کامران گورائیہ
آسمان کو چُھو لینے والی مہنگائی اور بے روز گاری کے بعد عوام کو اب امن و امان کی غیر مستحکم ہوتی ہوئی صورتحال کا بھی سامنا ہے۔ یوں تو برسر اقتدار جماعت کے رہنماؤں کے متضاد بیانات نے ملک بھرکو سنسنی خیز صورت حال سے دو چار کر دیا ہے۔ کالعدم تنظیم کے ساتھ کیے جانے والے مذاکرات اور مذاکرات کی ناکامی نے وزیر داخلہ شیخ رشید، وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور خود وزیراعظم عمران خان کو بھی بوکھلا کر رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ رہی کہ کالعدم تنظیم کے رہنماؤں سے مذاکرات کے بعد طے شدہ شقوں پر عملدرآمد نہیں کیا جاسکا اور ایسا ایک سے زائد مرتبہ ہوا۔
بالآخر روائت ہلاک کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمن کی خدمات حاصل کی گئیں اور اس میں بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کردار کو بہت زیادہ اہمیت حاصل رہی جنہوں نے مفتی منیب الرحمن کی مصالحت سے کالعدم تنظیم کے نمائندوں سے ملاقات کی لیکن یہاں پر سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ پی ٹی آئی نے برسر اقتدار آتے ہی اپنے سیاسی مخالفین کو ملک دشمنوں کے ایجنٹوں سے ساز باز کرنے کی روش اپنائی، کبھی بھی حکمران جماعت کا اپنے سیاسی مخالفین کو غدار قرار دینا انتہائی نامناسب رویہ ہے جو موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ آج کی اپوزیشن جماعتوں کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اپنے سیاسی حریفوں کو ملک دشمن کہنے سے گریز کریں۔
ماضی کی طرح آج کے حکمران بھی اسی ڈگر پر عمل پیرا ہیں اسی لئے کالعدم تنظیم پر بھی یہ الزام عائد کیا گیا کہ اس کے ہمسایہ ملک بھارت سے تعلقات ہیں اور درحقیقت کالعدم تنظیم کے احتجاجی لانگ مارچ کی فنڈنگ بھی بھارت سے کی جا رہی ہے ایسے الزامات سے ملک میں انار کی پھیلتی ہے جس کے نتائج دہائیوں تک بھگتنا پڑتے ہیں۔ اسی لئے احتجاج کرنے والوں اور اپنے حقوق کے لئے لانگ مارچ کرنا بھی پاکستان میں بسنے والوں کا بنیادی حق ہے اور کوئی بھی حکمران عوام کو اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر آنے سے نہیں روک سکتا۔ موجودہ مہنگائی اور بے روز گاری کے دگر گروں حالات ہیں اب تمام اپوزیشن جماعتیں یک نکاتی ایجنڈے پر سڑکوں پر نکل رہی ہیں۔ حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو روکنے کے لئے ہر قسم کے حربے استعمال کر سکتی ہے لیکن کسی بھی سیاسی رہنماء کو ملک دشمن ایجنڈے کی تعمیل کرنے کا الزام لگانا اتنہائی نا مناسب عمل ہے جس سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ سب سے پہلے ہم سب پر اس ملک کی سالمیت برقرار رکھنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
تحریکِ لبیک اور حکومت کے درمیان معاہدہ تو طے پا گیا ہے لیکن بے اعتمادی اور بے یقینی کی فضا کسی حد تک برقرار دکھائی دیتی ہے۔ معاہدہ طے پا جانے کے اعلان کے باوجود نہ تو تحریک لبیک نے ابھی تک لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی حکومت نے جی ٹی روڈ سے مکمل طور پر رکاوٹوں کو ہٹایا ہے۔ معاہدے کے اعلان کے بعد گذشتہ روز حکومت نے اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت بعض مقامات سے کنٹینرز کو تو ضرور ہٹایا ہے لیکن انھیں برلب سڑک کھڑا کر دیا گیا ہے۔ جی ٹی روڈ پر واقع کچھ پلوں کو جزوی طور پر کھولا گیا ہے تاہم گجرات میں دریائے چناب کے تینوں پلوں پر کنٹینرز بدستور موجود ہیں اور گجرات پولیس نے دریائے چناب کے داخلی پُل پر ناکہ بندی مزید سخت کر دی ہے۔ اس جانب سے کوئی بھی شہری بغیر شناختی کارڈ دکھائے وزیر آباد میں داخل نہیں ہو سکتا حتی کہ عورتوں اور بزرگوں سے بھی شناختی کارڈ طلب کیے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں تحریکِ لبیک کے کارکن اور قیادت معاہدے پر عملدرآمد سے قبل وزیرآباد سے واپس جانے کو تیار دکھائی نہیں دیتے۔
ادھر کالعدم تحریکِ لبیک اور حکومت کے درمیان معاہدے کا اعلان کرنے والے مفتی منیب نے کہاتھا کہ ٹی ایل پی کے مطالبات میں فرانسیسی سفیر کی واپسی، سفارت خانہ بند کرنے اور یورپی یونین سے تعلقات منقطع کرنے جیسے مطالبات شامل نہیں ہیں لیکن انھوں نے بھی یہ نہیں بتایا کہ پھر مطالبات کیا تھے اور معاہدے میں کیا طے ہوا ہے۔ اس بارے میں تحریکِ لبیک کے ترجمان کا کہنا تھا کہ مفتی منیب اپنے بیان کی خود وضاحت کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تحریکِ لبیک حکومت کے ساتھ اپنے اس وعدے کی پاسداری کر رہی ہے کہ معاہدے کی شرائط خفیہ رکھی جائیں گی، چنانچہ وہ معاہدے کے بارے میں تفصیلات نہیں بتا سکتے اور یہ معاہدہ حکومت کی جانب سے عملی اقدامات کی صورت میں سامنے آئے گا۔ تحریک لبیک کی جانب سے یہ دعوی پہلے ہی سامنے آ چکا ہے کہ حکومت نے سفیر کی ملک بدری سمیت ان کے تمام مطالبات پر لچک دکھائی ہے۔
حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان ہونے والا حالیہ معاہدہ اس جماعت کے ساتھ ماضی میں کیے گئے معاہدوں سے مختلف نہیں ہے اور اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ حکومت ان سے کیے گئے معاہدے کی پاسداری یقینی بنائے گی۔ نہ ہی اس بات کی کوئی ضمانت دی جا سکتی ہے کہ اس معاہدے کے بعد اپنے پرانے مطالبات کے ساتھ تحریک لبیک دوبارہ سڑکوں پر نہیں آئے گی۔ نہ تو حکومت فرانس کے سفیر کو ملک بدر کر سکتی ہے اور نہ ہی سعد رضوی اور ٹی ایل پی کی قیادت کے خلاف درج مقدمات کو محض معاہدوں کی روشنی میں ختم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کا کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ کوئی پہلی مرتبہ معاہدہ نہیں ہوا بلکہ ماضی میں کالعدم شریعت نفاذ محمدی کے ساتھ بھی معاہدہ ہو چکا ہے۔
تحریک لبیک سے ہونے والے حالیہ معاہدے پر کس حد تک عملدرآمد ہو گا اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن ماضی میں اس جماعت کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو اگر سامنے رکھا جائے تو مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی حکومتوں نے وقت گزاری کے تحت اس جماعت کے ساتھ معاہدے کیے جن پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوا۔ پنجاب کے محکمہ داخلہ کے ایک اہلکار کے مطابق منگل کو 800 کے قریب افراد کو رہا کر دیا گیا ہے لیکن کشیدگی تاحال برقرار ہے، ان کے مطابق کالعدم تحریک لبیک کے ان کارکنوں کو رہا کیا جا رہا ہے جن کے خلاف اس سے پہلے کوئی مقدمہ درج نہیں تھا۔ اہلکار کے مطابق جن افراد کے خلاف لانگ مارچ کے دوران پولیس اہلکاروں کے قتل کرنے کا الزام ہے انھیں کسی صورت رہا نہیں کیا جائے گا۔ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے بھی تحریک لبیک پاکستان کے تین ایم پی او کے تحت گرفتار شدہ کارکنوں کو رہا کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں اور اس سلسلے میں باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد تنظیم کے تمام گرفتار شدہ کارکن رہا ہو جائیں گے۔
ملکی سیاست میں غداری اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ دینے کا سلسلہ روکنا ہوگا، پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی تینوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے کو ملک دشمن کہہ رہی ہیں، تینوں جماعتوں پر ملک دشمن اور بھارت نواز سیاست کے الزامات لگ چکے ہیں مگر کسی سیاسی جماعت نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا، ملک دشمنی اور غداری کے الزامات کی سیاست پاکستان بننے کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی۔ بانی پاکستان کی بہن مادر ملت فاطمہ جناح سے لے کر قائداعظمؒ کے ساتھی سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی تک پر بھی غداری کا لیبل لگایا گیا، جی ایم سید، باچا خان اور مولانا مودودی سے یہ سلسلہ آج نواز شریف تک پہنچ چکا ہے، سیاستدانوں کے علاوہ فیض احمد فیض اور حبیب جالب جیسے لوگوں پر یہ الزامات لگائے گئے۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭