تازہ تر ین

” ہم پر آنسو گیس کے اتنے شیل پھینکے گئے کہ سانس لینا محال ہو گیا “ ممتاز صحافی ضیا شاہد کے کالم میرے بھائی میرے دوست …. قاضی حسین احمد کی پانچو یں قسط

اوپر میں نے قاضی حسین احمد کی ہمت، استقامت، جرا¿ت، صبر واستقلال کے حوالے سے بات کی ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ بینظیر بھٹو کا دور تھا جب قاضی صاحب نے لیاقت باغ سے فیض آباد (اسلام آباد) تک ٹرکوں پر ایک مظاہرے کا اہتمام کیا۔ یوں تو جماعت اسلامی نے بیسیوں اور سینکڑوں نہیں ہزاروں جلسوں اور جلوسوں کا اہتمام کیا لیکن میں جس مظاہرے کا ذکر کرنے جا رہا ہوں وہ میرا چشم دید بھی ہے اور اس میں بہت سے ایسے گواہوں کے مشاہدات شامل ہیں جو قاضی حسین احمد سے عمر میں کہیں چھوٹے اور صحت میں کہیں بہتر تھے‘ لیکن ایک ایک کر کے ان کی ہمت بھی جواب دیتی گئی۔ میں نے دانستہ ان کے ساتھ ٹرک پر سوار ہونے کی بجائے روزنامہ خبریں اسلام آباد کے ایک کارکن کی موٹرسائیکل پر جلوس کے ساتھ ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس طرح میں گھوم پھر کر اس کے طول وعرض کا بخوبی مشاہدہ کر سکتا تھا۔ قاضی صاحب نے اصرار کیا کہ میرے ساتھ ٹرک پر آ جاﺅ مگر میں نے وعدہ کر لیا کہ جلوس جہاں اختتام پذیر ہو گا میں آپ کے استقبال کیلئے موجود ہونگا، مجھے موٹرسائیکل پر سفر کرنے دیجئے۔ جماعت اسلامی کے علاوہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے بہت سے نامور لوگ بھی خیرسگالی کے طور پر شرکت کیلئے آئے‘ لیکن جونہی ہم نے پنڈی کا چاندنی چوک کراس کیا اور اسلام آباد جانے والی مری روڈ پر ٹرکوں کے جلوس کے اطراف میں ذرا رک کر جائزہ لینا چاہا کہ چند ٹرکوں کے اختتام پر کتنی گاڑیاں اور کتنے لوگ پیدل جلوس میں چل رہے ہیں کہ اچانک راولپنڈی کی ”بہادر پولیس“ ٹرکوں کے جلوس پر ٹوٹ پڑی۔ آنسو گیس کے اتنے شیل پھینکے گئے کہ ہم لوگوں کے لیے جو سڑک کنارے موٹرسائیکل پر سوار تھے سانس لینا مشکل ہو گیا۔ آنکھوں میں مرچیں سی چبھنے لگیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی بے اختیار آنسو ٹپکنے لگے۔ میرے ساتھی نے موٹرسائیکل کا رخ سیٹلائٹ ٹاﺅن کے اندر جانے والی ایک سڑک پر موڑ دیاتاکہ آنسو گیس کی زد میں آنے والے علاقے سے دور چلے جائیں۔ کچھ فاصلے پر ایک چوک تھا جہاں رک کر ہم نے ایک سرکاری نل پر جہاں رومال، تولیے اور مختلف انداز کے کپڑے بھگونے والوں کا ہجوم تھا۔ بڑی مشکل سے اپنے رومال بھی پانی میں بھگوئے اور بار بار آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے رہے پھر ہم نے گلے کی خشکی تر کرنے کیلئے تھوڑا سا پانی پیا۔ چند منٹ بعد میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ایک بار پھر ذرا آگے جا کر مری روڈ کی طرف مڑو تاکہ دیکھیں جلوس میں ٹرکوں پر سوار اور لوگوں کا کیا حال ہے۔ مری روڈ کے قریب پہنچنا بھی مشکل ہو رہا تھا کیونکہ فضا میں آنسو گیس یوں پھیلی ہوئی تھی کہ سانس لینے میں بڑی دقت ہو رہی تھی۔ اتنے میں ہمیں اعجاز الحق کچھ لوگوں کے جھرمٹ میں دکھائی دیئے۔ ایک شخص تولیہ گیلا کر کے بار بار ان کو دے رہا تھا اور وہ اپنی آنکھیں اور چہرہ بھگو کر آنسو گیس سے ہونے والی جلن کم کر رہے تھے۔ میں موٹرسائیکل سے اتر کر ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے مختصر روداد یوں سنائی کہ میں تو سانس کی بندش کے باعث قاضی صاحب کے ٹرک سے اتر آیا ہوں۔ مجھے ویسے بھی کئی دن سے بخار ہے اور گلا پہلے ہی سوجا ہوا ہے۔ بخدا میرا تو دم گھٹنے لگا تھا۔ میں نے کہا قاضی صاحب کہاں ہیں‘ اعجاز الحق نے کہا وہ ابھی تک ٹرک پر اپنی جگہ جم کر کھڑے ہیں۔ اللہ رحم کرے پچھلے دنوں ان کی بیماری کی خبر سنی تھی اللہ انہیں اپنی حفاظت میں رکھے۔ پولیس نے آنسو گیس کے شیل پھینکنے کی انتہا کر دی ہے اور مری روڈ پر تو پیدل چلنا بھی ناممکن ہے۔ کچھ دیر ہم باتیں کرتے رہے‘ اعجاز الحق نے کہا میرے ساتھ گاڑی میں چلو میں آپ کو آئی نائن میں ”خبریں“ کے دفتر چھوڑ دوں گا۔ فیض آباد تک پہنچنا کسی صورت ممکن نہیں مگر میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں دانستہ گاڑی کی بجائے موٹرسائیکل پر آیا ہوں اور ابھی میرا جلوس کے متوازی جہاں تک جانا ممکن ہے ساتھ چلنے کا پروگرام ہے۔
ہم پھر موٹرسائیکل پر بیٹھ کر مری روڈ کی طرف گئے۔ اعجاز الحق کے ایک ساتھی نے البتہ ہمیں پانی میں بھیگا ہوا ایک تولیہ دیا جو میں نے اپنے سر پر ڈال لیا اور آنکھیں بھی گیلے تولیے سے ڈھانپ لیں۔ موٹرسائیکل چلانے والے نے بڑی ہمت سے دوبارہ ہمیں مری روڈ کے اس حصے تک پہنچایا جہاں ابھی تک جلوس نہیں پہنچا تھا۔ البتہ پولیس کی بے انتہا نفری اور بے شمار گاڑیاں راستے میں حائل تھیں اور واقعی قاضی صاحب کے ٹرک کا فیض آباد پہنچنا ناممکن تھا۔ میں نے موٹرسائیکل ڈرائیور سے کہا دوبارہ سیٹلائٹ ٹاﺅن کے راستے پیچھے چلو جہاں قاضی صاحب کا ٹرک پہنچا ہے وہاں تک ایک چکر ضرور لگانا ہے۔ پورا سیٹلائٹ ٹاﺅن آنسو گیس سے متاثر ہو رہا تھا پھر بھی ہم واپسی کا سفر اختیار کر کے ٹرک کے اس مقام کی طرف روانہ ہوئے جہاں پولیس نے قاضی صاحب کے ٹرک کو روک رکھا تھا۔ میں نے کئی لوگوں کو پانی سے بھری ہوئی بالٹیاں اٹھائے ٹرک تک پہنچتے اور بالٹیاں اوپر ٹرک پر پہنچاتے دیکھا۔ شیلنگ بدستور جاری تھی اور شور اتنا تھا کہ قاضی صاحب مائیک پر جو کچھ کہہ رہے تھے اس کا ایک لفظ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ یہاں مجھے مسلم لیگ (ن) کے اپنے پرانے دوست شیخ رشید ملے جو نوجوانوں کی ایک ٹولی کے ساتھ پیدل واپس پنڈی کی طرف جا رہے تھے۔ میں پھر موٹرسائیکل سے اترا اور انہیں رکنے کا اشارہ کیا۔ شیخ صاحب کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اور وہ بھی بار بار گیلے تولیے سے اپنی آنکھیں صاف کر رہے تھے۔ میں نے کہا شیخ صاحب! قاضی صاحب کا کیا حال ہے۔ شیخ صاحب نے کسی تکلف کے بغیر کھلے دل سے کہا‘ ضیا شاہد! قاضی صاحب کی ہمت اور حوصلے کی داد دینا پڑتی ہے۔ میں فیصلہ کر کے آیا تھا کہ آخر وقت تک ان کے ساتھ کھڑا رہوں گا مگر آنسو گیس اس قدر پھیپھڑوں میں جا چکی ہے کہ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ زبان سے پورا لفظ ادا نہیں ہو رہا۔ یار قاضی گوشت پوست کا نہیں لوہے کا بنا ہوا انسان ہے۔ بینظیر کی آمریت کے دن تو گنے جاچکے ہیں لیکن دعا کرو قاضی صاحب کو اللہ زندگی دے۔ جس حالت میں وہ کھڑے ہیں وہاں تو پانچ منٹ نہیں رکا جا سکتا۔
(جاری ہے)


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain