ملتان (اہتمام:مظہر جاوید+اکمل وینس‘ رپورٹ: عبدالستار قمر+طارق اسماعیل‘ تصاویر:خالد اسماعیل) روزنامہ ”خبریں“ کی 24ویں سالگرہ کے سلسلے میں ملتان میں ہونے والی تقریب ”مکالمہ بعنوان پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟“ میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ وفاق کی اکائیوں پر توازن پیدا کرنے کے لئے نئے صوبوں کا قیام وقت کی ضرورت ہے اور اس سے وفاق مضبوط ہوگا۔ ملتان کے ایک ہوٹل میں ہونے والی تقریب میں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے نمائندہ افراد نے شرکت کی۔ ”خبریں“ گروپ آف نیوز پیپرز کے چیف ایڈیٹر اور سی پی این ای کے صدر جناب ضیا شاہد نے میزبانی کے فرائض انجام دیئے۔ تقریب میں کہا گیا کہ ہمیں قائداعظم محمدعلی جناحؒ کے فرمان کے مطابق ایسا پاکستان چاہیے جس میں عوام کو چھت‘ مظلوم کو انصاف اور غریب کو روٹی مل سکے۔ روزنامہ ”خبریں“ کی منفرد تقریب میں شرکاءنے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی اور عوامی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے صوبے اور انتظامی یونٹ قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ بعض شرکاءنے پاکستان کو درپیش مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور قانون پر عمل نہ ہونا قرار دیا اور اسے تمام برائیوں کی بنیاد ٹھہرایا جبکہ بیشتر شرکاءکا کہنا تھا کہ بیروزگاری اور ناانصافی اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کسی شخص کو میرٹ پر کوئی چیز نہیں ملتی۔ سابق وزیراعظم اور پی پی پی کے مرکزی رہنما سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ وفاق میں صوبوں کو فنڈز دینے کے لئے این ایف سی ایوارڈ دیا جاتا ہے اسی طرح پراونشل فنانس ایوارڈ بھی ہونا چاہیے تاکہ تمام اضلاع کو آبادی کی بنیاد پر ترقیاتی فنڈز مل سکیں۔ انہوں نے کہا کہ گر ہمارے پاس قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت ہوتی تو ہم صوبے کے حق میں ووٹ حاصل کرلیتے مگر ہمارے پاس 142 ووٹ تھے جبکہ ضرورت 172ووٹوں کیتھی جبکہ سینٹ سے ہم نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کرالی حالانکہ سینٹ میں جنوبی پنجاب کی صرف ایک سنیٹر خالدہ محسن قریشی تھیں۔ انہوں نے کہاکہ وہ پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے کہا کہ سرائیکی صوبہ ہوگا۔ صدر مملکت آصف زرداری نے بھی کہا کہ ہم صوبہ بنائیں گے لیکن آئینی مجبوری تھی کہ جس صوبے کی تقسیم ہونا ہو اس کی ا سمبلی قرارداد منظور کرے۔ ہم نے کمیشن بنایا‘ ماہرین اقتصادیات‘ ماہرین زراعت اور دانشوروں سے مشاورت کی تو انہوں نے کہا کہ دو صوبوں کا قیام پریکٹیکل نہیں ہے صرف ایک صوبہ ہوسکتا ہے۔ بہاولپور صوبہ بنالیں یا ملتان صوبہ۔ انہوں نے جناب ضیا شاہد کی کاوشوں کو سراہا کہ انہوں نے تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے تاریخی بحث کرائی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی‘ دوسرا بجلی اور تیسرا معیشت ہے۔ یہ قومی سطح کے مسائل ہیں جبکہ دہشت گردی عالمی ایشو ہے اس کا حل بھی گلوبل ہوگا۔ دہشت گردی کی اصل وجہ غربت اور ناخواندگی ہے۔ جنوبی پناجب میں دونوں عوامل موجود ہیں۔ پاکستان نے 30ہزار لوگوں کی قربانی دی ہے۔ اس میں بیگناہ شہری زخمی‘ فوجی‘ پولیس والے بھی شامل ہیں۔ دہشت گردی کی وجہ سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوئی کیونکہ جس ملک میں امن نہیں ہوگا وہاں کوئی سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔ سب سے زیادہ سمندر پار پاکستانی متاثر ہوتے ہیں جو ہمیں سالانہ اربوں روپے کے ترسیلات زر بھجواتے ہیں۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا میں کام کرنیوالے پاکستانی سخت مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ وہ اداروں کو مضبوط بنانے کے حق میں ہیں۔ 1973ءکا آئین منظور ہوا جسے تمام جماعتوں نے مل کر بنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ مضبوط ہوگی تو ادارے مضبوط ہونگے۔ پارلیمنٹ میں وزیراعظم کی موجودگی ضروری ہے۔ جب میرا کوئی وزیر کسی سوال کا جواب نہیں دے پاتا تھا تو وہ خود جواب دیدیتے۔ تمام ادارے پارلیمنٹ کو جوابدہ ہیں مگر اب ایسی مثالیں نہیں ملتیں۔ سابق سپیکر قومی اسمبلی سید فخرامام نے کہا کہ قائداعظم محمدعلی جناحؒ کی ایک سوچ تھی۔ میں جب ان کی تقاریر کو پڑھتا ہوں اور ان کے بنائے ہوئے پاکستان کو دیکھتا ہوں تو واضح فرق لگتا ہے۔ بانی پاکستان کے فرمودات کو فراموش کرنے‘ ان کے فلسفے پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے بنگلہ دیش بنا۔ حکمران اور حکمرانی کے کچھ تقاضے ہیں۔ گڈگورننس بھی ہمارا مسئلہ ہے۔ ہم کون سا نظام چلارہے ہیں‘ پاکستان ایک سکیورٹی رسک سٹیٹ ہے۔ ایکسٹرنل اور انٹرنل دہشت گردی ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے مقروض ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ جب تک ہر شہری پر فوکس نہیں ہوگا‘ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جائیں گے اور ہر شعبہ زندگی میں رول ماڈل پیدا نہیں کئے جائیں گے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں پر توجہ نہیں دی جائے گی‘ بیروزگاری کا خاتمہ نہیں ہوگا‘ ہمارے مسائل حل نہیں ہونگے۔ اگر ذاتی مفاد کے لئے سیاست کرنی ہے تو جتنی مرضی آئین سازی کرلیں‘ قانون بنائیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ جب تک پاور فل ایلیٹ کا محاسبہ نہیں ہوگا یہ قائداعظمؒ کا پاکستان نہیں بنے گا۔ چین نے اپنی ایلیٹ کا محاسبہ کیا وہ آج کہاں کھڑا ہے۔ سینئر سیاسی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ سپریم کورٹ کو نیب کا چیئرمین نامزد کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ پرویز مشرف کی بنائی ہوئی نیب کو وہ ہمیشہ عیب ہی کہتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر شخص کو انصاف ملنا چاہیے اور سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ اختیارات کی ڈی سنٹرلائزیشن ہونی چاہیے۔ جب تک نئے صوبے نہیں بنتے اور ڈی سنٹرلائزیشن نہیں ہوتی پاکستان کے وجود کیلئے خطرات ختم نہیں ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو صوبے دینے پڑیں گے۔ کوئی اور جماعت صوبہ نہیں بناسکی‘ مسلم لیگ (ن) کو بنانا ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) دوتہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملتان صوبہ رائے ونڈ سے ملتا تھا۔ اس کے بعد صوبہ قصور تھا۔ انہوں نے کہا کہ بدلتے ہوئے حالات میں انتظامی یونٹس بنائے جائیں اور انہیں تمام اختیارات بھی دیئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ بلدیاتی ادارے بحال ہوگئے ہیں مگر منتخب نمائندوں کو اختیارات دینے کے بجائے پچھلے اختیارات کو بھی چھینا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہزارہ‘ پوٹھوہار‘ فاٹا‘ سندھ اور سرائیکی وسیب کے لوگ صوبہ چاہتے ہیں تو نئے صوبے بنانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور کو الگ صوبہ بنانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ محرومیاں اس لئے جنم لیتی ہیں کہ صوبے کا وزیراعلیٰ بھی لاہور کا اور چیف جسٹس بھی لاہور کا۔ بلوچستان میں بھی جنگ‘ سرحدم میں بھی جنگ‘ صوبہ نے بنائے تو خطرات بڑھیں گے۔ امریکہ نے اپنی چھوٹی سے چھوٹی ریاست کو بھی ووٹ کا حق دیا تھا۔ اگر امریکہ ایسی غلطی کرتا تو بکھر جاتا۔ بلوچستان میں چار بار ملٹری ایکشن ہوا۔ بھٹو نے بھی آپریشن کرایا۔ وہ کب تک ہماری توپوں کے گولے کھاتے رہیں گے۔ حکمران صوبے خوشدلی سے دیدیں۔ انہوں نے کہا کہ جو صوبے کا وزیراعلیٰ بن جاتا ہے وہ اپنے حلقہ اختیار کو کم کرنے پر رضامند نہیں ہوتا۔ وہ چاہتا ہے کہ اٹک کے پل سے ریتی تک اس کی حکومت ہو۔ انہوں نے واضح کہا کہ اردو اور پنجابی بولنے والوں کی سپورٹ کے بغیر صوبہ نہیں بن سکتا۔ سرائیکی تو کوہاٹ‘ لاڑکانہ میں بھی بولی جاتی ہے بلکہ لاڑکانہ میں سرائیکی بولنے والے 48 فیصد ہیں۔ انتظامی یونٹس چھوٹے ہونگے تو اقتدار بھی لمبا ہوگا۔ گڈ گورننس ہوگی۔ میری ماں کی زبان بھی سرائیکی ہے۔ یہ میری پیاری زبان ہے۔ اہل لاہور نے انہیں چار بار ایم این اے منتخب کیا میں ان کا احسان مند ہوں۔ عوامی راج پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی جمشید خان دستی نے بیوروکریٹس‘ سیاستدانوں اور عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کو تجربہ گاہ بنادیا گیا۔ مالی دہشت گردی کی وجہ سے کسی کو انصاف ملتا ہے نہ ریلیف۔ قومی مجرم پکڑے جاتے ہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ وہ جب سے پارلیمنٹ میں گئے ہیں وہاں کی برائیوں اور خرابیوں کے بارے میں آگاہ ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام سے ووٹ لینے والے ایوانوں اور اسمبلیوں میں جاکر اندھے ہوجاتے ہیں اور اپنے ووٹرز کو بھول جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بنگالیوں کو حقیر سمجھا گیا اس لئے بنگلہ دیش الگ ہوا۔ جماعت اسلامی کے 80/90 سالہ بزرگوں نے پاکستان کیلئے قربانیاں دیں مگر کسی نے احتجاج نہیں کیا۔ تخت لاہور سرائیکی وسیب کے ساتھ مسلسل زیادتیاں کررہا ہے۔ ہمارے لوگوں کو تھانے اور پٹواری کی سیاست میں الجھایا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”خبریں“ واحد اخبار ہے جو صحیح معنوں میں آزاد ہے جہاں ہر چھوٹی بڑی خبر لگتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی سید جاوید علی شاہ نے کہا کہ ایک سیاسی ورکر کی حیثیت نے ان کا یہ مشاہدہ ہے کہ پاکستان کو صحیح سیاسی ماڈل میسر نہیں آسکا۔ بار بار مارشل لاءکی وجہ سے کوئی ادارہ نہیں بن سکا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں سوسائٹی نہ ہو وہاں جنگل ہوتا ہے۔ صحیح پولیٹیکل سسٹم میں معیشت کی جڑیں ہوتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم گورے کی قید سے نکل کر کالے کی غلامی میں قید ہیں۔ ڈبل سٹینڈرڈ اور بے یقینی میں صحیح ڈیموکریسی کیسے آئے گی۔ لوگ دیانت داری سے کام کیسے کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے بااختیار سیاسی ادارے بنائے جائیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ جو مارشل لاءکی جھولی میں پروان چڑھتے ہیں وہ عوام کو ڈیلیور نہیں کرسکتے۔ ضلع کونسل ملتان کے چیئرمین دیوان محمد عباس بخاری نے کہا کہ اس وقت ملک کا مسئلہ ایجوکیشن اور ہیلتھ ہے۔ عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی بھی مسائل میں اضافے کا باعث ہے۔ این جی اوز کو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے آگے آنا چاہیے۔ ممبر ضلع کونسل سید مجاہد علی شاہ نے کہا کہ پیسٹی سائیڈز اس قدر ناقص اور ملاوٹ شدہ آرہی ہیں کہ اب کپاس کے کیڑوں کو ختم کرنے کیلئے 14سپرے کرنا پڑتے ہیں۔ پہلے ایک ہی سپرے سے تیلے‘ سفید مکھی اور دیگر کیڑے مکوڑے مرجاتے تھے۔ پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبل یجاوید اختر انصاری نے کہا کہ حکومت مخالفین کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا سلوک کررہی ہے۔ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز نہیں دیئے جارہے ہیں۔ ان کے علاقے میں لوگ سیوریج کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ تمام گلیاں جوہڑ کا نقشہ پیش کرتی ہیں جنازہ بھی نہیں لے کر جاسکتے۔ جماعت اسلامی کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ قرآن کے نظام کو نافذ کرنے سے ہمارے تمام مسائل حل ہوجائینگے۔ آئین پاکستان کا تقاضا ہے کہ ایماندار اور راست گو قیادت کو آگے لایا جائے۔ چور‘ ڈاکو قیادت سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ قرآن احکامات پر عمل کریں گے تو آسمان سے رزق برسے گا۔ یہ تمام نعمتیں رب نے پیدا کی ہیں۔ تحریک استحکام کی چیئرپرسن ساجدہ احمد لنگاہ نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپٹ سیاستدان ہیں۔ چند سیاسی گھرانوں نے ملک کو یرغمال بنارکھا ہے۔ اگر انہوں نے ڈلیور کیا ہوتا اور اداروں کے تقدس کا خیال رکھا جاتا تو نہ صرف ادارے مضبوط بلکہ عوام کو بھی ریلیف ملتا۔ اسی طرح اگر برابری کی سطح پر حقوق کی تقسیم کا کام کیا ہوتا تو آج ملک کی حالت تبدیل ہوگی مگر ان سیاستدانوں نے صرف اپنی جیبیں بھرنے کی خاطر ملک کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنا پڑا۔ اگر یہ سیاستدان ایمانداری سے کام کررہے ہوتے تو آج حالات مختلف ہوتے۔ ان کے جانے پر عوام مٹھائیاں تقسیم نہ کرتے۔ میرے نزدیک تمام تر مسائل کی جڑ سیاستدان ہیں یہ ٹھیک ہوجائیں اور ایماندار لوگ سامنے آجائیں تو ملک کے تمام مسائل حل ہوجائینگے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما ابوبکر اعوان نے کہا کہ کھیلوں کو فروغ دیا جائے اور کھیلوں کے میدانوں کو بھرا جائے تا کہ نوجوانوں کو غیرنصابی سرگرمیوں میں دلچسپی پیدا ہو۔ ان کے ذہن کھلیں اور پاکستان کا بہتر مستقبل ثابت ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مزید کھیلوں کے میدان بنائے جائیں اور ویران میدانوں کو آباد کیا جائے۔ سیاسی ورکر محمد اکرم کنہوں نے کہا کہ جلالپور پیروالہ کے علاقے میں زیرزمین پانی کی سطح بہت نیچے چلی گئی ہے اور اکثر جگہوں پر پانی نمکین ہوگیا ہے جس کی وجہ سے کھیتی باڑی بھی مشکل ہوگئی ہے ان کے علاقے میں آبپاشی کا انتظام کیا جائے۔ وفاق المدارس کے سیکرٹری جنرل قاری حنیف جالندھری نے کہا کہ پاکستان دراصل مسائلستان ہے اس کا ہر مسئلہ بڑا مسئلہ ہے۔ یہ ملک چاروں جانب سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل نہ کرنے اور من پسند معنی اخذ کرنے سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ آئین کی طرف توجہ کرنی چاہیے نئی جنریشن اس بات سے واقف نہیں ہے کہ یہ ریاست کیوں وجود میں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آئین سے دور چلے گئے ہیں۔ انہوں نے آئین کی بالادستی پر زور دیا۔ پاکستان سرائیکی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل محمد اکبر انصاری نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قیام پاکستان سے اب تک احساس کا فقدان ہے۔ دو قومی نظریے کی غلط تشریح کی جارہی ہے جس کی وجہ سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت پڑجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں رہنے والوں کی شناخت کی نفی کی جارہی ہے۔ حالانکہ قیام پاکستان کے وقت تمام قوموں کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ان کی شناخت کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ان کو برابری کے حقوق ملیں گے۔ اب پاکستانی ہونے کے باوجود انہیں شیلٹر نہیں مل رہے ہیں۔ سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین رانا فراز نون نے کہا کہ حکمرانوں نے اختیارات اور وسائل کو سنٹرلائز کردیا ہے جس کی وجہ سے احساس محرومی بڑھتا جارہا ہے۔ اختیارات کی ڈی سنٹرلائزیشن کی ضرورت ہے۔ ماضی میں ون یونٹ بناکر اختیارات کو سنٹرلائز کیا گیا تو پاکستان کا ایک حصہ الگ ہوگیا۔ ہم ایک بار پھر اسی روش پر گامزن ہیں۔ سرائیکیوں کی پرامن آواز کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علیحدہ صوبے کسی سرائیکی کا مسئلہ نہیں یہ سب کی آوز ہے۔ صوبہ کا مطالبہ پورا کیا جائے ہمیں انڈیا کا ایجنٹ یا غدار نہ کہا جائے۔ سرائیکی دانشور ظہور دھریجہ نے کہا کہ پنجاب کا صوبہ 62فیصد آبادی کا صوبہ ہے جبکہ 38فیصد آبادی پاکستان کے تین صوبوں میں رہتی ہے جس کی وجہ سے وفاق عدم توازن کا شکار ہے۔ اگر چ ھوٹے صوبے یہ مطالبہ کردیں کہ اسمبلی میں تمام صوبوں کے برابر ارکان ہونے چاہئیں تو پھر کیا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کے عوام کو دوسرے درجے کا شہری نہ سمجھا جائے۔ سرائیکی عوام کے حقوق کا تحفظ کیا جائے اور انہیں الگ صوبہ دیا جائے۔ ایس ڈی پی (شعبہ خوتین) کی مرکزی صدر عابدہ بخاری نے کہا کہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ میٹرو بس پراجیکٹ کا عملہ بھی اپر پنجاب سے بھیجا جارہا ہے اور مقامی لوگوں کو یکسر نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اس علاقے میں بیروزگاری‘ غربت بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے خودکشیوں کی شرح میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ تخت لاہور کے حکمران انہیں آگے بڑھنے نہیں دیتے۔ سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما مطلوب حسین بخاری نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ناانصافی اور احتساب سے انکار ہے۔ اگر ہم اپنا احتساب خود کریں اور اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو تمام مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے۔ پاکستان سرائیکی پارٹی کے ترجمانملک جاوید چنڑ نے کہا کہ میڈیسن کمپنیاں جعلی ادویات سپلائی کررہی ہیں جس کی وجہ سے مریض موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ جعلی اور مضرصحت ادویات سپلائی کرنے والوں کو قرارواقعی سزا دی جائے۔ سخت قوانین بنائے جائیں اور ان پر گرفت کی جائے۔ معروف سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی نے کہا کہ معاشرے میں احساس ہمدردی ہو تو مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سائنس کی ترقی میں بندہ پروری نہیں ہے۔ شاکر نے کہا کہ مسائل حل کرنے کے لئے بندہ پروری کا احساس ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے حکمرانوں میں اب شناخت اور احساس ہمدردی کا عنصر ہو تو دہشت گردی کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔ سرائیکی شاعر نذر فرید بودلہ نے کہا کہ موجودہ حکومت اور حکمرانوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ادب و ثقافت پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔تحریک صوبہ ملتان کے رہنما رانا تصویر احمد نے کہا کہ پاکستان میں اردو کا نفاذ کردیا جائے تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ قومی زبان ہونے کے باوجود ابھی تک اردو کو اس کا مقام نہیں مل سکا۔ ایوان تجارت و صنعت ملتان کے صدر خواجہ جلال الدین رومی نے کہا کہ جنوبی پنجاب کاٹن ایریا ہے۔ معیاری بیج دستیاب نہ ہونے کی بنا پر کپاس کی پیداوار میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ کسی بھی غیرملکی کمپنی کے ساتھ مل کر اچھا بیج تیار کیا جاسکتا ہے جس سے پیداوار میں اضافہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبے کے تحت جنوبی پنجاب میں ایک انڈسٹری زون بنایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار مل سکے۔ ہیلتھ انشورنس کے نظام کو پورے ملک میں متعارف کرایا جائے۔ تمام پاکستانی جن کی ماہانہ آمدنی 20ہزار روپے تک ہو انہیں اس سکیم میں شامل کیا جائے۔ انہوں نے ٹیکسٹائل کی برآمدات میں کمی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ معروف صنعت کار ذوالفقار علی انجم نے گندم‘ مکئی اور دیگر اجناس کی ویلیو ایڈیشن پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ا س طرح پاکستان قیمتی زرمبادلہ کماسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ آر ایل این جی کی درآمد اور بجلی کی بلاتعطل فراہمی سے صورتحال میں بہتری آءیہے۔ بیروزگاری کا مسئلہ حل ہوا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ سمال انڈسٹری پر خصوصی توجہ دی جائے۔ زراعت پر خصوصی توجہ دی جائے اور زرعی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ہائی بریڈ بیج کے استعمال کو فروغ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت 90فیصد خوردنی تیل باہر سے منگوایا جارہا ہے۔ اس میں پاکستان کو خودکفالت حاصل کرنی چاہیے۔ مکئی کا تیل نکالیں‘ دودھ کی پیداوار میں اضافہ کرنے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں اور دودھ کی بھی ویلیو ایڈیشن کرنی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کمایا جاسکے۔ تاجر رہنما خواجہ محمد شفیق نے کہا کہ 2017ءکو ہم نے تمام منافرتوں کو ختم کرکے ایک متحد قوم بننا ہے۔ آپس میں محبت اور پیار کو شیئر کرنا ہے۔ 20کروڑ عوام کو ایک مربوط شکل میں سامنے آنا ہے۔ اس وقت ہم ایک قوم نہیں بلکہ ہجوم بن چکے ہیں۔ مختلف مذہبی‘ نسلی‘ علاقائی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ کوئی منزل ہے نہ کوئی آگے بڑھنے کیلئے سمت کا تعین ہے۔ ہمیں برادری ازم سے بالاتر ہوکر ایک قوم کی شکل میں آگے بڑھنا ہے۔ تاجر رہنما خواجہ سلیمان صدیقی نے کہا کہ پچھلے ڈیڑم سال سے تاجروں پر ودہولڈنگ ٹیکس کی تلوار لٹکی ہوئی ہے جس کی وجہ سے بینکوں کے ذریعے ین دین نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ وہ ایک لاکھ روپے لینے جاتے ہیں تو 400 روپے کاٹ لئے جاتے ہیں۔ بینکوں کو بھی نقصان ہورہا ہے۔ انہوں نے یوسف رضا گیلانی کو مخاطب کرتے ہوئے کاہ کہ آپ نے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے ملتان کو بگ سٹی قرار دینے کا اعلان تو کرادیا مگر ابھی تک ملتان بگ سٹی نہیں بن سکا۔ کم از کم ملتان کو بگ سٹی قرار دیدیا جائے۔ میاں عبدالرﺅف قریشی نے کہا کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن کیلئے امیدوار کا گریجوایٹ ہونا ضرویر ہے تو ووٹ دینے والے کیلئے میٹرک پاس ہونا ضروی ہو۔ جاہل آدمی کو تو گھر والے بھی مشورے میں شامل نہیں کرتے تو اسے ایک پارلیمنٹیرین منتخب کرنے کا اختیار کیسے دیا جاسکتا ہے۔ معروف سماجی رہنما اظہر بلوچ نے کاہ کہ گزشتہ 55برسوں کے دوران کوئی مخلصانہ قیادت نہیں آئی اگرچہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم ہیلتھ اور ایجوکیشن پر کوئی کمپرومائز نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ فوڈ اتھارٹی کا اب معرض وجود میں آنا انتہائی بے حسی کی علامت ہے۔ ہم لوگ 67برسوں سے کیا کھاتے رہے ہیں‘ ادویات خالص ہیں نہ پیسٹی سائیڈز۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو ان مسائل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ کسان اتحاد کے چیئرمین خالد محمود کھوکھر نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر دالیں‘ سبزیاں بھارت سے آرہی ہیں کیونکہ پاکستان میں پیداواری لاگت بڑھ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ 69سال بعد زرعی پالیسی بن رہی ہے۔ ملک میں زرعی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔ ہمارے پاس 50لاکھ نئی گندم پڑی ہوئی ہے مگر کوئی لینے والا نہیں کہ بھارت اپنی گندم افغانستان‘ ایران اور دیگر ممالک کو بھجوارہا ہے کیونکہ وہاں پیداواری لاگت کم ہے۔ یوریا کی بوری 455روپے میں ملتی ہے جو پاکستان میں 1500روپے کی ہے۔ ہمارے دودھ سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کا پانی زیادہ مہنگا ہے۔ مینگو گروورز ایسوسی ایشن کے صدر زاہد حسین گردیزی نے کہا کہ ملک کو فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ درپیش ہے۔ حکمران زراعت پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ آبادی میں اضافہ ہورہا ہے۔ موسموں میں تبدیلی اور فضائی آلودگی کی وجہ سے پیداوار آدھی رہ گئی ہے مگر حکمران اس کے باوجود تھرمل پاور سٹیشنوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یورپ نے موسموں کی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے انتظامات کرلئے ہیں۔ ان کی پیداوار دگنی ہوجائے گی جبکہ پاکستان کی پیداوار آدھی رہ گئی ہے۔ زیرزمین پانی کی سطح اور نیچے چلی گئی ہے جوکہ خطرناک ہے۔ پرائیڈ آف پرفارمنس محترمہ ثریا ملتانیکر نے کہا کہ امیر اور غریب کیلئے ایک ہی سکول ہونا چاہیے۔ اس وقت تعلیم بہت مہنگی ہے۔ سکولوں کے ذریعے طبقات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ ہمارے زمانے میں یکساں تعلیمی نظام تھا اور سب کو ایک جیسی تعلیم دی جاتی تھی۔ آج کل کرپشن کا دور دورہ ہے۔ سینئر آرٹسٹ نعیم الحسن ببلو نے کہا کہ وہ اپنے لئے خود ایک مسئلہ ہیں۔ اگرچہ ان کی آواز قومی ترانے میں شامل ہے جس کا کریڈٹ جناب ضیاشاہد کو جاتا ہے مگر یونیورسٹی کی انتظامیہ نے میوزیکالوجی کا شعبہ بند کر دیا۔ گورنر پنجاب کے احکامات کے باوجود انہیں بحال نہیں کیا گیا بلکہ ان کی جگہ ایک 70سالہ شخص کو نوکری پر بحال کر دیا گیا۔ سینئر آرٹسٹ ریڈیو پاکستان مسرت جہاں نے کہا کہ ان سمیت آرٹسوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ہم بیمار ہو جائیں تو علاج نہیں کروا سکتے۔ ویسے ہمیں قوم کا سرمایہ کہا جاتا ہے۔ مر جائیں تو ہماری یاد میں ایک شام منعقد کی جاتی ہے۔ سینئر پروڈیوسر ریڈیو پاکستان نسرین فرید نے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ نشہ ہے۔ گٹکا سپاری اور پان کے نام پر نوجوانوں میں نشے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ہمارے بچے تباہ ہو رہے ہیں تعلیمی ادارو کے قریب دکانوں میں نشہ فروخت ہو رہا ہے مگر کوئی ادارہ انہیں روکنے والا نہیں۔ دانشور اور آرٹسٹ قیصر نقوی نے کہا کہ منتخب لوگوں میں کوئی مسئلہ ہے یا ان کو منتخب کرنے والوں میں کوئی مسئلہ ہے اسی وجہ سے معاملات الجھے ہوئے ہیں۔ معروف کالم نگار اور دانشور سجاد جہانیہ نے کہا کہ حکومت نے 20ہسپتالوں کے قیام کا اعلان کر دیا ہے مگر جعلی ادویات، مضر صحت خوراک اور ملاوٹ شدہ دودھ اور دیگر اشیائے خوردونوش کے تدارک کیلئے بھی کوشش کرنی چاہیے اور میڈیا کو بھی انسانیت سے ہمدردی کرتے ہوئے ملاوٹ کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی۔ منصور بلوچ کالم نگار نے کہا کہ کرپٹ سیاستدان کسی پڑھے لکھے نوجوان کو سامنے نہیں آنے دیتے۔ جب سیاست دان ڈیلیور نہیں کرتے تو مارشل لاءلگتا ہے 70 سال ہو چکے ہیں نظام بدلا ہے نہ چہرے بدلے ہیں۔ چند خاندانوں کی سیاست میں اجارہ داری ہے۔ بیرونی قرضے لیکر قوم کو مقروض کرتے جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی زاہدہ خان نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں قانون بنانے والے اور اس پر عملدرآمد کرانے والے دونوں سنجیدہ نہیں ہیں۔ گزشتہ سال کے دوران 14ہزار881 خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا مگر کسی کو سزا ملی نہ تشدد کا خاتمہ ہوا۔ میروالہ کی مختار مائی نے کہا کہ قوانین موجود ہیں مگر اس کے باوجود انسان کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔ خواتین پر تشدد اور ان کے ساتھ زیادتی کا مسئلہ کم ہوا ہے نہ خواتین کو انصاف ملتا ہے۔ انہوں نے اپنے معاملے کو پوری دنیا میں روشناس کرانے پر جناب ضیاشاہد کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جناب ضیاشاہد ایک بار ”خبریں“ ٹیم اور دوسری بار وزیر قانون کے ہمراہ ان کے گھر میروالہ آئے تھے۔ معروف سماجی رہنما سید علی رضا نے کہا کہ سرکاری میڈیکل کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والوں سے بانڈ لکھوانا چاہیے کہ وہ مریضوں کے علاج سے انکار نہیں کریں گے اگر وہ ہڑتال کریں گے تو انہیں تمام اخراجات ادا کرنا پڑیں گے جو حکومت نے ان کی تعلیم پر کئے۔ شیخ نصراللہ نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم اور صحت ہے۔ غریبوں کو دونوں میسر نہیں۔ ملتان آرٹس کونسل کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر فواد رفیق نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ناقص منصوبہ بندی ہے جس کی وجہ سے تمام مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ این جی او کی شائستہ بخاری نے کہا کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے اور اس کی وجہ سے انصاف بھی نہیں ملتا۔ بہاءالدین زکریا ملتان شعبہ علوم اسلامیہ کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالقدوس صہیب نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ تعلیمی نظام کے نصاب میں موجود فکری خلاءکو ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں 4سے زائد مختلف تعلیمی نظام چل رہے ہیں جس سے ملک میں فکری خلاءبڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں تعلیم کیلئے 5 فیصد مختص کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کا نظام بہتر کرکے ہم اپنے بنیادی مسائل حل کر سکتے ہیں۔ خواجہ نور مصطفی ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا ایشو بےروزگاری ہے۔ مڈل اور ہائی سکولوں کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس بھی بنائے جائیں تاکہ ہنر مند بچے معاشرے پر بوجھ نہ بنیں اور ان کے لئے روزگار کا مسئلہ پیدا نہ ہو۔ محمود فوزی ہاشمی (آرکٹیکٹ) نے کہا کہ عام آدمی کی فلاح وبہبود کیلئے کام کرنا چاہیے۔ نادرا کے نظام سے استفادہ کرتے ہوئے لوگوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرکے ان کی بہتری کیلئے کام کرنا چاہیے۔ پریس کلب ملتان کے صدر شکیل انجم نے کہا کہ حصول انصاف ملک کا سب سے بڑا مسئل ہے اگر ہمارا عدالتی نظام درست ہو جائے تو ہمارے بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس وقت جو عدالتی نظام ہے ماتحت عدالتوں سے لیکر اعلیٰ عدالتوں تک لاکھوں کی تعداد میں لوگ آج بھی انصاف کے منتظر ہیں بہت سے مسائل اور جرائم لوگوں کو انصاف نہ ملنے کی وجہ سے جنم لے رہے ہیں۔
مکالمہ
