لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر، سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ عمران خان پانامہ کیس سے بذریعہ عدالت نوازشریف کو ان کے عہدہ سے الگ کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی عدالت کے حکم پر اپنے عہدہ سے الگ ہوئے تھے۔ عوام کا ایک ذہن بن چکا ہے کہ فیصلہ کسی لاہور کے فرد کے خلاف ہو تو اس کے حق میں جبکہ سندھ کا ہو تو اس کے خلاف آتا ہے۔ سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ اس دفعہ ایسا فیصلہ دیں کہ دوبارہ لوگوں کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ عدلیہ نے تو پنجابیوں کی حمایت کرنا ہی تھی۔ چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے کچھ دوستوں کا خیال ہے ک ہ 4 کے مقابلے میں 3 ججز نے ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا سنا دی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ چوتھا جج جسٹس نسیم حسن شاہ، جس نے پنجاب سے تعلق ہونے کے باوجود مرنے سے پہلے صفائی دیدی کہ مجھ سے غلطی ہو گئی، دباﺅ میں آ کر فیصلہ دے دیا۔ اگر وہ دباﺅ میں نہ آتے تو پھانسی نہ ہوتی۔ دوسری جانب غلام اسحاق خان نے جب بے نظیر کو کرپشن کے الزام میں برطرف کیا تو عدالتی فیصلہ محترمہ کے خلاف آیا تھا جس کے نتیجے میں نئے انتخابات ہوئے اور نئی حکومت بنی۔ جب نواز شریف کا کیس عدالت میں آیا اور فیصلہ طلب کیا گیا تو نگران وزیراعظم بلخ شیر مزاری گھر چلے گئے اور اسی عدالت نے نوازشریف کو بحال کر دیا۔ اس لئے عوام کا ذہن بن چکا ہے کہ فیصلہ لاہور کی کسی شخصیت پر ہو تو اس کے حق میں جبکہ دوسروں کے خلاف آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رانا ثناءاللہ نے کہا تھا کہ اچھا ہوا فوجی عدالتیں ختم ہو گئیں یہ کام وہ خود کر سکتے ہیں، اگلے ہی روز وزیر مملکت مریم اورنگزیب کہتی ہیں کہ رانا ثناءکو کوئی غلط فہمی ہوئی تھی۔ اب حکومت اگر رانا ثناءکے بیان پر زندہ باد کہتی ہے تو پھر امریکہ سمیت دیگر ممالک کی طرح نقابپوش جج لانے ہوں گے، وکلاءاور گواہان کا زندگی بھر کے لئے تحفظ کرنا ہو گا اور خفیہ طور پر کارروائی چلانا ہو گی۔ سول حکومت نے فوجی عدالتوں کا ایک شارٹ کٹ نکالا تھا۔ ملک اسحاق جن کو دہشت گرد تنظیم کا سربراہ کہا جاتا ہے، انسداد دہشتگردی عدالتت کے جج نے بتایا کہ وہ 11 قتل کے الزام میں یہ مقدمہ آگے چلانے کی حالت میں نہیں تھے اور اس لئے ہر بار اگلی تاریخ دے دیتا تھا کہ مجھے پیغام ملا تھا کہ حکومت نے 8 آدمی آپ کی حفاظت کے لئے دیئے ہیں لیکن جب آپ کا کنٹریکٹ ختم ہو جائے گا تو آپ نے یہیں رہنا ہے۔ معلوم ہے کہ آپ کے بچے کون سے سکول میں جاتے ہیں۔ صرف ایک ٹیلی فون پر بتا سکتے ہیں کہ آپ کا بیٹا اس وقت کون سے سیکٹر میں کہاں سے گزر رہا ہے۔ ان کے بھی ایم کیو ایم کی طرح سیکٹر تھے۔ حکومت کو چاہئے تھا کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے دوران کوئی دوسرا انتظام کر لیتے، جوں، وکلا، اور گواہان کی حفاظت کا کوئی طریقہ کار وضع کرتے۔ فوجی نظام، سول نظام کا کام نہ کرنے کی وجہ سے آیا تھا۔ سول حکومت کو چاہئے کہ متبادل سیاسی انتظام جلد سے جلد مکمل کرے۔ جنرل کیانی کے دور میں سوات آپریشن کیا گیا، اب تک وہاں فوج موجود ہے۔ وزیرستان آپریشن میں آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ وہ اتنی مدت میں آپریشن مکمل کر لیں گے لیکن سوات سے جلد از جلد فارغ کر دیا جائے اور سول انتظامیہ اپنی جگہ سنبھالے۔ سول حکومت سے سوات کا نظام سنبھالا، نہ ہی وزیرستان کا۔ کور کمانڈر کراچی نے کھانے پر بلایا تھا تو ان سے بھی یہی سوال کیا تھا اور خبر دی تھی کہ سول حکومت وہاں کا انتظام دوبارہ لینے کو تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ معلومات کے مطابق فوجی عدالتوں میں بھی وہی کیسز گئے تھے جو فائنل ہو چکے تھے۔ ڈی جی رینجرز سندھ کی جانب سے سندھ حکومت کو جو کیسز بھیجے گئے ان کی فائلیں کہیں درمیان میں ہی معلق ہیں، وہ وفاقی وزارت داخلہ جائیں گی، پھر نہ جانے کب واپس آئیں گی اور کب فیصلہ ہو گا۔ سول حکومت کو متبادل انتظام جلد مکمل کر لینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ راحیل شریف کے مداحوں میں ہوں، انہوں نے بہت اچھے کام کئے لیکن ہمیں اور عوام کو جو ان سے توقعات وابستہ تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ راحیل شریف نے طاہر القادری کو یہ کیوں کہا کہ آج شام تک آپ کے خلاف ایف آئی آر درج ہو جائے گی، پھر ہونٹ سی لئے، پہلے فوج سے پھر ملک سے رخصت ہو گئے۔ عمران خان نے دھرنے میں جو انگلی اٹھائی تھی، طاہر القادری کہتے تھے کہ آئندہ 2 گھنٹے میں یہ ہو جائے گا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے دفتر پر حملہ کیوں کروایا۔ یہ ساری باتیں ان کے بھید کھولنے والی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے سب سے پہلے خبر دی تھی کہ جنرل راحیل شریف سعودی عرب چلے جائیں گے اور وہ چلے گئے۔ راحیل شریف کے سعودی عرب جانے کا ڈرامہ 7 ماہ جاری رہا۔ سب معلوم ہے کہ وزیراعلیٰ شہبازشریف نے اکیلے اور چودھری نثار کے ہمراہ ان سے کتنی ملاقاتیں کیں، کتنی دفعہ کہا کہ اتنے دن دیتا ہوں پھر مہینے دے دیئے۔ سعودی ولی عہد نے راحیل شریف سے تب ملاقات کی اور کب پیشکش کی اس سارے ڈرامے پر کتاب لکھ سکتا ہوں لیکن پاکستان میں نہیں واشنگٹن جا کر اور پھر وہیں رہوں گا واپس آنے کے قابل نہیں رہوں گا اس وجہ سے اس موضوع پر بات نہیں کرتا۔ ماہر قانون دن ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کا مقصد تھا کہ حکومت اپنے معاملات درست کر لے لیکن وہ اس میں ناکام رہی۔ آئین کے لحاظ سے فوجی عدالتوں کا قیام درست نہیں لیکن اگر قومی سلامتی کا مسئلہ ہو تو آئین میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔ ترمیم کر کے ہی 2 سال کے لئے فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں۔ حکومت اس معاملے پر پہلے بھی صفر پر تھی اور آجج بھی صفر پر کھڑی ہے۔ فوجی عدالتوں کا مقصد تھا کہ اس دوران حکومت ججز، وکلائ، اور گواہان کی حفاظت کے لئے اقدامات کرے۔ کیونکہ ججز، گواہان دباﺅ میں آ کر بیان اتنا کمزور کر دیتے تھے کہ ملزم بری ہو جاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے سزا دینے کی وجہ سے دہشتگردوں میں احساس پیدا ہوا ہے کہ اگر انہوہں نے کچھ غلط کیا تو سزا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔