تازہ تر ین

ایک بار قاضی صاحب ڈنڈا لیکر میرے پیچھے پڑ گئے اور کہنے لگے …. معروف صحافی ضیا شاہد کے کالم ” میرے بھائی میرے دوست …. قاضی حسین احمد“ کی تیسری قسط

اپنے انتہائی مشفق استاد خلیل حامدی کی وفات پر میں نے تجویز دی کہ میاں نوازشریف صاحب کو قاضی حسین احمد کے ہاں منصورہ جاکر عالم اسلام کے لئے ان کے شعبہ دارالعروبہ کے سابق انچارج خلیل حامدی کی تعزیت کے لئے جانا چاہئے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق میں نے میاں نوازشریف اور قاضی حسین احمد صاحب کی ملاقات کروائی۔ تعزیت کے بعد میاں صاحب سے قاضی صاحب کی دس کروڑ والے اشتہار کی شکایت کی میاں صاحب نے کھلے دل سے تسلیم کیا کہ یہ اشتہار ان کے علم میں لائے بغیر چھپ گیا جس پر وہ معذرت خواہ ہیں۔ قاضی حسین احمد نے یہ معذرت قبول کرلی اور دونوں جماعتوں کے مابین دوبارہ سیاسی اتحاد کے لئے لیاقت بلوچ اورچودھری رحمت الٰہی پر مبنی کمیٹی قائم کردی جبکہ میاں نوازشریف نے اس موقع پر میاں اظہر اور میاں خورشید محمود قصوری کے نام اپنی طرف سے مذکورہ کمیٹی کے لئے اناﺅنس کئے جو اخبارات میں بھی چھپے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ میری موجودگی میں قاضی حسین احمد نے پھر وہی بات دہرائی کہ نہ ہمیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے کوٹے پر اصرار ہے نہ ہم دو یا تین وزارتیں چاہتے ہیں۔ الیکشن کے بعد اگر کامیابی ہمارے حصے میں آئے تو وہی ہوگا جو پہلے تھا یعنی آئین میں درج آرٹیکلز پر عملدرآمد جو ملک میں مروجہ قوانین کو اسلامی احکام کے مطابق ڈھال سکے۔
قارئین کرام! میں نے یہ واقعہ اس لئے تفصیل سے لکھا حالانکہ میرے پاس قاضی صاحب کی زندگی کے بے شمار واقعات امانتاً محفوظ ہیں جن سے بہت بڑی بڑی خبریں نکل سکتی ہیں لیکن یہ واقعہ میں نے اس لئے منتخب کیا کہ قاضی صاحب کی سچائی‘ راست بازی اپنے دل کے میل کو صرف معذرت کے ایک جملے سے دھو ڈالنا اسمبلیوں میں نشستوں کی تعداد سے لے کر وزارتوں کی تقسیم کا ذکر تک نہ کرنا اور سارا زور اس بات پر دینا کہ آئین کے بہت سے آرٹیکلز پر جو قانون سازی اسلامی طرز حکومت کے لئے درکار ہے اس پر کام کیا جائے۔ یہ ان کی اپنے مقصد سے لگن کا گہرا اور بین ثبوت تھا۔ پھر مہینوں تک جاری رہنے والی سیاسی بیان بازی کے باوجود میاں نوازشریف کے خود چل کر منصورہ آنے اور تعزیت کے بعد متنازعہ اشتہار پرمعذرت کرنے کے بعد اچانک قاضی صاحب ساری تلخیاں بھول گئے ان پر جس مالی امور کا الزام لگایا تھا میں اس کی تفصیل سے پوری طرح آگاہ ہوں۔ اس رقم کے کتنے حصے کئے گئے تھے ‘ کتنی رقم لندن میں قائم شدہ کشمیر سنٹر بھیجی گئی تھی‘ کتنی مجاہدین کی تربیت گاہوں پر صرف ہوئی تھی اور کس قدر ایسے نوجوانوں کے خاندانوں کی مالی اعانت کےلئے مخصوص کی گئی جو مقبوضہ کشمیر میں شہید ہوگئے تھے۔ اور جن کے بیوی بچوں کا کوئی پُرسان حال نہ تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ میری دانست میں جوکام بعد میں برسوں سے حافظ محمد سعید کے ذمے لگا اسے قاضی حسین احمد نے کس شفاف طریقے سے انجام دیا۔ کسی دوسرے شخص کے لئے قسم اٹھانا بڑا مشکل کام ہے لیکن میں اپنے بھائی‘ اپنے دوست اور اپنے شفیق اور مہربان قاضی صاحب کی جگہ کسی بھی وقت حلف اٹھانے کیلئے تیار ہوں کہ قاضی صاحب پر بددیانتی کا الزام لگانے والے خود جب خدا کی بارگاہ میں پیش ہوں گے تو انہیں کیا جواب دینا ہے۔ اس پر وہ ابھی سے غور شروع کردیں میں ان کی زندگی کے بے شمار واقعات سے آگاہ ہوں کہ روپیہ پیسہ‘ طمع‘ لالچ‘ دنیاداری ‘ حرص اور ہوس سے قاضی صاحب کوسوں دور تھے اور خدا جھوٹ نہ بلوائے ان میں فرشتوں جیسی جو معصومیت تھی اس کی وجہ ان کابے داغ طرز زندگی تھا۔
میں نے اوپر قاضی حسین احمد صاحب کے ساتھ برسوں تک مہینے میں دو ایک اتواروں کو ہونے والی گپ شپ کے بارے میں لکھا کاش میں ہر ملاقات کے بعد گھر واپس آ کر نوٹس بنا لیتا کیونکہ روداد اس قدر دلچسپ بن سکتی تھی کہ شاید ہی کہیں سے معلومات مل سکتیں۔ ظاہر ہے کہ مجھے بہت سی باتیں اب یاد نہیں رہیں۔ تاہم اتنا ضرور یاد ہے کہ اس گپ شپ میں قاضی صاحب نے اپنے بچپن، جوانی طالب علمی سے لے کر سیاسی نشیب وفروز کی بے شمار داستانیں بیان کی تھیں۔ ان میں لطیفے بھی تھے اور پھلجھڑیاں بھی۔ قاضی صاحب کی شخصیت کی طرح ان کا علمی مذاق بھی صاف ستھرا اور بلند سطح کا حامل ہوتا تھا۔ ان کے لطائف میں تہذیب ادب ہماری سماجی قدریں اور سب سے بڑھ کر انتہائی شُستا اور مہذب الفاظ کا انتخاب ان کی گفتگو کو چار چاند لگا دیتا تھا۔ ہمارے درمیان چھوٹی چھوٹی بحثیں بھی ہوتی تھیں۔ ایک بار قاضی صاحب ڈنڈا لے کر میرے پیچھے پڑ گئے اور کہنے لگے آ پکا ذہن مشرقی اقدار کا حامل ہے، اچھا لکھتے ہیں اچھا بولتے ہیں۔ کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ہیں۔ سیاست میں بہتری چاہتے ہیں پاکستان کو اسلامی، فلاحی ریاست بنانا آپ کا بھی خواب ہے اور ہمارا بھی پھر آپ کیوں اسلامی جماعت میں شامل نہیں ہو جاتے۔ میں اپنی ہنسی ضبط نہ کر سکا۔ قاضی صاحب بولتے ہیں سمجھا نہیں اس میں ہنسنے والی کون سی بات ہے۔ میں نے کہا قاضی صاحب میں دنیا دار آدمی ہوں۔ اپنے آپ کو ہمیشہ گناہگار سمجھتا ہوں۔ بچپن سے والدہ کی ڈانٹ کے باعث 24 گھنٹے میں صرف ایک نماز پڑھتا ہوں اور وہ بھی صبح کی۔ شرعی احکام کی پابندی بھی کم کم ہے۔ فلمیں بھی دیکھتا ہوں اور سٹیج ڈرامے بھی۔ پرانے گیتوں اور پرانی غزلوں کا شوق ہے۔ آپ سے مجھے دلی لگاﺅ ہے اور یہ آپ کی محبت ہے کہ میری ہر قسم کی گفتگو اور نوک جھونک بھی برداشت کر لیتے ہیں۔ میرا جماعت اسلامی میں کیا کام؟ نہ میں ٹخنوں سے اونچی شلوار پہن سکتا ہوں۔ نہ میرے چہرے پر داڑھی ہے۔ نہ صرف سر پر ٹوپی پہنتا ہوں۔ چھوٹے موٹے جھوٹ سے بھی مشکل ہی سے بچتا ہوں۔ آپ مجھے کہاں کانٹوں کی وادی میں کھینچ رہے ہیں۔ قاضی صاحب نے مجھ سے ڈیڑھ دو گھنٹے بحث کی انہیں یقین کامل تھا کہ میرے اندر ایک اچھا مسلمان چھپا ہوا ہے پھر انہوں نے اپنی زندگی کے بالخصوص جوانی کے دور کے واقعات سنائے اور بتایا کہ وہ کس طرح گندے پانی کے اس جوہڑ میں بھی خود کو کنول کے پھول کی طرح شفاف شفاف رکھتے تھے۔ میں نے کانوں کو ہاتھ لگایا کہ میں ضیا شاہد ہوں، قاضی حسین احمد نہیں۔ قاضی صاحب ہنستے ہوئے بولے انسان خطا کا پتلا ہے کوئی بھول چوک ہو جائے تو اللہ سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگو البتہ اپنی کمزوریوں کا ڈھنڈورا مت پیٹو پھر وہ ہنسے اور بڑے پیار سے بولے اللہ پاک ”ستار العیوب“ ہے۔ دل سے توبہ کرو گے تو اللہ بخش دے گا۔ میں نے کہا قاضی صاحب مگر ابھی مجھے اس دنیا میں رہنا ہے جہاں جھوٹ اور مکرو فریب کے بغیر ایک قدم آگے نہیں چلا جا سکتا جو سرکاری فارم پُر کرو جھوٹ لکھنا پڑتا ہے اور سچ لکھو تو کام نہیں چلتا، آپ لوگ اسلامی نظام کیلئے جلوس نکالا کرو۔ میں سڑک کنارے کھڑا ہو کر شرکاءکی تعداد گنوں گا اور صحافی ہونے کے ناطے اس میں ڈنڈی ماروں گا کہ ہزارہ بندہ ہو گا تو پانچ ہزار لکھوں گا ہم ہنستے رہے اور قاضی صاحب اپنے سامنے رکھے ہوئے سیبوں میں سے ایک ایک سیب اٹھا کر اور اسے چار یا آٹھ حصوں میں کاٹ کر مجھے پیش کرتے رہے وہ سیب کا چھلکا بھی نہیں اتارتے تھے اور ہمیشہ کہتے کہ سیب کو چھلکے سمیت کھانا چاہیے کیونکہ چھلکے اور سیب کے گودے کے درمیان بڑے طاقتور وٹامنز ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)

ایک اور واقعہ یاد آتا ہے تو ان کی محبت اور خلوص کی یادیں ایک بار پھر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتی ہیں۔ آج کل جماعت اسلامی کے امیر مولانا سراج الحق اسلامی جمعیت طلباءکے کل پاکستان کے سربراہ ہوتے تھے اور ان کا زیادہ تر قیام پشاور میں رہتا۔ انہوں نے نوجوانوں کی تربیت کیلئے کچھ نشستوں کا اہتمام کیا اور آخری نشست میں قاضی صاحب کو دعوت دی کہ وہ صدارتی خطبہ دیں۔ اشفاق سے دعوت لاہور میں میرے سامنے دی گئی تھی اور میں بھی قاضی صاحب سے ملاقات کی غرض سےدارالضیافہ کے ڈرائنگ میں قاضی صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے بڑی محبت سے مجھے کہا آپ ضرور پشاور آئیے گا پھر سراج الحق کی بہت تعریف کی اور کیا کہ اس نوجوان نے جمعیت کی بہت زبرست تنظیم کی ہے۔ میں نے تکلفاً حامی بھرلی حالانکہ میرا کوئی پروگرام پشاور جانے کا نہیں تھا۔ کم و بیش ایک مہینے بعد مجھے اسلام آباد سے قاضی صاحب کا فون آیا اور انہوں نے مجے اپنا وعدہ یاد دلایا۔ میں نے کہا کوشش کروں گا مگر انہوں نے اصرار کیا کہ آپ کل جہاز سے راولپنڈی آجائیں ہمارے نوجوان آپ کو ایئرپورٹ سے ساتھ لیں گے اور اسلام آباد میں ہمارے دفتر لے آئیں گے یہاں سے آپ میری گاڑی میں بیٹھ کر پشاور تک سفر کریں۔ راستے میں اچھی گپ شپ رہے گی میں نے پھر کہا کوشش کروں گا۔ انہوں نے اصرار کیا کوشش نہیں کل صبح کی فلائٹ سے چکلالہ ایئرپورٹ پہنچیں ہمارے لوگ آپ کو لینے کے لیے وہاں موجود ہوں گے۔ میں نے پھر آئیں بائیں شائیں کی۔ قاضی صاحب نے کہا بندہ خدا کل اتوار ہے اور آپ کا دفتر بھی بند ہو گا اور آپ کی ہفتہ وار چھٹی بھی ہے میں کوئی عذر نہیں سنوں گا بس صبح کی فلائٹ کی ٹکٹ منگوالی۔ پروگرام کے مطابق اس شام مجھے واپس اسلام آباد آنا تھا کہ پیر کی صبح اخبارات کی مرکزی تنظیم کی وزارت اطلاعات کے دفتر میں وزیر اور سیکرٹری اطلاعات کے ساتھ میٹنگ تھی۔ دوسری صبح لاہور ایئرپورٹ پہنچا تو یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ فلائٹ چار گھنٹے لیٹ ہے کیونکہ کوئی جہاز ٹیکنیکل طور پر خراب ہوگیا تھا اور اب کراچی سے آنے والی دوپہر کی فلائٹ کو لاہور کے مسافروں کو لے کر پنڈی پہنچنا تھا۔ یہ موبائل کا زمانہ نہیں تھا لہٰذا میں نے لینڈ لائن پر قاضی صاحب سے گفتگو کی جو اسلام آباد آفس میں میرے منتظر تھے۔ میرا خیال تھا کہ وہ اصرار نہیں کریں گے لیکن انہوں نے کہا میں نے آخری نشست میں اپنی تقریر سے پہلے آپ کا لکھوایا تھا اور جو دعوت ناموں اور پوسٹرز پر بھی چھپ چکا ہے۔ میں نے اعتراض کیا قاضی صاحب نہ میں جماعت اسلامی میں ہوں نہ اسلامی جمعیت طلباءمیں۔ میں کیا تقریر کروں گا اور میری گفتگو کا کیا جواز ہے۔ وہ کہنے لگے میں نے نوجوانوں کو یہ بتانا ہے کہ ایک سیلف میڈ انسان کیا ہوتا ہے اور تمہیں نمونے کے طور پر پیش کرنا ہے کہ جو طالب علم چھٹی جماعت سے سکول سے آنے کے بعد محلے میں پینٹ کی دکان پر یومیہ اجرت کے عوض سائن بورڈ میں رنگ بھرتا تھا اور فرسٹ ایئر سے روزانہ اخبار کی نائٹ شفٹ پر ملازمت کر کے رات تین بجے گھر پہنچتا اور صبح آٹھ بجے کالج میں حاضری دیتا تھا۔ مالی وسائل کی کمی تعلیم کے حصول کے راستے میں رکاوٹ نہیں روکتی لہٰذا مجھے پشاور میں ایک ضروری اجلاس دوپہر میں بھی بھگتانا ہے آپ کے لئے گاڑی اور ڈرائیور ایئرپورٹ پر موجود ہوں گے۔ آپ نے لازماً پشاور پہنچنا ہے، اب میرے پاس بھاگنے کا کوئی راستہ موجود نہ تھا البتہ میں نے گاڑی کے لئے منع کر دیا کہ اخبار کے دفتر سے گاڑی اور ڈرائیور مجھے لینے آ جائے گا۔ میں اپنی گاڑی پر پشاور پہنچوں گا کیونکہ تقریب کے بعد کھانے میں شامل ہو کر اسی وقت واپس اسلام آباد کے لئے چل پڑوں گا۔
فلائٹ چار کی بجائے چھ گھنٹہ لیٹ روانہ ہوئی اور اگرچہ چکلالہ ایئرپورٹ سے ہم سیدھے پشاور کی طرف روانہ ہوئے مگر وہاں سے اطلاع ملی کہ جلسہ شروع ہو چکا ہے اور ابتدائی تقاریر ہو رہی ہیں ان دنوں موٹر وے تو تھی نہیں۔ پرانی سڑک اکثر مقامات پر بہت اچھی تھی مگر کئی کئی میل زیر تعمیر ہونے کی وجہ سے رفتار بہت آہستہ ہو جاتی، چھوٹے ہاتھ میں پکڑنے والے موبائل تو نہیں آئے تھے لیکن وائرلیس ٹیلی فون آ گئے تھے اور اسلام آباد آفس والے پرانے ٹیلی فون کی شکل کا وائرلیس سیٹ گاڑی میں ساتھ لے آئے تھے جسے عرف عام میں بچہ ٹیلی فون کہا جاتا تھا چنانچہ بار بار ہم پشاور سے رابطہ کرتے اور نوشہرہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ عصر کی نماز بھی جلسہ گاہ ہی میں پڑھی گئی ہے اور چونکہ لائٹ کا خاطر خواہ انتظام نہیں کہ غالب خیال یہ تھا کہ مغرب سے پہلے اجلاس ختم ہو جائے گا لہٰذا لگتا تھا کہ جس جلسے میں تو شاید نہ پہنچ سکوں البتہ قاضی صاحب کو اپنی صورت دکھا کر معذرت کے قابل ہو جاﺅں گا۔
پشاور کے نواح میں پہنچے تو فون ملا کہ قاضی صاحب تقریر کے لئے مائیک پر آ چکے ہیں اور بار بار کارکنوں سے کہہ رہے ہیں کہ میرا پتا کریں میں کہاں ہوں اور کتنی دیر میں پہنچوں گا، ہم خوش قسمتی سے ڈرائیور پشاور کا رہنے والا تھا جو ہمیں سیدھا جلسہ گاہ میں لے گیا کافی فاصلے پر اتر کر ہم نے سٹیج کی طرف پیدل مارچ شروع کیا۔ سٹیج کے قریب پہنچے تو کارکنوں نے جو پہلے سے میرے منتظر تھے سیڑھیوں کی بجائے جو عقبی حصے میں تھیں مجھے کندھوں پر اٹھا کر سٹیج تک پہنچا دیا، مجھے دیکھتے ہی قاضی صاحب نے اپنی تقریر بند کر دی۔ بہت بڑا مجمع تھا۔ انہوں نے مجھے گلے سے لگایا۔ میں نے معذرت کی کہ فلائٹ چار کی بجائے چھ گھنٹہ لیٹ تھی۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مائیک کے سامنے لے گئے اور میں نے اپنی طویل صحافی زندگی میں یہ پہلا جلسہ دیکھا جس کی صدارت کرنے والے آخری مقرر نے اپنی تقریر روک کر پہلے چندجملوں میں میرا تعارف کروایا اور کہا کہ میں پہلے ہی ان کا ذکر کر چکا ہوں اور اب میں چاہوں گا کہ یہ کچھ الفاظ نوجوانوں سے مخاطب ہو کر براہ راست آپ سے بات کریں کہ تعلیم کے حصول میں جتنی مشکلات بھی پیش آئیں آپ کا فرض ہے کہ اپنا مشن جاری رکھیں۔ میں اسلامی جمعیت طلبا کے زیر اہتمام اس سیمینار کے آخر میں اس نوجوان کو پیش کرنا چاہتا ہوں جس نے انتہائی مشکل مالی حالات میں بھی ہمت اور حوصلہ نہیں چھوڑا۔ بورڈ لکھے۔ لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر پانی میں برف ڈال کر ٹھنڈا پانی بیچا، خربوزوں کے موسم میں پورا ٹرک خرید کر اسے ریڑھیوں پر لاد کر مختلف جگہوں تک پہنچایا۔ کتابت کی، پوسٹر لکھے۔ دیواری اشتہار لکھے۔ پھر رات رات بھر اخبارات کے دفاتر میں کام کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں نہ صرف ایم اے تک پہنچا بلکہ پوری یونیورسٹی میں اول آنے پر گولڈ میڈل لیا، قاصی صاحب کے الفاظ میں اتنی محبت اور اتنی شفقت چھپی ہوئی تھی کہ میری آنکھوں میں آنسو امنڈنے لگے میں نے بمشکل اپنے اوپر قابو پایا اور چند الفاظ ادا کئے، قاضی صاحب نے میری کیفیت دیکھ کر دوبارہ مائیک سنبھالا اور اس طرح اپنی تقریر مکمل کی کہ ان کا ایک ہاتھ مسلسل میرے کندھے پر رہا۔ آج اتنے برسوں بعد یہ واقعہ لکھتے وقت مجھے بار بار قاضی حسین احمد کی یاد آتی ہے۔ ان کے اندر ایک محبت بھرا گداز دل تھا جس میں دُور دُور تک لالچ طمع، حرص، نفرت، بُغض، دنیا داری، بناوٹ نام کی کوئی چیز نہ تھی، وہ اتنے معصوم انسان تھے کہ اگر اب میں ایک واقعہ ان کی استقامت، بہادری، جرا¿ت سرفروشی، ایمان پر غیرمتزلزل یقین کے حوالے سے بیان نہ کروں تو یہ قاضی حسین احمد کے ساتھ بے انصافی ہو گی۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain