تازہ تر ین

چین کا پاکستان کو حیران کن ایٹمی تحفہ….عالمی سطح پر ایشین ٹایئگر کے چرچوں سے ہلچل مچ گئی

ایجنسی سی آئی اے کی جانب سے جنرل ضیا کو بنیادی طور پر آفس میں طویل عرصے تک رہنے کے لیے مسلسل فوج کی حمایت کی ضرورت ہے، کیوں کہ ان کے پاس پاکستان کے سیاسی و معاشی مسائل حل کرنے کی قابلیت نہیں۔کیبل سے پتہ چلتا ہے کہ جنرل ضیا کی جانب سے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد وہ فوج میں اپنے حریفوں کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں،انہیں یقین ہوتا ہے کہ مارشل لا سے فوج کا تشخص اور وقار کم ہوا ہے، جس وجہ سے ان کے اور فوج کے اعلی افسران کے درمیان تلخی بڑھی۔تاہم فوجی افسران نے ان کے خلاف دفتر میں اس وقت تک کوئی اقدام نہیں اٹھایا جب تک ذوالفقار علی بھٹو کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا گیا تھا۔امریکی عہدیداروں کی جانب سے فروری 1979 میں مرتب کی گئی ایک اور رپورٹ میں جنرل ضیا کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو کے ٹرائل پر روشنی ڈالنے کے حوالے سے تجزیہ کیا گیا ہے۔دستاویزات کہتے ہیں کہ اگر بھٹو بچ گئے تو فوجی قیادت جنرل ضیا کے خلاف متحد ہوجائے گی جبکہ ان کے خلاف اقدامات اٹھائے جائیں گے، سی آئی اے کی حال ہی میں منظرعام پر آنے والی ایک اور خفیہ دستایوزات میں پاکستان اور چین کے درمیان عسکری تعلقات دہائیوں کے دوران بننے کی گواہی دی گئی ہے اور اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح بیجنگ نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو فروغ دینے کیلئے امریکہ کیساتھ اپنے ایٹمی تعاون کو دا? پر لگا دیا تھا۔ دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے یہ نوٹ کیا کہ ایٹمی معاہدے پر دستخط کے بعد چین نے پاکستان کو یہ نہیں کہا تھا کہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کو اپنی تنصیبات کی تحقیقات کرنے دے۔ معاہدے کا متن کافی تسلی بخش تھا، جس میں غیر فوجی ایٹمی تعلقات، ریڈیو آئیسو ٹاپس، طبی تحقیق اور سویلین توانائی کی ٹیکنالوجی پر توجہ دی گئی تھی۔ چین اور پاکستان1983.84 ءکے درمیان ایٹمی تعاون بہت ہی گہرا ہوگیا ہے، فروری1983 ءمیں امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کو سی آئی اے نے آگاہی دی کہ امریکہ کے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ پاکستان اور چین ایٹمی ہتھیار بنانے والوں سے بات چیت کررہے ہیں، سی آئی اے نے یہ بھی کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ چین نے ایک ایٹم بم کا ڈیزائن بھی پاکستان کے حوالے کیا ہے جس کا تجربہ لوپ نور میں ہوا تھا اور یہ حادثاتی طور پر چین کا چوتھا ایٹمی تجربہ تھا، سی آئی اے کے حالیہ جاری کردہ خفیہ دستاویزات میں اس عام خیال کی تردید کی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان1971ءکی جنگ میں دیگر کے ساتھ سرد جنگ کی سیاسی کشمکش کا عنصر بھی شامل تھا، دستاویزات اس کے برعکس حقیقت پیش کرتے ہیں کہ ماسکو ہندوستان کی جانب سے فوجی مداخلت کے”سیاہ اشاروں“ پر خوش نہیں تھا، ایک بار پھر عام سوچ کے برعکس اندرا گاندھی بھارتی دائیں بازو کی طرف سے اٹھنے والی جنگی مطالبے کے خلاف تھیں اور سوویت یونین نے اندرا گاندھی کو جنگی جنونیوں کے مطالبوں کو رد کرنے پر زور ڈالا تھا، یہ خفیہ دستاویزات اوباما انتظامیہ کے آخری دنوں میں جاری ہوئے، جس میںیہ بھی درج ہے کہ جہاں بنگالی اکثریتی مشرقی پاکستان کے بحران کے ایک بڑے حصے کا ذمہ دار ذوالفقار علی بھٹو کو ٹہرایا جاتا ہے،وہاں دراصل وہ مغربی پاکستانی فوج کا ایک حصہ تھا جس نے جنرل یحیحیٰ خان کو ڈھاکہ کے معاملے پر تباہ کن طریقے اپنانے پراکسایا، صدر نکسن کو سی آئی اے کی جانب سے روزانہ بریفنگ دی جاتی تھی، اسی طرح ایک دن سی آئی اے نے جولائی1971ءمیں انہیں بتایا کہ”سوویت یونین(روس) بھارت کے مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کے سیاہ اشاروں سے کافی پریشان دکھائی دیتی ہے اور1965ءکی طرح ایک بار پھر بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑنے سے روکنے کی خاطر ہرممکن اقدامات کررہی ہے۔ سی آئی اے نے اپنی دستاویز میں سری لنکا کیلےئ60 کی دہائی میں استعمال ہونے والے نام سیلون اس دستاویز میں خطے کی جغرافیائی اور سیاسی صورتحال، معیشت اور حالیہ رجحانات کے حوالے سے بات کی گئی، دستاویز میں پاکستان، ہندوستان اور اسرائیل کو حقیقی طور پر نادان اقوام کے طور پر بیان کیا گیا، اس میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ کس طرح پاکستان، ترکی اور یونان جدید دنیا میں شامل ہونا چاہتے ہیں، لیکن باہر سے حمایت کے بغیر وہ یہ کام نہیں کرسکتے۔


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain