تازہ تر ین

5 ارب پاکستانی، 6سو ارب بھارتی ، ایک ہزار ارب ڈالر امریکی امداد، افغانستان کے حالات نہ بدلے

وزیراعظم عمران خان صاحب نے طالبان کی افغانستان کی حکومت کو زندگی گزارنے کیلئے ضروری اشیاءکی شکل میں 5 ارب روپے کی مدد کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف اسی ایک وقت میں آئی ایم ایف نے 6 ارب ڈالر کے فنڈز بھی جاری کرنے کا اعلان کر دیا ہے، لیکن کچھ شرائط کے ساتھ۔ اب ایک ایسا ملک جو اسی ایک وقت میں اپنے معاشی حالات کو بچانے کے لیے آئی ایم ایف سے شرائط کے ساتھ فنڈنگ لے رہا ہے اور اسی ایک وقت میں طالبان کی حکومت کی مدد کا بھی اعلان کرتا ہے۔ کیا یہ صورتحال معمول کے مطابق ہے یا حالات کے بالکل برعکس۔ اس معاملے میں پاکستانیوں کا خیال شاید اس کے خلاف ہی ہو، لیکن دوسری طرف حکومت پاکستان کی مجبوری بھی ہے کہ 20 سال بعد افغانستان میں ایک ایسی حکومت آئی ہے جس کے بارے میں دنیا کو یقین ہے کہ شاید پاکستان سے زیادہ طالبان کے قریب کوئی اور ملک نہ ہو، لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ پچھلے 20 سالوں میں دنیا بھر سے خاص طور پر امریکہ کی طرف سے جتنی مالی امداد افغانستان کی ہوئی ہے دنیا کے کسی اور ملک کی نہیں ہوئی ہے، میں اس پر بعد میں کچھ اور شوز بھی کروں گا کہ افغانستان کو پچھلے 20 سالوں میں کہاں کہاں سے کتنی مالی امداد ملی ہے اور پھر ان سینکڑوں، ہزاروں ارب ڈالروں کے ساتھ کیا ہوا۔ ماشاءاللہ ان ہزاروں اربوں ڈالرز کے ساتھ وہ کچھ ہوا جو دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہو سکتا۔ سب کو پتہ تھا کہ ان ہزاروں، اربوں ڈالرز کے ساتھ افغانستان میں کیا ہوا، امریکہ کو بھی پتہ ہے۔ امریکہ کی کانگریس کو بھی پتہ ہے، لیکن خاموشی سے منہ دوسری طرف کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ میں تو خیر اس پر آنے والے وقتوں میں شوز کروں گا، لیکن آج ایک ایسے ملک کی سینکڑوں، اربوں روپے کی مالی امداد کی بات کروں گا جس کو افغانستان میں طالبان کی پہلی حکومت کے 2001ءمیں ختم ہونے سے لے کر 2021 ءمیں طالبان کے دوبارہ حکومت سنبھالنے کے دوران 600 ارب روپے کی مدد کرنی پڑ گئی تھی۔ وہ ملک انڈیا ہے، انڈیا کے لیے بڑے عرصے کے بعد 2001ءمیں افغانستان میں دل کھول کر مالی امداد کرنے کا موقع ملا تھا کیونکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت نہیں تھی۔اور ایسی حکومت تھی۔ جس کا انڈیا کو پاکستان کی نسبت بہت زیادہ فائدہ حاصل ہوگیا تھا لیکن طالبان کے دوبارہ واپس آنے کے بعد انڈیاکی افغانستان میں 600 ارب روپوں کی فنڈنگ۔ اب خود انڈیا کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی اب جو کچھ بھی افغانستان میں انڈیا کی مالی امداد اور سرمایہ کاری ہوئی ہے وہ تو اب طالبان کی مرضی کے مطابق ہی چلیں گے۔ ویسے تو پاکستان کے 5 ارب روپوں کی مدد تو انڈیا کے 600 ارب روپوں کی مدد کے سامنے کچھ نہیں ہے لیکن اگر خدانخواستہ انڈیا کے طرح کے حالات کا پاکستان کو سامنا کرنا پڑ گیا تو پھر کیا ہوگا۔طالبان کی حکومت کے استحکام کے بارے میںتو وزیراعظم عمران خان صاحب بھی اپنی غیریقینی کا اظہار کرچکے ہیں۔پاکستان کی نسبت انڈیا کی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے ترقی پذیر ممالک کی مد کرتارہتا ہے ویسے تو پوری دنیا سے زیادہ غریب لوگ دو ملکوں میں رہتے ہیں ایک چین دوسرا انڈیا۔ لیکن چین اور انڈیا دونوں کی یہ پالیسی بن چکی ہے کہ جیسے ہی کوئی سبب بنے یا حالات کی کروٹ انہیں مجبور کردے کہ وہ کسی ترقی پذیر ملک کی مدد کو آجائیں۔ پاکستان کی فی الحال ایسی کوئی مجبوری یا پالیسی نہیں ہے۔ انڈیا نے 2001 ءسے 2021ءکے 20 سالوں کے دوران جن تین ممالک کی سب سے زیادہ مالی مدد کی ہے وہ بھٹو ان‘ افغانستان اور نیپال ہیں۔ 4 ہزار ارب روپوں کی مدد بھٹو ان کو 600 ارب روپوں کی مدد افغانستان کو اور 500 ارب روپوں کی مدد نیپال کو۔ بھوٹان اور نیپال کی بات تو ایک طرف رکھ دی جائے۔ بات ہوگی افغانستان کی جہاں انڈیا نے 600 ارب روپوں کی مالی مدد کی تھی۔ پچھلے بیس سالوں کے دوران انڈیا نے افغانستان میں بے شمار منصوبے تعمیر کروائے جن میں تین منصوبے ایسے تھے جس کا افتتاح انڈیا کے وزیراعظم نریندرا مودی اورافغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے اکٹھے ہی کیا تھا۔ افغانستان کی پارلیمنٹ کی عمارت افغانستان انڈیا فرینڈ شپ ڈیم کی تعمیر اور افغانستان کی وزارت خارجہ کی عمارت میں سٹور پیلس کی تعمیر یہ وہ تین منصوبے تھے جن کا افتتاح مودی صاحب نے اور اشرف غنی صاحب نے اکٹھے کیا تھا۔افغانستان انڈیا کی طرف سے مالی مدد حاصل کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ جبکہ افغانستان کی مالی مدد کے حوالے سے انڈیا پانچویں نمبر پر آنے والا ملک ہے اور اس ریجن کا سب سے بڑا ملک۔ انڈیا کی طرف سافغانستان کو 600 ارب روپوں کی مالی مدد اصل میں انڈیا کی طرف سے ڈویلپمنٹ پارٹنر والی پالیسی ہے۔ ویسے تو انڈیا 2001ءکے بعد سے ہی افغانستان کی مالی مدد کرنا شروع کر دی تھی لیکن 2014ءکے بعد تو مالی امداد میں اضافہ ہوگیا تھا جس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو 2014ءمیں افغانستان می انتخابات ہوئے تھے اور 2014ءہی میں انڈیا میں انتخابات ہوئے تھے۔ 2014ءمیں انتخابات میں ک امیابی حاصل کرنے کے بعد اشرف غنی کی حکومت کی پالیسی پاکستان کی طرف جھکتی نظر آئی۔ اشرف غنی چاہتے تھے کہ شاید پاکستان کے ساتھ معاملات ٹھیک ہوجائیں۔ دوسری وجہ مغربی ممالک کا افغانستان میں اپنی افواج میں کمی اور مالی امداد میں کمی تھی۔ ان دو صورت حال میں انڈیا کی مالی امداد میں اضافہ ہوا۔ غالباً انڈیا کو پتہ تھا کہ اشرف غنی صاحب کی پاکستان کے ساتھ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ دوسری یہ کہ افغانستان میں مغربی ممالک کی افواج اور مالی مدد میں کمی سے افغانستان انڈیا کے زیادہ قریب آجائے گا۔ انڈیا اس وقت ٹھیک سوچ رہا تھا۔ چاہ بہار پراجیکٹ کا بڑا چرچا رہا ہے۔ خاص طور پر پاکستان کے حوالے سے ۔ انڈیا نے چاہ بہار کو ایران اور افغانستان کو ملانے والی مہنگی ترین دلارام‘زارنج سڑک بنوائی جس سے دو مقاصد حاصل ہوئے تھے۔ ایک تو افغانستان کو ایران کے ساتھ سڑک کے ذریعے ملانا۔ دوسرا انڈیا کا اسی شاہراہ کے ذریعے اپنی ایکسپورٹ اور امپورٹ کیلئے پاکستان کے روٹ کا مرہون منت نہ ہونا تھا۔ انڈیا نے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ذریعے افغانستان میں وٹا من سے بھرپور بسکٹ بھجوانے کا بندوبست کیا جس کا مقصد افغانستان کے 20 لاکھ بچوں کو روزانہ کی بنیاد پر بسکٹ کی سپلائی تھی اور یہ بسکٹ افغانستان کے32 صوبوں کیلئے تھی۔ انڈیا نے افغانستان کا 97×65 فٹ لمبا اور چوڑا جھنڈا بھی تیار کیا تھا اور یہ جھنڈا اس وقت تحفے میں دیا گیا تھا جب اشرف غنی پاکستان کی طرف کسی امید کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ اس جھنڈے کو لہرانے کےلئے 200 فٹ لمبا فلیگ پول تیار کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ انڈیا نے افغانستان کی کرکٹ ٹیم کے انڈیا میں ہوم گراﺅنڈ بھی فراہم کی تھی۔ جہاں افغانستان کی کرکٹ ٹیم نے اپنے میچ ہوم گراﺅنڈ کے طور پر کھیلا کرتے تھے۔ انڈیا نے افغانستان کی اربن ٹرانسپورٹ کو مضبوط کرنے کے لئے 400 بسیں‘200 منی بسیں اور 105 یوٹیلیٹی کاریں بھی دی تھیں۔ اس کے علاوہ انڈیا نے افغانستان نیشنل آرمی کے لئے 285 ملٹری وہیکل اور 10 ایمبولینسیں بھی دی تھیں۔ اس کے علاوہ انڈیا نے افغانستان ایئر لائن ایرینا کو بھی انڈیا ایئر لائن کے تین جہاز بھی دیئے تھے۔ انڈیا نے افغانستان کی فضائیہ کو بھی مضبوط کرنے کیلئے بڑا کام کیا تھا۔انڈیا ٹیکنیشن نے افغانستان کی فضائیہ کو بھی سروسز کی تھیں اور خاص طور پر MIG-21 اور دوسرے روسی فضائی آلات کے لئے۔ اس کے علاوہ 454 سمال ڈویلپمنٹ پراجیکٹس بھی 2006ءاور2012ءکے درمیان تعمیر کئے تھے۔مجموعی طور پر انڈیا نے افغانستان میں 50 ہسپتال، کلینکس، بیسک ہیلتھ یونٹس، 500 کے قریب انسٹیٹیوٹ، سکول، کلاس رومز 4000 میل سے زیادہ سڑکیں،8 پل، 600 واٹر ٹینک، بورویلز، تتین سپورٹس سٹڈیم، 22 ملین کینال اِن ٹیک اور 3000 میل کی پائپ اسکیمیں افغانستان کے 34 صوبوں میں تعمیر کرائی تھیں۔ انڈیا اور افغانستان نے ڈائریکٹ ایئرکوریڈور بھی Crlablnh کر لیا تھا۔ جس کا سلسلہ 60 ٹن کارگو کابل سے دہلی جانے شروعہوا تھا۔ بعد میں ایئرکوریڈور کو قندھار، دہلی تک بڑھا دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 10 لاکھ ٹن گندم بھی انڈیا نے افغانستان کو سپلائی کی تھی۔افغانستان کی دوبارہ آباد کاری اور تعمیر میں امریکہ نے بھی انڈیا کے ساتھ مل کر کافی کام کئے تھے۔ بلکہ انڈیا کو اگر افغانستان سے کسی کام میں سب سے زیادہ فائدہ ہوا وہ یہی تھی۔ امریکہ اور دیگر ممالک کی طرف سے افغانستان کی نئے سرے سے تعمیر کے لئے 1000 ارب ڈالر خرچ کئے گئے۔اس سلسلے میں امریکی کمپنیوں کو ٹھیکہ ملتا تھا۔ اور امریکی کمپنیاں انڈین کمپنیوں کو Sub lentaet کر دیا کرتی تھیں۔ اس کو De feeto- trawyulan gcopenatin کہتے ہیں۔ یعنی کہ کسی بھی بدلے پراجیکٹ کا ٹھیکہ کسی امریکی کمپنی کو دیا گیا اور اس امریکی کمپنی نے اس پراجیکٹ کی Artical تعمیر کے لئے وہی پراجیکٹ کسی انڈین کمپنی کو دے دیا۔ اس طرح سے دونوں امریکی کمپنیاں اور انڈین کمپنیاں فائدے میں رہی تھیں۔ اس کے علاوہ انڈیا کا افغانستان کی مالی مدد کے لئے Indian Technical And Economie Corperation (ITEC) کا تعاون حاصل رہا۔ ITEC کے ذریعے افغانستان کے 8000 سے زائد بیورو کریٹس، سرکاری ملازم، پرائیویٹ لوگ اور طلبا/ طالبات انڈیا میں آ کر یا پھر انڈین ایکسپرٹس افغانستان جا کر تکنیکی تربیت حاصل کرتے تھے۔ ITEC کے ذریعے ہی انڈیا نے ہزاروں سکالر شپ بھی جاری کیں۔ جن میں 3000 سکالر شپ ان طلبا اور طالبات کے لئے تھے۔ جن کے والد جنگ میں مارے جا چکے تھے۔ ITEC کے ذریعے افغانستان کے رہنے والوں کو بڑی آسانی سے انڈین ویزہ مل جایا کرتا تھا۔ اسی ضمنن میں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی بھی مستفید ہوئے تھے۔ حامد کرزئی انڈیا کے ہماچل پردیش یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں۔ اسی وجہ سے حامد کرزئی کم از کم چودہ مرتبہ انڈیا کا دورہ کیا۔ اس کے علاوہ بیسیوں مرتبہ غیر سرکاری طور پر اپنی فیملی اور دوستوں کو بھی ملنے انڈیا جاتے رہے۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain