ملتان (رپورٹنگ ٹیم) ”خبریں“ گروپ آف نیوز پیپرز کے چیف ایڈیٹر اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے صدر جناب ضیاشاہد نے کہا ہے کہ وفاق پاکستان کی مضبوطی کیلئے ضروری ہے کہ آئین کے مطابق نئے صوبے تشکیل دیئے جائیں۔ آئین میں نئے صوبوں کی تشکیل کیلئے واضح طریقہ کار موجود ہے۔ نئے صوبے نعرے بازی یا جذباتی تقریروں سے نہیں بلکہ قانون اور آئین کے مطابق تشکیل پاتے ہیں۔ سرائیکی، ہزارہ، پوٹھوہار سمیت نئے صوبوں کے قیام سے وفاق کی اکائیوں کا عدم توازن ختم ہوگا۔ گڈگورننس ہوگی اور اس سے ہمارا نظام بھی بدلے گا۔ ملک ترقی کی طرف گامزن ہوگا۔ یہ باتیں انہوں نے گزشتہ روز ”خبریں“ کی 24ویں سالگرہ کے سلسلے میں ملتان میں ”تقریب ملاقات“ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ انتظامی یونٹ جتنے چھوٹے ہوں گے، صوبوں کے مسائل حل ہونے کی طرف بڑھیں گے۔ سرائیکی کاز کے نام پر کام کرنے والی تمام تنظیمیں اور جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کے بجائے مل جل کر قانونی طریقے سے صوبے کے حصول کیلئے کوششیں کریں۔ نئے صوبے صرف پنجاب میں ہی نہیں سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے عوام کے مطالبے پر بھی بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے لوگوں کے مسائل حل ہوں گے اور پاکستان ترقی کی طرف گامزن ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مل کر پاکستان کو قائداعظم محمد علی جناحؒ کے وژن کے مطابق بنانا ہوگا جس میں عوام کو چھت، مظلوم کو انصاف اور غریب کو روٹی مل سکے۔ جناب ضیاشاہد نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر نئے صوبے کے حق میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک سرائیکی پارٹی دوسری سرائیکی پارٹی کے خلاف خطوط لکھنے اور الزامات کی بوچھاڑ کرنے کے بجائے سنجیدگی سے مل کر کوششیں کریں۔ انہوں نے کہا کہ 18 سے زائد سرائیکی تنظیمیں اپنے لئے ایک الگ صوبے کا مطالبہ بھی کرتی ہیں اور ایک دوسرے کی مخالفت بھی کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ 51 سال سے اخبار نویس ہیں اور اپنے تجربات کی روشنی میں انہوں نے کہا کہ صوبہ بن جانے کے بعد بھی کئی مسائل موجود رہیں گے جنہیں حل کرنے کیلئے کئی مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک بجٹ کو آبادی کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا جائے گا داجل اور جام پور پسماندہ ہی رہیں گے۔ خان پور، داجل اور جام پور کی حالت بدلنے کیلئے فنڈز کی منصفانہ تقسیم کرنا ہوگی۔ جناب ضیاشاہد نے کہا کہ سرائیکی جماعتیں الجھنے سے گریز کریں اور متحد رہ کر پاکستان کی مضبوطی میں کردار ادا کریں۔ تاجر رہنما خواجہ شفیق کی قوم کے اتحاد کے حوالے سے گفتگو پر جناب ضیا شاہد نے کہا کہ ابن انشا نے اپنی اردو کی آخری کتاب میں لکھا ہے کہ انگریز برطانیہ، امریکی، امریکہ اور ایران میں ایرانی رہتے ہیں مگر پاکستان میں پنجابی، سندھی، پشتونی اور بلوچ رہتے ہیں اور پاکستانی ان چاروں صوبوں میں نہیں رہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے دہرے معیار کو بھی ختم کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ نئے صوبوں کے قیام کے سلسلے میں وہ ضیاءالحق سے بھی ملے تھے اور ان کے فوجی رفقاءنے بھی اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ ڈویژن سطح پر صوبے ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ فوجی حکمران ڈویژن لیول پر انتظامی یونٹ بنانے پر رضامند رہے ہیں لیکن عملی طور پر اقدامات نہ کئے جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ روزنامہ ”خبریں“ کی پالیسی بھی واضح ہے کہ انتظامی یونٹ جتنے زیادہ ہوں گے مسائل کم ہوں گے۔ جناب ضیاشاہد نے کہا کہ انہوں نے پنجاب کی تقسیم اور نئے صوبوں کی تشکیل کیلئے پاکستان کے 3 سربراہوں سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے گھر میں یقین دہانی کرائی تھی کہ سرائیکی صوبے کے قیام کیلئے ابتدا کردی ہے پیپلزپارٹی بعد میں سرائیکی صوبہ کیوں نہ بنا سکی؟۔ انہوں نے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف سے بھی انہوں نے نئے صوبوں کے قیام کیلئے ملاقات کی انہوں نے یقین دلایا کہ اس پر کام کیا جائے گا اور انہوں نے اس سلسلے میں مسلم لیگ(ق) کے صدر چودھری شجاعت کو فون بھی کیا اور مجھے ان سے ملنے کیلئے کہا۔ جناب ضیاشاہد نے کہا کہ جب وہ اس سلسلے میں چودھری شجاعت سے ملنے گئے تو انہوں نے کہا کہ ”کی شرارتاں کرناں پھرنا ایں“ انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کی تقسیم کرنے والوں کو ہماری لاشوں سے گزرنا ہوگا اور اب اس کے بعد اس موضوع پر بات نہ کرنا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویزالٰہی نے ان سے کہا کہ آپ اسی صوبے کے حصے کرانا چاہتے ہیں جو میرے پاس ہے۔ پرویزالٰہی نے پوچھا کہ آپ ہمارے دوست ہیں یا دشمن، جناب ضیاشاہد نے کہا کہ وہی پرویز الٰہی گزشتہ سال ملتان میں پریس کانفرنس کر رہے تھے کہ پنجاب کی تقسیم کرکے نئے صوبے بنائے جائیں۔ خواجہ نور مصطفی ایڈووکیٹ کی طرف سے تعلیمی نظام کی بہتری اور پروفیشنل بنانے کی تجویز پر جناب ضیاشاہد نے کہا کہ واقعی ہمیں مسائل کے حل کیلئے اپنے تعلیمی نظام پر توجہ دینا ہوگی اور تعلیمی نصاب کو دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح یورپ سمیت ترقی یافتہ ممالک میں 16 سال کا طالب علم دوران تعلیم ہی روزگار کمانے کے قابل ہو جاتا ہے ہمیں اپنا نظام تعلیم بھی اُسی طرح ڈھالنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بلدیات کا نیا نظام معرض وجود میں آ چکا ہے جس میں عوام کے منتخب کردہ نمائندے شامل ہیں۔ گلی محلے کی سطح پر جو بھی بڑا مسئلہ ہوگا وہ بلدیاتی نمائندے صحیح طریقے سے حل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلدیات کے نئے نظام میں شامل ہونے والے نمائندوں کو عوام کی حقیقی خدمت کرنے کا بھرپور موقع ملنا چاہیے۔ ممبر قومی اسمبلی سید جاوید علی شاہ کی طرف سے اداروں کی مضبوطی کے حوالے سے تجویز کی تائید کرتے ہوئے جناب ضیاشاہد نے کہا کہ ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے پنجاب میں ہماری زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی اتنی قدر ہے کہ وہ لوگ اس کی پوجا کرتے ہیں۔ بھارت میں اس وقت جتنی بھی زرعی ترقی ہوئی ہے اس کے پس منظر میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کا عمل دخل ہے۔ کیونکہ برصغیر کی تقسیم کے بعد یہاں سے جانے والوں میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے فارغ التحصیل بھی تھے جنہوں نے بھارت میں جا کر زرعی شعبے کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھی جانے والی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد ہمارے پاس ہے اور ہماری ہی زراعت مسائل سے دوچار ہے۔ چیف ایڈیٹر جناب ضیاشاہد نے مختلف اوقات میں بھارت کے دوروں کے حوالے سے وہاں زراعت کی ترقی میں فیصل آباد یونیورسٹی کا کردار سامنے پایا اور انہیں اس بارے بریفنگ بھی دی گئی۔ جناب ضیاشاہد نے کہا کہ پانامہ لیکس، سرائیکی صوبہ اور مردم شماری کا نہ ہونا سمیت اہم مسائل ہیں لیکن ان سب سے بڑا مسئلہ صحت اور تعلیم کا ہے۔ ہمارے ہاں ملاوٹ کی روک تھام کرنے اور اس میں ملوث مافیا کے خلاف کارروائی کیلئے ادارے ہی نہیں ہیں ہمیں مضر صحت کیمیکل شامل کرکے سفید محلول کے نام پر دودھ فروخت کیا جاتا ہے جو خطرناک زہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملاوٹ زدہ زہریلی اشیاءکھانے سے پھیلنے والی بیماریاں بڑھ رہی ہیں اور ان کے علاج کیلئے ہسپتال بھی نہیں ہے۔ شوکت خانم ہسپتال لاہور میں کینسر کے مریض کو کینسر تشخیص ہو جانے کے 3ماہ بعد کا ٹائم دیا جا رہا ہے۔ جناب ضیاشاہد نے کہا کہ ہم نے قیام پاکستان سے لے کر اب تک اصل مسائل اور ان کے حل پر توجہ ہی نہیں دی کہ ہمیں کون کیا کھلا رہا ہے۔ خوراک کو چیک کرنے کیلئے پنجاب فوڈ اتھارٹی کے نام پر ایک محکمہ بھی حال ہی میں بنا ہے۔ دوسرے صوبوں میں تو یہ بھی نہیں ہے۔ کے پی کے میں بھی 2ماہ پہلے اس طرح کا محکمہ بن سکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بڑے بڑے میگاپراجیکٹس، اورنج ٹرین کے بجائے صحت اور تعلیم پر توجہ دینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ آج کی اس تقریب کا سب سے بڑا مقصد بھی یہی ہے کہ اس تقریب میں شریک تمام شرکاءبتائیں کہ ان کے ذہن میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ جناب ضیاشاہد نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نائن الیون کے واقعے کے بعد دہشت گردی کے خطرات نے ہماری سماجی زندگی کو مکمل طور پر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے شرکاءنے صحت اور تعلیم پر توجہ دینے پر زور دیا۔ اس پر چیف ایڈیٹر جناب ضیاشاہد نے کہا کہ عوام کو علاج معالجے کی فراہمی کیلئے صحت کے ادارے بنانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف شوکت خانم ہسپتال لاہور اور ابرارالحق کا ”سہارا“ ہسپتال بڑھتسی ہوئی خطرناک بیماریوں کے علاج کیلئے کافی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ شوکت خانم ہسپتال لاہور کے قیام کیلئے چندہ مہم میں عمران خان کے ساتھ رہے ہیں اور انہوں نے خود اس سلسلے میں چندہ اکٹھا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابرارالحق کے سہارا ہسپتال کیلئے روزنامہ ”خبریں“ نے 6کروڑ 70 لاکھ روپے کے اشتہار مفت شائع کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوامی فلاح وبہبود کیلئے جس نے بھی کام کیا ہے روزنامہ ”خبریں“ نے اس کا بھرپور ساتھ دیا ہے اور مستقبل میں بھی ساتھ دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے ساتھ جبر اور ظلم کے خلاف بھی روزنامہ ”خبریں“ ہر اول دستے کے طور پر سامنے رہا ہے۔ مختار مائی کا مسئلہ سب سے پہلے ”خبریں“ نے شائع کیا۔ وہ سب سے پہلے میروالا پہنچے اور بعد میں اس وقت کے صوبائی وزیر قانون کو بھی ساتھ لے گئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک خاتون یا لڑکی سے زیادتی کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ معاشرے میں پائی جانے والی مجموعی زیادتی کی نشاندہی کرتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ روزنامہ ”خبریں“ نے مظلوم کو انصاف دینے کی ہر بات پر زور دیا ہے۔ جناب ضیاشاہد نے کہا کہ ہم بھٹو کے دیوانے بھی تھے اور ان کے خلاف بھی تھے۔ بھٹو نے پہلی بار عام آدمی کو حقوق دینے کی بات کی تو ہم نے بھٹو کا بھرپور ساتھ دیا۔ گلوکار نعیم الحسن ببلو نے کہا کہ ہماری ہر حکومت نے ثقافت اور فن کو نظرانداز کیا ہے اور انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قومی ترانے میں میرا نام ہے اور میں 25سال سے زائد عرصہ گلوکاری کرنے کے باوجود آج بے روزگار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قومی ترانے میں بھی میری آواز جناب ضیاشاہد کی کاوشوں سے شامل کی گئی ہے۔ نعیم الحسن کی بے بسی پر جناب ضیاشاہد نے کہا کہ ثقافت اور ثقافتی اقدار کو پامال کرنے سے بھی معاشرتی بگاڑ بڑھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زندہ قومیں ثقافت کے بغیر کبھی زندہ نہیں رہ سکتیں۔ ہماری کسی بھی حکومت نے ملک میں ثقافتی پالیسی کی طرف توجہ نہیں دی جبکہ زندہ قومیں ثقافت کے بغیر کبھی زندہ نہیں رہ سکتیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے بڑھتے واقعات اور خدشات کی وجہ سے اب ثقافتی پروگرام کا انعقاد بھی ممکن نہیں رہا۔ فن اور ہمارے فن کار اس سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ”خبریں“ گروپ آف نیوز پیپرز کے چینل۵ پر 8سال سے پرانے گیت، پرانی غزلوں کے نام سے ایک پروگرام چلا رہے ہیں جس کا مقصد بھی کلاسیکل میوزک کو زندہ رکھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ برصغیر کے دور میں اس وقت کی حکومت نے میوزک ڈائریکٹرز کو میوزک یونیورسٹیوں کا وائس چانسلر بنایا ہوا تھا جبکہ ہماری حکومتوں میں ثقافت کی وزارت کو دوسری وزارتوں کے ساتھ الحاق کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملتان کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں ثریا ملتانیکر اور نعیم الحسن ببلو جیسی شخصیت موجود ہیں۔ ثریا ملتانیکر ایک یونیورسٹی کا درجہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ایک کلچرل پالیسی سامنے آئے۔ فنکاروں، گلوکاروں کے انفرادی مسائل سامنے آئیں۔ جناب ضیاشاہد نے کہا کہ وزارت ثقافت کی طرف سے فنکاروں، گلوکاروں کی فلاح وبہبود کی خاطر مختص کئے گئے فنڈز ہمیشہ لیپس ہو جاتے ہیں اور ان کا کہیں مصرف سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں بھی فنکار روتے پیٹتے نظر آتے ہیں۔ یہی صورتحال بلوچستان کی ہے۔ جناب ضیاشاہد نے معروف گلوکار نعیم الحسن ببلو کی طرف سے بتائے گئے مسائل پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور انہیں یقین دلایا کہ ان کے لئے بھرپور آواز اٹھائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ فنکار ہمارا سرمایہ ہیں ان کی قدر کرنی چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ ثقافت کی ایک الگ وزارت قائم کرے۔ ریڈیو، ٹی وی کی معروف گلوکارہ مسرت جہاں نے بھی اپنے مسائل اور فنکاروں کی مشکلات بارے گفتگو کی۔ جناب ضیاشاہد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سلسلے میں اطلاعات و نشریات اور ثقافت کی وزیر مملکت مریم اورنگزیب سے بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ روزنامہ ”خبریں“ فنکاروں کے مسائل اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
ضیاشاہد
