اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران 5 رکنی لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف کھوسہ نے عوامی نمائندوں کی اہلیت اور نااہلی سے متعلق آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے اطلاق پر گذشتہ روز کی آبزرویشن واپس لے لی اور ندامت کا اظہار کیا۔جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ انھیں آرٹیکل 62 اور 63 سے متعلق آبزویشن نہیں دینی چاہیے تھی، انہیں اپنے الفاظ پر ندامت ہے اور وہ اپنے الفاظ واپس لیتے ہیں۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ تقریر کی بنیاد پر کسی کو نااہل قرار دینے کی مثال قائم کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ، تقریر پر فوجداری کیس کیسے بن سکتا ہے؟ رقم منتقلی میاں شریف نے کی تو حساب بچوں سے کیسے مانگ سکتے ہیں ؟ عدالت نے سوال کیا کیا تحریک انصاف پاناما کے معاملے سے پیچھے ہٹ رہی ہے ؟؟؟جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے پاناما کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز افضل نے سوال اٹھایا کہ کیا تقریر پر کسی کو نااہل کرسکتے ہیں ؟ تقریر کی بنیاد پر کسی کو نااہل قرار دینے کی مثال قائم کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ، وزیر اعظم کی تقریر پر فوجداری کیس کیسے بن سکتا ہے ، ہم وزیر اعظم کی پاناما پیپرز میں ذمہ داری کا جائزہ لے رہے ہیں۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم کی قومی اسمبلی میں تقریر پر فیصلہ سنا دیں۔ فیصلہ دینے کے لیے دستاویزات کا جائزہ لینا ضروری ہے ، کیا قانونی معیار پر پورا نہ اترنے والی دستاویزات پر فیصلے دے سکتے ہیں ، آپ کہتے ہیں مریم نواز شریف بینی فشل ہیں وہ کہتی ہیں کہ وہ ٹرسٹی ہیں۔ وزیر اعظم نے اگر کچھ غلط کیا اس کا فیصلہ شواہد کا جائزہ لے کر کریں گے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پہلی تقریر میں وزیر اعظم نے جدہ فیکٹری کے لیے سرمایہ سعودی بینک سے لینے کی بات کی ، دوسری تقریر میں وزیر اعظم نے سعودی بینک اور دبئی سٹیل میں سرمایہ کاری کا ذکر کیا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ شریف خاندان کا سارا کاروبار میاں شریف کے ہاتھوں میں تھا ، سوال یہ ہے کہ رقم کی منتقلی پر میاں شریف کے بچوں کو قابل احتساب کیسے ٹھہرایا جاسکتا ہے ، کچھ غلط ہوا تو بچوں سے حساب کیسے مانگا جاسکتا ہے۔ نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ مریم نواز شریف لندن میں خریدی گئی جائیداد کی بینیفشری ہیں تاہم عدالت کا کہنا تھا کہ یہ بات آپ پہلے بھی کئی مرتبہ کرچکے ہیں لیکن ثبوت بھی تو لائیں۔بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ساری جائیداد قطری باشندے کی نکلی تو پھر درخواست گزار کا سارا معاملہ ختم ہو جائے گا۔پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ بےشک فیصلہ دیتے وقت پاناما لیکس کے معاملے کو زیر غور نہ لائے اور صرف وزیر اعظم کی تقریروں کو سامنے رکھتے ہوئے ا±ن کی نااہلی سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ دے۔اس سے پہلے ان درخواستوں کی سماعت کے دوران جب پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نے وزیر اعظم کے خلاف حدیبہ پیپرز ملز کے مقدمے کی دوبارہ تحقیقات کرنے کے بارے میں قومی احتساب بیورو کو احکامات جاری کرنے کے بارے میں کہا کہ تو بینچ میں موجود جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ عدالت مفادِ عامہ کے آرٹیکل 184/3 کے دائرہ کار کو مزید وسیع نہیں کر سکتے، ورنہ ا±سے سمیٹنا بہت مشکل ہو جا? گا۔ا±نھوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ماضی میں بھی اس قانون کو وسیع کیا جاتا رہا ہے اور اس حوالے سے سپریم کورٹ نے مختلف فیصلے بھی صادر کیے لیکن ا±ن کے نتائج سب کے سامنے ہیں، کسی بھی فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوا۔بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت نہ کوئی ٹرائیل کورٹ ہے اور نہ ہی کوئی تحقیقاتی ادارہ۔عدالت نے نعیم بخاری کو ایک بار پھر یاد دہانی کرائی کہ وہ جب تک عدالت کی طرف سے پوچھے گئے سوالوں پر بینچ کو مطمئن نہیں کریں گے وہ روسٹرم چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔بظاہر تو پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کے دلائل ختم ہو گئے ہیں لیکن وقفے کے بعد وہ عدالت کے مزید آئنی اور قانونی سوالات کے جواب دیں گے۔خیال رہے کہ اس سے قبل گذشتہ روز پاناما لیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اپنے ریمارکس میں پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کو کیس لندن فلیٹس سے حدیبیہ پیپر ملز کی جانب لے جانے پر تنبیہ کی تھی۔پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے اسحاق ڈار کا مئی 2000 میں دیا گیا منی لانڈرنگ سے متعلق اعترافی بیان پڑھ کر سنایا اور کہا کہ 1999 میں مریم اور حسین نواز حدیبیہ مل میں ڈائریکٹر تھے۔بینچ نے اپنے ریمارکس میں نعیم بخاری کو کہا تھا کہ حدیبیہ پیپر ملز کے متعلق ریفرینس نیب کے پاس دائر کیے جائیں۔نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ مریم نواز شریف اپنے والد کے زیر کفالت ہیں اور اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بہت مواد موجود ہے۔