حیات عبداللہ
عقیدتوں کے حقیقی تقاضوں سے گریز پائی، مَحبّتوں کے اصل حُسن سے رُوگردانی اور چاہتوں کے سندر جذبوں سے کروٹیں بدل کر اپنے خود ساختہ تقاضوں پر مُصر ہو جانا اور اسے ہی دنیا و آخرت میں کامیابی سمجھ لینے کی رُتیں معلوم نہیں کہاں سے آ نکلی ہیں؟ جب ہم نے اپنی ساری مَحبّتیں محمد عربیؐ کے قدموں میں ڈھیر کر دی ہیں تو پھر ان بے کراں چاہتوں کے اظہار کے اسلوب، ان بے پایاں عقیدتوں کے اقرار کے تمام اطوار بھی اسی ذات ذی قدر سے سیکھنے چاہییں کہ آخر کس طرح حضرت محمدؐ نے صحابہ کرامؓ کو مَحبّت کرنے اور نبھانے کی راہیں بتلائیں، لاریب ہم تو ان عقیدتوں کا عُشرِ عشیر بھی اپنے دلوں میں نہیں رکھتے کہ جس قدر صحابہ ء کرامؓ کے دلوں میں مَحبّتِ رسولؐ کے شگوفے مہکتے تھے، مگر ہم ٹھہرے خواہشوں کے اسیر، سو ہماری مَحبّتوں کی منطقیں بھی عجیب سانچوں میں ڈھلی ہیں کہ ہر شخص ہی نبیؐ کے ساتھ مَحبّتوں کے خود ساختہ طریقوں اور تقاضوں کو پروان چڑھائے جا رہا ہے، اس حقیقت میں کوئی دو رائے ہرگز نہیں ہیں کہ اگر دل، نبیؐ کی مَحبّت سے تہی ہوں گے تو پھر ایسے خانہ ء خراب میں ایمان داخل ہو ہی نہیں سکتا۔
اہلِ دل کے دلوں کی ہیں تسکین آپؐ
اہلِ ایماں کا سارا جہاں آپؐ ہیں
نبیؐ کے ساتھ مَحبّت کا اصل قرینہ یہ ہے کہ اس مقدّس و مطہّر شخصیت سے اپنی جانوں سے بھی بڑھ کر مَحبّت کی جائے اور دیگر تمام مَحبّتوں کو بھی نبیؐ کی مَحبّت کے تابع کر دیا جائے کہ یہی تو مومن کی شان اور پہچان ہے۔واللہ! اگر نبیؐ کی مَحبّت کو ہم اپنے جسم و جاں سے جدا کرنے کا تصوّر بھی کر لیں تو ہمارے پاس باقی کچھ بھی تو نہیں بچتا۔
اللہ رب العزت نے سورۃ الاحزاب میں ارشاد فرمایا ہے کہ ”مومنوں کے لیے نبی کریمؐ ان کی جانوں سے بھی زیادہ مقدّم ہیں۔“ بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ ”تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی اولاد، اپنے والدین اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے مَحبّت نہ کرتا ہو۔“
مَیں اکثر کہا کرتا ہوں کہ عقیدتیں اندھی نہیں ہُوا کرتیں، مَحبّتیں تیرگیاں نہیں پھیلایا کرتیں، یہ تو روشنی اور نور کے ہالے فروزاں کر دیتی ہیں، ایسے اجالے چہارسُو بکھیر دیتی ہیں کہ جس سے دل کی مراد پانے اور کوچہ ء جاناں تک پہنچنے کے تمام راستے واضح دِکھائی دینے لگتے ہیں اور اگر راست راہیں اور مستقیم منزلیں دِکھائی نہ دیں تو ایک لمحے کے لیے توقف کر کے اپنی مَحبّتوں کے انداز اور اسلوب پر نظرِ ثانی ضرور کر لیجیے کہ کہیں ان میں کمی، کجی اور سقم تو نہیں رہ گیا ہے۔اللہ اور اس کے رسولؐ نے اطاعت ہی کو مَحبّت کی علامت اور دلیل کہا ہے۔سورہ آل عمران آیت نمبر 31 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”کہہ دیجیے! اگر تم اللہ سے مَحبّت رکھتے ہو تو میری اطاعت کرو، خود اللہ تم سے مَحبّت کرے گا اور تمھارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے، کہہ دیجیے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور اگر یہ منہ پھیر لیں تو بے شک اللہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔“ آیئے! چند ثانیوں کے لیے ہی غور کر لیں کہ اطاعتِ رسولؐ سے روگردانی کرنے والوں کو اللہ نے کافروں کی فہرست میں شامل کیا ہے، اس لیے کہ تمام انبیائے کرام کی بعثت کا مقصد ہی ان کی اطاعت تھا اور اس لیے بھی کہ اطاعت ہی مَحبّت کی دلیل ہُوا کرتی ہے۔سورۃ النساء آیت 64 میں اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ”ہم نے ہر رسول کو صرف اس لیے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے ان کی پیروی کی جائے۔“ اطاعتِ رسولؐ ہی مَحبّتِ رسولؐ کا واضح اور پُرنور ثبوت ہوتی ہے اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔سورۃ الاحزاب آیت نمبر 71 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ”جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا اس نے بڑی مراد پا لی۔“ نبیِ مکرمؐ نے اپنی اطاعت کی اس قدر تلقین فرمائی ہے کہ امّتِ مسلمہ کو اپنی خواہشات تک شریعت کے تابع کرنے کا حکم دیا ہے۔نبیؐ نے ارشاد فرمایا کہ ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنی تمام خواہشات کو میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کر دے۔“ دنیا میں ہر شخص کی بات کو رد کیا جا سکتا ہے مگر محمد عربیؐ کی بات کو چھوڑنے کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اور باتیں فضول باتیں ہیں
آپؐ کی بات ہی خزینہ ہے
جو شخص جس قدر اطاعت رسولؐ کی گہرائی میں جائے گا اسی قدر اس کی مَحبّت مسلّمہ اور مصدّقہ ہوتی چلی جائے گی۔لوگوں کی اکثریت اطاعت کے بغیر ہی محض رسوم و رواج کے ذریعے سے مَحبّتِ رسولؐ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔حیرت اس وقت ہوتی ہے جب اطاعتِ رسولؐ کی بات کی جائے تو تمام جذبوں پر سکتہ کیوں طاری ہو جاتا ہے؟ پھر”اگر، مگر“کی قبیل سے تعلق رکھنے والے تمام الفاظ کیوں عود آتے ہیں؟ پھر”چوں کہ، چناں چہ“ سے ملحقہ اور ہم معانی تمام الفاظ زبانوں سے کیوں برآمد ہونے لگتے ہیں؟ ہم اپنے مَن چاہے قواعد اور رسوم پر عمل کرتے ہوئے بھی اعتدال کی تمام حدود و قیود سے گزر جاتے ہیں مگر اطاعتِ رسولؐ کو محض سرسری اور جزوی سی اَہمّیت دے کر کہیں اور نکل جاتے ہیں، کہِیں بہت دُور، بہت ہی پرے، چلو اسی کسوٹی پر آپ اپنے اردگرد پھیلے مَحبّت مآب رشتوں ہی کو پرکھ لیں یقیناً آپ کے ساتھ بھی مَحبّت کے درجنوں لوگ دعوے دار ہوں گے، کئی لوگ تو ایسے بھی ہوں گے جو آپ پر اپنی جان قربان کر دینے کی قسمیں بھی اٹھاتے ہوں گے اگر عین وہی جان وار دینے کے دعوے دار آپ کا کہنا نہ مانیں تو کیا آپ ان کی مَحبّت پر یقین کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے؟ یقینا آپ ایسا کبھی نہیں کریں گے۔ بالکل اسی پیمانے اور اسی ترازو کو ہم مَحبّتِ رسولؐ کے وقت کیوں فراموش کر بیٹھتے ہیں؟ سوچیے اور خوب سوچیے کہ کہیں ہماری نڈھال بصیرت نے ہماری مَحبّتوں کو لاغر تو نہیں کر ڈالا؟ کہیں ہمارے نحیف و ناتواں فہم اور تدبّر نے ہمیں مستقیم راہوں سے ہٹا تو نہیں دیا؟ وہی راست راہیں جن پر چلنے کا اللہ پاک اور اس کے رسولؐ نے ہمیں حکم دیا تھا۔
گر اطاعت نہ ہو حیاتؔ اُنؐ کی
ایسا جینا فضول جینا ہے
(کالم نگارقومی وسماجی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭