقعہ 98ء میں ذوالفقار کھوسہ جو صوبائی وزیر خزانہ تھے کے پاس ایک درخواست لے کر گیا۔وہ چیخنے چلانے لگے۔ ان کے الفاظ تھے ”کہیں ہمیں چین نہیں، کوئی کام بھی کرنے نہیں دیتے۔“میرا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ جہاندیدہ کھوسہ سردار کومیرے سخت ردعمل کا اندازہ ہوگیا۔ انہوں نے فوراََ درخواست پر احکامات لکھنے شروع کردئیے۔
2013ء کے ہمارے وزراء صاحبان کی اکثریت ہم غریب ایم این ایز کی لابی میں ہمارے ساتھ بیٹھ کر چائے پینا، گپ شپ لگانا اپنی توہین سمجھتی تھی۔2013ء میں ہمارے وزیر خزانہ اسحق ڈار تھے جن سے ملنا وزیراعظم سے ملاقات سے بھی زیادہ مشکل ہوتا تھا۔ میرے دوستوں نے بتایا ہم پانچ پانچ ممبران ان کے دفتر میں گھنٹوں ملاقات کے لئے بیٹھ بیٹھ کر یہ جواب لے کر واپس آتے صاحب مصروف ہیں آپ سے نہیں مل سکتے۔ چوہدری نثار کا بھی یہی حال تھا۔ میں فقیر سا آدمی ہوں۔ میں نے کبھی بحیثیت ممبر صوبائی و قومی اسمبلی، وزیر اعلیٰ وزیراعظم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ دو مرتبہ وزیر اعلیٰ (میاں شہباز شریف) بحیثیت ممبر صوبائی اسمبلی، دو مرتبہ وزیراعظم (میاں نواز شریف) سے ان کی طرف سے ملاقات کی خواہش پر ان سے ملاقات کی۔
میرا بتانے کا یہ مقصد ہے میں اسحق ڈار یا چوہدری نثار کے بارے میں اس لیے تنقید نہیں کر رہاکہ میرے ساتھ کچھ ایسا ویسا رویہ روا رکھا گیا۔
میں دو مرتبہ احسن اقبال کے دفتر میں گیا۔پہلی مرتبہ مجھے کہا گیا ان کے پاس ایئرفورس کے ایک آفیسر بیٹھے ہیں۔ مجھے دو گھنٹے انتظار کروایا۔ دوسری مرتبہ دو تین گھنٹے انتظار کروایا صاحب مصروف ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن میں اس پروفیسر سے سلام دعا لینا بھی اپنی توہین سمجھتا ہوں۔
خواجہ سعد رفیق کے پاس میں ریاض پیرزادہ، بلیغ الرحمن کو لے کر گیا۔ ایک خاتون جو سولہ سال تک ریلوے سکول پڑھا چکی تھیں انہیں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ خواجہ سعد رفیق نے ہم سب کو ٹکا سا جواب دیا۔
میں 2015ء میں پارلیمانی سیکریٹری کامرس بنایا گیا۔ خرم دستگیر کامرس کے وزیر تھے ان کا رویہ مجھ سے دوستانہ تھا۔ شاہد خاقان عباسی جب وزیراعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے کابینہ میں ردو بدل کیا، نئے وزراء بھی بنائے گئے۔ خرم دستگیر وزیرِ دفاع بنا دیے گئے۔ پرویز ملک مرحوم وفاقی وزیر کامرس، حاجی محمد اکرم انصاری وزیر مملکت کامرس بنا ئے گئے۔ایک دن اجلاس سے باہر نکلتے ہوئے میرا حاجی اکرم انصاری سے آمنا سامنا ہوگیا۔ انہوں نے مجھے بڑے تحکمانہ انداز میں ارشاد فرمایا: فلاں دن فلاں جگہ ایک میٹنگ ہے آپ نے وہ میٹنگ attendکرنی ہے۔ میں نے برجستہ جواب دیا آپ دو وزیر ہیں، آپ جائیں میں نہیں جاؤں گا۔دوسرے دن انہوں نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے کہہ کر مجھے کامرس کے پارلیمانی سیکریٹری سے تبدیل کر کے اینٹی نارکوٹکس کا پارلیمانی سیکریٹری کا نوٹیفیکیشن کروا دیا۔میں خاموشی سے نارکوٹکس کے دفتر چلا گیا۔ میں نے اپنے دونوں وزراء صاحبان سے کوئی بات بھی نہ کی۔
اویس لغاری واپڈا کے وفاقی وزیر بنے، میں بڑی حُجت کیساتھ ان کے پاس گیا۔ ایک معمولی سا کام کہا، انہوں نے مجھے ایک لمبا چوڑا لیکچر دے ڈالا۔ مجھے اس وقت کے وزراء پر اس دوران بڑا غصہ آتا تھا۔ آج یہ سارے وزراء ہم غریب ایم این ایز کی لابی میں آکر بیٹھتے ہیں۔ ہر ایک سے زبردستی گلے ملتے ہیں، گفتگو کی کوشش کرتے ہیں۔ اب مجھے ان پر بڑا ترس آتا ہے۔ میں دل ہی دل میں انہیں بے چارے وزراء کہہ کر ہنس دیتا ہوں۔
افسوس ہم معمولی اقتدار کے وقت اپنی اوقات کیوں بھول جاتے ہیں۔ انسان خود فانی ہے۔ پانی کے بلبلہ کی مثل ہے۔مجھے امید ہے اگر ہمارے پارٹی برسر اقتدار آئی تو یہی لوگ دوبارہ کابینہ کا حصہ ہوں گے۔ چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ اس لیے لکھ رہا ہوں، شاید اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔
(کالم نگارمعروف پارلیمنٹیرین ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain