تازہ تر ین

اہلِ کشمیر کی صحرانوردی

محمد صغیر قمر
جب کوئی قوم خود اپنی بقاکی جنگ سلیقے سے نہ لڑ سکے،اپنی آزادی کی کو یقینی بنانے کی جدوجہد کے لیے د وسروں سے امیدیں وابستہ رکھے تومنزلیں یوں ہی کھو جاتی ہیں۔جیسے بنواسرائیل چالیس سال تک جہاد سے انکار کے بعد صحرانوردری کی سزا بھگتتے رہے۔
جموں کشمیر پون صدی سے ایک غیراعلانیہ جنگ کی لپیٹ میں ہے۔جس میں لاکھوں انسان موت کی نیند سلا دیے گئے۔لاکھوں ہجرت پر مجبور کیے گئے۔ہزاروں بندی خانوں میں ڈالے گئے۔جائیدادیں تباہ اور گھر مسمار کر دیے گئے۔ظلم کی رات طویل ہوتی گئی اوراہل کشمیر ظلم کی متعین تاریخوں کے ”یوم“منانے پر راضی کر لیے گئے۔ تین نسلیں اپنی آزادی کو یقینی نہ بنا سکیں۔یہ مانا کہ کشمیر کے خمیر میں رزم آرائی کم رہی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ تیس برسوں میں کشمیریوں نے جبر کے سامنے سینہ سپر ہو کربھارت کے چھکے چھڑادیئے۔ اس جدوجہد کو ترک نہیں ہونا چاہیے،حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں،بھارت جوزبان سمجھتا ہے اسی میں بات کرنا،کشمیریوں کا مقدر بدل سکتا ہے۔دنیا کتنی ہی بدل جائے،طاقت کی زبان استعمال کرنے والے ہی سرخرو ٹھہرتے ہیں۔مطالبے،نعرے اور قرارادادیں اپنی جگہ لیکن اہل کشمیر نے اس پون صدی کی دو دہائیوں میں جو سبق بھارت کو سکھایا ہے وہی کارگر تھا اور رہے گا۔
پاکستان اور عالم اسلام سے ریاست کی آزادی کی مدد طلب کرنے والوں سے اب ریاست کے عوام پوچھ رہے ہیں کہ اگر وہ آزادی کے لیے خود کچھ نہیں کر سکتے تو دوسروں کو اس کا ذمہ دار کیسے قرار دے سکتے ہیں۔گزشتہ تیس برسوں سے ریاست کی کچھ ”قیادت“ آزادکشمیر اور پاکستان میں آ بسی ہے۔ الا ما شااللہ چند ایک کو چھوڑ کر یہ سب تین دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہاں ”مہمان“ کی حیثیت میں رہتے ہیں اور پورا پروٹوکول بھی مانگتے ہیں۔ یہ لوگ پاکستانیوں سے شکوے بھی کرتے ہیں کہ انہوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے ”کچھ“ نہیں کیا۔ اس ربع صدی میں ان کی دوسری نسل بھی جوان ہو کر’”اپنے اپنے“ گھروں میں منتقل ہو چکی ہے اور تیسری نسل کو خبر ہی نہیں کہ کشمیر بھی کوئی مسئلہ تھا یا ہجرت کا کرب بھی کوئی کرب ہوتا ہے۔یہ المیہ ہے اور اس کا شکوہ بھی اپنے آپ سے بنتا ہے۔
شیخ عبداللہ جیسا آدمی جس طرح ڈگڈی پر معصوم سادہ لوح کشمیریوں کو نچاتا تھا، پاکستان کی نشانیاں بتا کر محبت کی اداکاری کرتا تھا۔یکے بعد دیگرے اس کی اصلی اور معنوی اولاد نے جموں کشمیر کے عوام کے ارمانوں، آرزوؤں اور جذبات سے کھیلنا جاری رکھا اور کشمیری عوام ان کے وعدوں پر یقین کرتے رہے۔ یہ اداکار آج بھی ہمارے اندر زندہ ہیں اور ان کی اداکاری اب بھی باقی ہے۔ آج کا جموں وکشمیر جس انجام سے دوچار ہے،اس کو سمجھنے کے لیے کسی افلاطونی دماغ کی ضرورت نہیں۔ اس خطے کی قیادت چاہے وہ خود مختاری کے نظریے کی حامی ہے یا پاکستان سے الحاق کی متمنی یا آمریت کے تیار شدہ چار نکاتی پالیسی کی ترجمان، یہ سب افتراق اختلاف اور انتشار کی گہری خلیج کے آر پار کھڑے ہیں۔ حالیہ تحریک کے دوران ایک لاکھ سے زائد انسانوں کی قربانی اور ماضی کے چار لاکھ شہیدوں کا لہو دینے والے یہ لوگ جموں وکشمیر کے عوام کے ہی نہیں اپنے ضمیر کے سامنے بھی جواب دہ ہیں۔ کشمیریوں کے پاس اب دو ہی آپشن باقی ہیں۔ ایک یہ کہ جموں وکشمیر کی ”قیادت“ تمام تر اختلافات ختم کر کے آزادی اور صرف آزادی پر اتفاق کرلے۔ دوسرا یہ کہ قیادت کے منصب کو ترک کر کے کشمیری عوام کے کندھوں سے اتر جائیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ کشمیر کے عوام اپنے مزاج کے عین مطابق ان کو اتار پھینکیں گے۔ آج جب ریاست جموں کشمیر کے مستقبل پر گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں ”قیادت“ کاسرد مہر ی دکھانا،کسی معجزے کا انتظار کرنا،جیلوں میں سڑتے،ہجرت کے راستے پر پڑے بے بس لوگوں اور شہیدوں کے ورثاء سے لاتعلق رہنا،سیادت کے ”تمغے“اور بغل کی بیساکھیاں چھین لے گا۔صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اگر ہماری موجودہ آر پارکشمیری قیادت اپنا کوئی رول ادا نہ کر سکی اور محض طفل تسلیوں پر مقبوضہ کشمیر کے عوام کو احتجاجوں کی تصاویر بھیج بھیج کر بہلاتی رہی تو بہت جلد کشمیر کے اندر سے متبادل وہ لوگ اٹھیں گے جو اس جدوجہد کا دھارا بدل سکتے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں گرم لوہے پر چوٹ لگانے کا وقت ایک ہی بار آتا ہے اور وہ چند لمحے ہی ہوتے ہیں۔یہ لمحے گزر رہے ہیں۔مقبوضہ جموں کشمیر میں ہماری اس سہل انگیزی کا شدید ترین ردعمل ہو سکتا ہے۔یہاں تک کہ محصور لوگ کسی ایسے ”سیٹ اپ“ پر اتفاق کر لیں جو خالصتاًمیدان کارزار سے تعلق رکھتی ہو اور”باہر“ بیٹھنے والوں کو ہمیشہ کے لیے باہر کردیں۔
ریاست کا ہر فرد آج قائدین سے سوالی ہے۔اس کی التجاؤں اور تمناؤں کا جواب ان میں سے کس کے پاس ہے؟قربانیوں، جراتوں اور ہمتوں کی لازوال داستان اس قیادت کے علاوہ اور کون جان سکتا ہے؟ اس لہو کی قدر کون پہچان سکتا ہے؟ جس کی اولاد ذبح ہو جائے، گھر بار لٹ جائے، وہ قاتل کے ساتھ کس قیمت پر صلح کے لیے تیار ہوں گے۔ وہ قاتل پر اعتماد اور دوستوں پر عدم اعتبار کا مظاہرہ کیسے کر سکتا ہے۔
(متعدد کتابوں کے مصنف‘شعبہ تعلیم
سے وابستہ اورسماجی کارکن ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain