اسرار ایوب
جناب وزیرِ اعظم نے رحمتؐ اللعالمین اتھارٹی قائم کرنے کااعلان تو کیا لیکن کیا انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے آخری نبیؐ کو رحمتؐ اللعالمین کیوں کہا؟
نبی آخر الزماں ؐ کی بعثت کا مقصد قرآنِ کریم میں یہ بتایا گیا کہ آپ ؐ ان بوجھوں کو اتار دیں جن کے نیچے انسانیت دبی ہوئی ہے اور ان زنجیروں کو تو ڑ دیں جن میں انسان جکڑا ہوا ہے (/157الاعراف)۔پہلی زنجیر ”ملوکیت“ دوسری ”سرمایہ پرستی“ اور تیسری ”مذہبی پیشوایت“ کی ہے۔قرآن کی رو سے فرعون،قارون اور ہامان بالترتیب ملوکیت، سرمایہ پر ستی اور مذہبی پیشوایت کے نمائندے ہیں (/39العنکبوت، /23-24المومن)۔ فرعون، قارو ن اور ہامان نے بنی اسرائیل کے حقوق پامال کیے جبکہ فرعونیت، قارونیت اور ہامانیت ساری انسانیت کا استحصال کر رہی ہے۔
قرآن ملوکیت کی زنجیر کو توڑنے کا حکم یوں دیتا ہے کہ ہر انسان (انسان ہونے کی وجہ سے) واجب التکریم ہے (70/بنی اسرائیل) کسی انسان کو بھی اس بات کا حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان پر حکومت کرے اور اس سے اپنی محکومیت کر وائے (/79ال عمران) حکومت کا حق صرف خدا کو حاصل ہے کیونکہ وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے (/57الانعام) لہذا قرآن کی اطاعت کرو (/3الاعراف، /55الزمر) یعنی قرآن کے مطابق فیصلے کرو (/105النساء، /76النمل) یعنی عدل کے مطابق فیصلے کرو (/58النساء، /42المائدہ)۔ اسی لئے حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ ”جو (حکمران اپنی مرضی کے مطابق نہیں بلکہ) اللہ کے کتاب کے موافق تمہیں چلانا چاہے اس کی اطاعت کرو اور اس کی بات سنو“(مسلم)۔
سرمایہ پرستی کی زنجیر کو توڑنے کی ہدایت یوں کی کہ (پیداوار کے وسائل یعنی زمین، پانی، ہوا وغیرہ خدا کی طرف سے بخشش کے طور پر عطا کیے گئے ہیں اور) جو کچھ خدا کی طرف سے بطور بخشش عطا ہوا ہے (وہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہو سکتا یعنی) اسکے گرد حصار نہیں کھینچا جا سکتا (/20بنی اسرائیل)دولت کی گردش ایسی ہونی چاہیے کہ یہ (تمام طبقوں میں مساوی طور پر تقسیم ہو) اوپر کے طبقے میں ہی نہ پھرتی رہے (/7الحشر) اے محمدؐ (جب) یہ تم سے پوچھتے ہیں کہ ہم کتنا مال (معاشرے کی فلاح و بہبود پر) خرچ کریں تو ان سے کہہ دو کہ (ان کے پاس انکی) ضرورت سے زیادہ جتنا بھی ہو (/219البقرۃ)۔ چنانچہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا کہ ”دینار و درہم کے بندوں پر لعنت کی گئی ہے“(ترمذی۔مشکوۃ)”مال بڑھانے والے، فخر کرنے والے اور دولت مندی دکھانے والے سے خدا ناراض ہو گا (بیہقی۔ شعب الایمان۔ مشکوۃ)“۔
مذہبی پیشوایت کی زنجیر کو توڑنے کی تاکید یوں کی کہ”خدا ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہے“ (/186البقرۃ)”خدا انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ انسان کے قریب ہے“ (/16ق)”مومنو! اکثر علماء اور مشائخ لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں او ر لوگوں کو خدا کے راستے کی طرف آنے سے روکتے ہیں (کہ اگر خدا کی حکومت قائم ہو گئی تو انکی حکومت ختم ہو جائے گی) (/34التوبۃ)۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بندے کے گمان سے بھی زیادہ بندے کے قریب ہوں“(متفق علیہ) ”اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جب میرا بندہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ اپنے دونوں ہونٹوں کو حرکت دیتا ہے“(بخاری)۔
قرآن کی رو سے ملوکیت، سرمایہ پرستی اور مذہبی پیشوایت ایک ہی درخت کی تین شاخیں ہیں، ایک ہی ابلیسی نظام کے تین حصے ہیں۔ اقبال کی مشہور نظم ”ابلیس کی مجلسِ شوری“میں ابلیس خود یہ کہتا ہے کہ
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
میں نے سکھلایافرنگی کو ملوکیت کا خواب
میں نے محکم کر دیا سرمایہ داری کا جنوں
صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
یہی وہ ٹولہ ہے جو محکوموں، کسانوں، مزدوروں غریبوں اور مریدوں کا خون چوس چوس کر عیش و آرام کی زندگی گزار رہا ہے۔ اسی استحصالی ٹولے کو قرآن ”مترفین“ (یعنی دوسروں کی کمائی پر عیش کرنے والے) کے نام سے پکارتا ہے اور انسانیت کا بدترین دشمن قرار دیتا ہے (/34سبا، /23الزحزف)۔
استحصالی ٹولے کے پاس اپنے باطل نظام کا جوازاندھی تقلید کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ قرآن ہی کے بقول جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ خدا نے (قرآن میں) نازل کیا ہے اسکی پیروی کرو تو یہ کہتے ہیں کہ ہم تو اس روش کی پیروی کریں گے جس پر اپنے آبا و اجداد کو چلتے ہوئے دیکھا۔ یعنی خواہ ان کے آبا و اجداد نہ عقل و بصیرت رکھتے ہوں نہ ہی وحی کے صحیح راستے پر گامزن ہوں یہ پھر بھی انہی کے نقشِ قدم پر چلیں گے (/170البقرۃ)۔
”مترفین“ لوگوں کو اپنے قابو میں رکھنے کیلئے ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“کے اصول پر چلتے ہیں۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ مختلف فرقوں اورگروہوں میں ایک دوسرے کے خلاف اتنی نفرت پیدا ہو جاتی ہے کہ ان میں کسی بات پر بھی اتفاق نہیں ہوتا۔ اور دوسرا یہ کہ مختلف گروہ ایک دوسرے کے ساتھ اتنا الجھ جاتے ہیں کہ ان کے پاس استحصالی ٹولے کی دھاندلیوں پر توجہ دینے کا وقت ہی نہیں رہتا۔بالفرضِ محال کوئی گروہ استحصالی ٹولے کے خلاف کھڑا ہو بھی جائے تو اس گروہ کی ضد میں کوئی دوسرا حمایت پر اتر آتا ہے۔ قرآن میں لکھا ہے کہ فرعون نے بھی (قارون اور ہامان کی معاونت سے) ملک کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر رکھا تھا (/4القصص) تاکہ اسکی حکومت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ رہے۔
آمدم برسرِ مطلب، اگررحمتؐ العالمین اتھارٹی‘ فرعونیت، قارونیت اور ہامانیت کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے بنائی جا رہی ہو تو اس سے اچھی بات کوئی نہیں لیکن اگر اس اتھارٹی کے ذریعے ان زنجیروں کو اور بھی مضبوط کیا جانا مقصود ہے تو پھراس سے بڑھ کر تاسف کی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟
(کالم نگار ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنسلٹنٹ
اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں)
٭……٭……٭