متحدہ عرب امارات (یو اے ای) پر حوثی باغیوں کے حالیہ میزائل حملوں کے بعد دفاعی ردِ عمل کے لیے امریکی ایف-22 طیارے یو اے ای پہنچ گئے۔ ریپٹرز طیاروں نے ابوظبی کے الظفرہ ایئر بیس پر لینڈ کیا جہاں تقریباً 2 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔
وہاں موجود امریکی فوجیوں نے گزشتہ ماہ حوثیوں کے حملوں کے جواب میں پیٹریاٹ انٹرسیپٹر میزائل فائر کیے تھے، امریکی فوجیوں نے 2003 میں عراق پر امریکی قیادت میں ہونے والی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ اس نظام سے فائر کیے۔
امریکی حکام نے آپریشنل سیکیورٹی کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بتانے سے انکار کردیا کہ کتنے ایف۔22 لڑاکا طیارے تعینات کیے گئے یا ان طیاروں کے ساتھ کتنا عملہ موجود ہے۔
تاہم انہوں نے اس یونٹ کی شناخت فائٹر ونگ کے طور پر کی، جو ورجینیا میں جوائنٹ بیس لینگلے ایوسٹس میں موجود ہے۔
بعد میں ایئرفورس کی جانب سے جاری کردہ ایک تصویر میں الظفرہ کے ایک ٹیکسی وے پر چھ ایف۔ 22 طیاروں کو ایک قطار میں دکھایا گیا تھا۔
امریکی فضائیہ کی مشرق وسطیٰ کی کمان کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل گریگ گیلوٹ کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ ریپٹرز کی موجودگی پہلے سے ہی مضبوط پارٹنر ملک کے دفاع کو مزید تقویت دے گی اور عدم استحکام پیدا کرنے والی قوتوں کو اس بات کی اطلاع دے گی کہ امریکا اور ہمارے پارٹنر خطے میں امن اور استحکام کو برقراررکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔
طیاروں کی تعیناتی ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کی جانب سے گزشتہ ماہ ابوظبی کو ہدف بناتے ہوئے تین حملے کیے جانے کے بعد سامنے آئی ہے، حملے میں نشانہ بنائے گئے اہداف میں ایندھن کے ایک ڈپو کو نشانہ بنانا بھی شامل ہے جس میں تین افراد ہلاک اور چھ زخمی ہوئے تھے، یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے تھے جب جنوبی کوریا اور اسرائیل کے صدور نے یہاں کا دورہ کیا۔
ماہ فروری کے آغاز میں بھی ایک مشتبہ عراقی گروپ نے امارات کو نشانہ بناتے ہوئے ڈرون حملہ کرنے کا دعویٰ کیا، تاہم حکام کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس حملے کو ناکام بنادیا تھا۔
اگرچہ یوکرین کے بحران کے باعث معاملہ پس منظر میں جانے کے باوجود میزائل حملوں نے امریکی ردعمل کو جنم دیا اور امریکی فوج نے یو ایس ایس کول کو ابوظبی کے مشن پر بھیجا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں یمن کی برسوں سے جاری جنگ کے پھیلاؤ نے امریکی فوجیوں کو حوثیوں کے حملوں کے دائرے میں ڈال کر علاقائی کشیدگی کا خطرہ بڑھا دیا ہے۔
یہ ایسے اہم وقت میں ہوا کہ جب عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ویانا میں مذاکرات جاری ہیں۔