حنا سبزواری
ہیرا کسی گندی نالی میں گر جائے اور اسے صاف کرنے کے لیے نالی میں پڑے ہوئے اس پر پانی ڈالے تو منوں کے حساب سے پانی ڈالنے پر بھی وہ صاف نہ ہوگا۔ اس کے برعکس اس نالی سے نکال کر صرف ایک گھونٹ پانی سے دھویا جائے تو اس میں اصل نکھار آجائے گا یہی مثال انسان کی ہے۔ انسان دنیا کی گندگی میں اس قدر گھل مل چکا ہے کہ اب اس پر کوئی اثر نہیں لیکن اگر اسے یہاں سے نکال کر چند روز کیلئے خالص دینی ماحول سے ایمان اور بہترین انسان کی چمک دمک اور ہیرے سے بھی زیادہ نکھار آجائے گا۔ یہی تبلیغی جماعت کا مشن اور منشور ہے۔ تبلیغی جماعت کے اس مشن کی ابتدا بستی نظام الدین اولیاء دہلی سے ہوئی جہاں ایک چھوٹی سی مسجد میں ایک بزرگ مولانا محمد اسماعیل رہا کرتے تھے۔ ان کا معمول تھا کہ وہ وہاں بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے اور آنے جانے والے مسافروں کا سامان وہاں اترواکر انہیں ٹھنڈا پانی پلاتے۔
علاوہ ازیں وہ گردونواح میں کام کرنے والے مزدوروں کو بھی اکثر وہاں لے آتے ان کو قرآن پڑھا تے نماز سکھاتے ان کے مناسب خاطر خدمت کرتے اور پھر نوافل پڑھتے کہ اللہ نے مجھے اپنے بندوں کی خدمت کی توفیق بخشی ساری عمر مولانا ا سی چھو ٹی سی مسجد میں ہی قرب و جوار کے لوگوں کو د درس و تدریس دیتے رہے ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند جمند مولانا محمد الیاس نے دہلی کے مدرسہ مظا ہر علوم میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا آپ مولانا رشید احمد گنگوہی سے بیعت تھے آپ وہاں لوگوں کی بیعت کر کے تزکیہ نفس کرنے لگے ان کے اخلاق و یقین کی برکت سے میو ات کا تقریبا سارا علاقہ جو گمراہی جہالت اور اکھڑ پن میں مشہور تھا اس کے ہزاروں افراد مبلغ بن گئے مولانا کے مسلسل جدوجہد کے بعد وہاں تبلیغ گشت شروع ہو گئے ا ٓہستہ آہستہ یہ سلسلہ انڈیا سے باہر پہنچ گیا اپنے آخری دنوں میں مولانا نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ میرے زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اگر میری وفات کے بعد یہ سلسلہ تبلیغ جاری نہ رہا تو میری روح کو سکون نہ ہوگا لہذا میری زندگی میں یہ مشن کسی ذمہ دار کو سونپ دیا جائے چنانچہ بزرگوں کی باہمی مشورے کے بعد آپ کے بیٹے مولانا محمد یوسف کو جماعت کا امیر اور آپ کا جانشین بنا دیا گیا مولانا محمد الیاس 1922ء کو انتقال فرما گئے اور ان کے بعد ان کے بیٹے مولانا محمد یوسف نے اس کام کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ اپنے نظر کیمیا ا ثر سے پوری دنیا کے قلوب کو گرما کررکھ دیا اور اس پاک مشن کو دنیا کے طویل وعرض میں پہنچا دیا ان کی سچی لگن اور مسلسل سخت جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا میں شاید کوئی ایسا ملک نہیں جہاں تبلیغی جماعت کا مشن جاری نہ ہو۔
قیام پاکستان کے بعد مولانا محمد یوسف نے سسلہ تبلیغ رائیونڈ سے شروع کرنے کا ارادہ ٖ فرمایا پاکستان کے ا س چھوٹے سے قصبے میں اس وقت موجودہ تبلیغی مرکز کی جگہ ایک چھوٹی سی کچی مسجد ہے اور اس کے ساتھ ایک مقامی میواتی باباعبداللہ کی کچھ آراضی پڑھی تھی جس نے اس نیک مشن سے مرعوب ہو کر اپنی اراضی مسجد کے نام وقف کر دی اور پھر 1949ء کو یہاں پہلا تبلیغی اجتماع منعقد ہوا جو چند ہزار افراد کا تھا پھر وقت کی دھاروں کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ ترقی کرتا گیا کچی مسجد کی جگہ بہت بڑی مسجد تعمیر ہو گئی لیکن وہ ناکافی ہو گئی بعدازاں تبلیغی مندوبین نے رائیونڈ کے قریب سالانہ اجتماع کے انعقاد کے لیے 112 ایکڑ اراضی خرید لی جہاں اب حج بیت اللہ کے بعد دوسرا بڑا اجتماع منعقد ہوتا ہے اور اب مزید وسیع تر اراضی بھی مذکورہ اراضی میں شامل کر لی گئی۔
مولانا محمد یوسف نے اپنے والد ماجد کی زندگی کے بعد تقریباً 21سال جماعت کی قیادت و امارت میں گزاری۔ ان کی زندگی مسلسل جہاد تھی اور اس کا مقصد صرف ایک ہی تھا کہ مسلمان حقیقی مسلمان بن جائیں کیونکہ اس کی تخلیق امربالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے ہوئی ہے اور اللہ کی رضا کے لئے جیتا اور اس کی رضا کی خاطر اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردیتا ہے اور مادی ا غراض اس کا مطمع نظر نہیں ہوتیں۔ مولانا نے دورانے تبلیغ کبھی ناخوشگوار حالات کی پروا نہیں کی، وہ حادثات میں مسکراتے، طوفانوں سے ٹکراتے رہے تاریخ میں شمع جلاتے مردہ دلوں میں حیات تازہ دوڑاتے، دنیاوی میں غرق مسلمانوں کی فکر آخرت اور روحانی واخلاقی اقدار کو زندہ کرتے ہوئے اس تبلیغی سفر میں اس جہاں سے اور اپنی جان سے گزر کر زندہ جاوید ہوگئے۔ آج تبلیغی جماعت کا سب سے بڑا مرکز رائیونڈ میں ہے اور بزرگوں کے لگائے ہوئے زخم سے بہنے والے نور کی دعائیں پوری دنیا کو منور کررہی ہیں۔
(کالم نگارسینئر صحافی ہیں)
٭……٭……٭