واشنگٹن (خصوصی رپورٹ) سی آئی اے کی کلاسیفائیڈ کی گئی دستاویزات میں کچھ ایسی بھی ہیں جو مافوق الفطرت خلائی اجسام کے وجود سے متعلق ہیں۔ اس طرح کی ایک رپورٹ اپریل 1968ء کی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 1950ءاور 1960ء کے درمیانی عرصہ میں آسمان پراڑن طشتریوں کا تذکرہ اور خلا میں کسی دوسری مخلوق کے وجود سے متعلق اطلاعات عام ہونے پر سی آئی اے اور امریکی فضائیہ نے معاملہ کو انتہائی سنجیدگی سے لیا ۔ رپورٹ میں ان 6 جگہوں کا بھی ذکر ہے جہاں اڑن طشتریوں کو دیکھا گیا تھا۔ یہ علاقہ لداخ، سکم، بھوٹان اور نیپال پر مشتمل ہے۔ سی آئی اے اور امریکی فضائیہ نے علاقے کو اپنی مہم کا حصہ بنا لیا اور اس معاملے کو جانچنے کے لئے سی آئی اے نے ایک سائنٹیفک ایڈوائزری پینل تشکیل دیا۔اڑن طشتریوں سے متعلق رپورٹ کو دوسرے ملکوں کے ساتھ جہاں یہ اجسام دیکھے گئے تھے‘ رپورٹ کو دوسرے ملکوں کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا تھا‘ بالخصوص ان ممالک کے ساتھ جہاں یہ اجسام دیکھے گئے تھے۔ رپورٹ میں ہے کہ 25 مارچ 1968ءکی نصف شب نیپال کے علاقہ کمسکی کے اوپر ایک جلتا ہوا آبچیکٹ دیکھا گیا جو نہ صرف روشنی چھوڑ رہا تھا بلکہ بعد ازاں ٹوٹ پھوٹ گیا۔ ڈسک کی شکل کے اس دھاتی جسم کابیس 6 فٹ اور اونچائی 4 فٹ تھی، یہ ایک گڑھے میں گرا ہوا ملا تھا۔ یہ دھاتی جسم مشرق سے مغرب کی طرف شانگہ ، فلچی اور لداخ میں کوپول کے علاقے پر محور پرواز تھا۔ اس سے سفید روشنی نکلی اور دو دھماکے بھی ہوئے۔ اسی طرح لداخ پر ہی 4 مارچ 1968ءاور 25 مارچ کو دو مزید دھاتی اڑن طشتریاں دیکھی گئیں جو 20سے 25 ہزار جٹ بلندی پر تھیں۔ راکٹ کی مانند اس کے پیچھے 20 گز تک سفیدی مائل پلا دھوں تھا۔