تازہ تر ین

جَون ایلیا کی بیٹی کا خط

رانامحبوب ا ختر
جون ایلیا اور محترمہ زاہدہ حنا کی بیٹی فینانہ فرنام کی ایک تحریر وائرل ہوئی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خاں کے بڑے سرائیکی شاعر سعید اختر کی موت کا غم تازہ تھا کہ ابرار احمد جیسے عمدہ شاعر اور دوست کی جدائی نے لرزا دیا۔ اس کے بعد وسیب کے ایک سوجھل آدمی محمود نظامی چل بسے۔ اداسی کے موسم میں فینانہ کی تحریر نے ایسی قیامت ڈھائی کہ ہم دوستوں کی موت کی دہشت سے آنکھیں چرا کر جون ایلیا کی وحشت کی کہانی کرتے ہیں۔ “آج ابو کی انیسویں برسی ہے دنیا اور ان کے مداحوں نے انہیں آج کے دن کھویا تھا مگر میں نے ابو کو سالہا سال پہلے کھو دیا تھا “فینانہ کی تحریر کا مقصد اپنے مشہور والدین کے ازدواجی رشتے کو کھوجنا، اپنی اماں کی بریت اور باپ کی روبکاری ہے۔ ایک رات فینانہ نے ابو کو امی سے لڑتے دیکھا اور یہ منظر ان کے ذہن پر نقش ہو گیا۔ حساس دل بیٹی نے وہ رات جاگ کر گزاری تھی۔ ” ہمیں شاعر جون ایلیا نہیں ہمارا باپ جون ایلیا چاہئے تھا جو کہیں کھو گیا تھا”۔ ابو نے امی کو اس لئے قبول نہ کیا کہ امی “امروہہ کی نہیں تھیں اور نہ ہی وہ شیعہ تھیں “۔ اس تحریر کی ایک اور اہم بات فینانہ کے نام کی تبدیلی ہے۔ وہ جب فینانہ جون سے فینانہ فرنام بنیں تو نام کی اس تبدیلی کو جون صاحب نے سپورٹ کیا اور جب بیٹی نے باپ کا نام اپنے نام سے ہٹایا تو ان کا حساس باپ اور شاعر ساتھ تھا!
بیٹی، فینانہ کی رلا دینے والی تحریر ان کا سچ ہے۔ باپ، جون ایلیا کا سچ کیا تھا؟ جون ایلیا (1931-2002ء) سادات امروہہ کے علمی اور ادبی گھرانے کے فرزند تھے۔ رئیس امروہی اور سید محمد تقی جیسے عالموں کے چھوٹے بھائی اور مصور، صادقین کے ماموں تھے۔ اردو تو خیر ان کے گھر کی زبان تھی، جون صاحب، عربی، فارسی، عبرانی، سنسکرت اور انگریزی جاننے والے عجب شاعر تھے۔ نظریات کے لحاظ سے وہ مارکسسٹ اور ذاتی رویوں میں انارکسٹ، باغی اور بوہیمین تھے۔ وہ باپ، بادشاہ اور خدا کی دنیا کے باغی تھے۔ پست دنیا میں باپ ہونا ایک paradox تھا۔ ازدواجی زندگی کے تضادات اور تناقصات الگ تھے۔ ان کے چار دوست، محمد علی صدیقی، حسن عابد، راحت سعید اور ممتاز سعید کی چوکڑی کا مخفف ” محرم” تھا۔ ان میں سے راحت سعید زندہ ہیں۔ سچ یہ ہے کہ یہ شادی فینانہ کی والدہ کی محبت کی ضد تھی۔ جون ایلیا کو شادی پر بمشکل تمام راضی کیا گیا تھا۔ شروع سے ہی شادی میں خرابی مضمر تھی کہ میاں بیوی کے مزاج اور ترجیحات میں فرق تھا۔ جون ایلیا، ازدواج کے آدمی نہ تھے۔ ان کا مسئلہ دل وحشی تھا۔ وہ ہستی کے فریب میں آنے والے آدمی نہ تھے۔ محشرستان بیقراری میں وہ دنیا سے بے نیاز رہنے والے “وحشی” تھے۔ ان کا تاریخی شعور اسقدر بلند تھا کہ ہماری پوری تاریخ کو دوجملوں میں سمو دیا ہے ” ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے”۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ” ہر مسجد کا اپنا مسلک ہوتا ہے۔مسجد یا تو سنی ہوتی ہے یا، بریلوی یا دیوبندی۔ میں نے آج تک کوئی مسلمان مسجد نہیں دیکھی۔” اس طرح کی دانش اور ثقافتی پختگی رکھنے والا عالم، شیعہ سنی کی تفریق سے ماورا ہوتا ہے۔ جون ایلیا کی ذات پر شیعیت کا الزام unkind cut ہے۔یہ درست ہے کہ کئی دہریہ ترقی پسند شیعہ محرم میں مجلس اور نیاز سے بے نیاز نہیں ہوتے کہ کربلا ان کے لئے حریت اور انقلاب سے وابستگی کا استعارہ ہے۔ جون ایلیا کا مسئلہ شیعیت نہ تھی، فنا اور بقا سے دو نیم زندگی تھی۔ نیکی اور بدی کی چپقلش تھی۔ وجودی اداسی کی گھمبیرتا تھی۔دو نیم زندگی کو بیخودی درکار تھی:
مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
مے پرستی، جون ایلیا کے لئے عافیت انگیز تھی۔ان کا دل،عافیت کا دشمن تھا۔وہ وحشت کے آدمی تھے۔ مشاعروں میں وہ بال بکھرائے ماتمیوں کی طرح جسم پر ہاتھ مارتے ہوئے شعر پڑھتے تو سامعین، ان کی وحشت میں شریک ہو جاتے تھے۔ وحشت کیا ہے؟ جون ایلیا، اس کی تصویر تھے۔ وہ یکتا اور تنہا تھے کہ یکتائی اور تنہائی میں اٹوٹ رشتہ ہے۔ جون ایلیا میں حسن کی نظارگی اور حسن کی تخلیق کے علاوہ ان کیلئے سب سچائیاں اضافی تھیں۔ دنیا ان کے لئے پست تھی مگر پست دنیا نے انھیں ڈھیر کر دیا اور عمر کے آخری سالوں میں وہ تنہا، مضمحل اور گوشہ نشین ہو گئے تھے:
انجمن میں میری خاموشی
بربادی نہیں ہے، وحشت ہے
خواہشیں دل کا ساتھ چھوڑ گئیں
یہ اذیت بڑی اذیت ہے
اردو شاعری کی روایت میں وحشت کے تصور کو ڈاکٹر نیئر عباس نیر نے اپنی کتاب ” جدیدیت اور نو آبادیات” میں انوکھے انداز سے کھولا ہے۔ ان کے مطابق، وحشت 1857ء سے پہلے کے انڈین ادب کا اہم موضوع رہی ہے۔ عشق کے نتیجے میں جو خبط، جنوں، مونجھ، ہیبت اور دہشت پیدا ہوتی ہے اس کا بیان مشکل ہے۔ مولانا روم اسے خوش سودائی کہتے ہیں۔ “عاشق کا جی آبادی میں نہیں لگتا وہ بہار کے موسم میں جنگل، بن، دشت، صحرا میں نکل جاتا ہے:
وحشت دل کوئی شہروں میں سما سکتی ہے
کاش لے جائے جنوں سوئے بیاباں مجھ کو
پروفیسر نیئر لکھتے ہیں کہ عاشق کا پروٹوٹائپ مجنوں ہے۔ وحشت میں صحرا نوردی عاشق کا شعار ہے۔ وحشت، عشق کی علامتی کائنات ہے۔ زندگی کی دہشت، موت کا دھڑکا اور وجودی anxiety ہوش وخرد کے دشمن ہیں۔ سارتر کے ہاں یہ متلی سے ملتی جلتی کیفیت ہے۔ nausea، شعور کا مستقل عذاب ہے۔ زندگی کا گہرا وجودی شعور وحشت انگیز ہے۔پروفیسر ناصر عباس لکھتے ہیں ” کلاسیکی غزل کے شاعر کے یہاں وحشت پیدا ہوتی ہے، وہ اسی عالم میں دشت کی طرف آہوئے رمیدہ کی مانند بھاگتا ہے، وہ کسی آدمی سے نہیں ڈرا ہوا، خود زندگی کی ازلی سچائی سے وحشت زدہ ہے۔ بیابان کی طرف وہ پناہ کے لئے نہیں، اس کا کھلی آنکھوں سے سامنا کرنے کے لئے بھاگتا ہے، وہ بیاباں کی صورت اپنی اصلی حالت کا مثل دیکھتا ہے، کسی نظریے اور کبیری بیانیے کے بغیر اپنی ہستی کو، اپنے ہونے کو سمجھنا، اپنی ازلی تنہائی کو محسوس کرنا جس کا حقیقی تجربہ ہر شخص کو اپنی موت کے لمحے میں تمام ممکنہ شدت کے ساتھ کرنا ہے، بے ثباتی کو سب سے بڑی سچائی کے طور پر دیکھنا، دنیا کے تصورات اور اپنے اندر کی دنیا میں مسلسل عدم مطابقت محسوس کرنا، یہ سب وحشت خیز ہے۔میر کے “شعر” کا یہی پس منظر ہے:
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کیبسی ہے
فینانہ کا دکھ بجا مگر اس دکھ کے سوتے والدین کے بجائے وجود کی گمبھیرتا سے پھوٹتے ہیں۔ یہ سوال کہ شاعر اور فن کار اچھے باپ ہوتے ہیں یا نہیں، بحث طلب ہے کہ ہم نے شاعروں اور فن کاروں میں عام لوگوں کی نسبت اچھے والدین کی پرسنٹیج زیادہ دیکھی ہے۔ ان کی اچھی والدہ بھی تو ایک لکھاری ہیں۔ فنکار، حساس اور بے پروا ہو سکتے ہیں، ظالم نہیں۔ ایک بار فینانہ کے بابا نے اپنے ایک جونیئر شاعر دوست سے کہا؛ جانی ایک جھلک، زریون کی دکھانے کی ترکیب نکالو۔ وہ دوست جون صاحب کو موٹر سائیکل پر بٹھاکر اس فلیٹ کے سامنے لے گئے جہاں زریون اپنی اماں کے ساتھ رہتے تھے۔ عرض گزاری گئی کہ زریون کھڑکی میں آجائیں اور فلیٹ کے نیچے کھڑے جون صاحب بیٹے کی ایک جھلک دیکھ کر واپس چلے جائیں گے۔ درخواست مسترد ہوئی اور جون صاحب نامراد واپس گئے۔ ساز زندگی کے بے صدا ہونے سے پہلے اس طرح کے سانحوں نے ان کی زندگی کی وحشت کو بڑھا دیا تھا۔ وہ خون تھوکتے تھے۔ جون صاحب کا ایک شعر ہے:
کیا سنائیں تمھیں حکایت دل
ہم کو دھوکا دیا گیا جاناں
شیکسپیئر کے ہیملٹ میں، چچا کے ہاتھوں باپ کے قتل پر ہیملٹ کو ماں سے شکایت تھی۔ بیٹے اور ماں کے درمیان ایک مکالمے میں فینانہ کے سوالوں کا جواب ہے۔ ماں نے ہیملٹ سے کہا:
O Hamlet, thou hast cleft my heart in twain
ہیملٹ نے جواب دیا:
Oh, throw away the worser part of it, and live the purer with the other half!
فینانہ فرنام، آپ نے ہیملٹ کی ماں کی طرح کوئی پاپ نہیں کیا ہے۔ آپ کا دکھ broken families کے بے شمار بچوں جیسا ہے۔ آپ کو دل کا بدتر حصہ پھینکنے کی ضرورت بھی نہیں، بس اپنے دل کو محبت اور احترام سے اجال لیجیے اور مشہور والدین کی نعمت کو جھٹلائے بغیر زندگی کیجئے۔ آپ کے بابا کا شعر ہے:
جو زندگی بچی ہے اسے مت گنوایئے
بہتر یہ ہے آپ مجھے بھول جایئے
(کالم نگارقومی وبین الاقوامی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain