ہارورڈ: (ویب ڈیسک)
یہ روبوٹ مچھلی انسانی قلب کے خلیات سے بنائی ہے گئی جو ننھے دل کی طرح دھڑکتے رہتے ہیں اور ایک باقاعدہ حرکت پیدا کرتے ہیں جس سے مچھلی آگے بڑھتی رہتی ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی میں بایوانجنیئرنگ سے وابستہ پروفیسر کِٹ پارکر اور ان کے ساتھیوں نے اسے ڈیزائن کیا ہے۔ ان کے پیشِ نظر یہ ہے کہ وہ بہت چھوٹے لیکن بیمار بچوں کے دل کو بہتر کرسکیں اور اس کا آغاز اس مچھلی نما روبوٹ سے کیا گیا ہے۔
زیبرا فِش کی طرز پر اس روبوٹ مچھلی کی ڈیزائننگ کی گئی ہے جس کی تفصیلات جرنل سائنس میں شائع ہوئی ہیں۔ اسے کاغذ، پلاسٹک اور جیلاٹن سے بنا کر اس کے دائیں اور بائیں دو پٹیاں ایسی لگائی گئی ہیں جن پر انسانی دل کے زندہ خلیات چپکے ہوئے ہیں۔
اس طرح مچھلی کے دائیں اور بائیں موجود خلیات ایک باقاعدہ نظم سے سکڑتے اور پھیلتے رہتے ہیں۔ ان کے سکڑنے اور پھیلنے سے مچھلی کی دم دائیں اور بائیں ہلتی ہیں اور یوں وہ آگے بڑھتی رہتی ہے۔ اس طرح کسی موٹر کی طرح حرکت کا نہ رکنے والا سلسلہ چل پڑتا ہے۔
پروفیسر پارکر اور ایموری یونیورسٹی کے سنگ جن پارک نے مشترکہ طور پر یہ مچھلی تیار کی ہے۔ اس سے قبل انہوں پٹھوں اور عضلات کے بعض خلیات کو مصنوعی طور پر سرگرم کیا اور ان میں حرکت پیدا کی۔ اس کے بعد انہوں نے انہیں انکیوبیٹر میں چھوڑ دیا اور اسے بھول گئے۔
چندر روز بعد انکیوبیٹر دوبارہ کھولا گیا تو ساری مچھلیاں اندر ازخود تیررہی تھیں۔ ان میں سے کسی کی رفتار کم اور کسی کی زیادہ تھی۔ پھر ماہرین نے مائع میں ضروری غذائی اجزا شامل کئے تو وہ مسلسل تین ماہ یعنی 100 روز تک تیرتی رہیں جو ایک حیرت انگیز امر ہے۔
یہاں تک کہ جب مچھلیاں رک گئیں تو سائنسدانوں کو صدمہ ہوا کیونکہ وہ اس سے جذباتی طور پر وابستہ ہوچکے تھے۔ لیکن اس تحقیق کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ انسانی دل کے خلیات ایک طویل عرصے تک دھڑکن جاری رکھ سکتے ہیں اور جب انسان رحمِ مادر میں چند روز کا ہوتا ہے تو ابتدائی قلبی خلیات اپنی دھڑکن شروع کردیتے ہیں جو ساری عمر جاری رہتی ہے۔
ماہرین نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ہر 20 روز دل کے خلیات نے اپنی مرمت خود کی اور 100 روزہ سفر میں پانچ مرتبہ خود اپنی تعمیر کی کیونکہ مائع میں تمام ضروری اجزا شامل تھے۔ سائنسداں پر امید ہے کہ تجربہ گاہ میں تیار کردہ انسانی قلب کے خلیات کو ہارٹ اٹیک کے مریضوں میں لگایا جاسکتا ہے۔ اس طرح دل کے معالجے کی نئی راہیں ہموار ہوں گی۔