لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے وزیراعظم نوازشریف کو گوادر میں ترقیاتی منصوبوں کے اعلان پر مبارکباد دی لیکن اس کے ساتھ اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ علامتی طور پر جب گوادر پورٹ پر پہلا جہاز آیا تھا تو بہت شور مچا تھا، خبریں بھی شائع ہوئی لیکن اس کے بعد خاموشی چھا گئی ہے جس سے لگتا ہے کہ وہاں اب کام پہلے جیسی برق رفتاری سے نہیں ہو رہا۔ کوئی نہ کوئی کمی ضرور ہے۔ انہوں نے شہبازشریف کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان کی توجہ دلانے پر ملتان کڈنی سنٹر کا جائزہ لیا۔ مشینری کی تفصیلات منگوائیں اور ڈاکٹروں سمیت تمام عملے کو ہدایات بھی دیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب سے کہا تھا کہ صوبہ بھر میں جائزہ لیں، گردے کے مریض بہت زیادہ ہیں جبکہ ڈائیلاسز مشینیں بہت کم ہیں اور جو موجود ہیں وہ بھی اپنی مدت پوری کر چکی ہیں۔ ان کی انتظامی صلاحیتوں کا معترف ہوں، ان سے کوئی بات کی جائے تو وہ سنتے ہیں۔ تعلیمی وظائف پر جتنی رقم مختص کی وہ بھی خوش آئند ہے، انہوں نے ویلفیئر سٹیٹ کی طرف ایک اور قدم اٹھایا ہے لیکن ایسی تصاویر دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ شہباز شریف کسی یتیم یا بے سہارا بچی کے سر پر ہاتھ رکھ رہے ہیں، مالی امداد کر رہے ہیں، ایسی تصاویر کو اخبارات میں شائع کرانے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ حدیث بھی ہے کہ خیرات کے کام اس طرح سے کرو کہ ایک ہاتھ سے دو اور دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔ سرکاری ادارے بھی تاکید کرتے ہیں کہ اگر کسی بچی کے ساتھ زیادتی ہو تو اس کا نام نہ دیا جائے۔ دعا ہے کہ شہباز شریف اسی طرح بڑھ چڑھ کر نیکیاں کرتے رہیں لیکن اپنی انتظامیہ کو ہدایت کریں کہ کسی کو یتیم یا بے سہارا کہہ کر اس کی اخبارات میں تصاویر شائع نہیں ہونی چاہئے۔ اس طرح لوگوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے پہلے شوکت خانم ہسپتال کے قیام کیلئے ان کا بھرپور ساتھ دیا، وہاں سے اپنے پاﺅں کا ٹیسٹ بھی کروایا۔ وہاں جو نظام ہے وہ کسی اور ہسپتال میں نہیں، آپ جا کر اپنا نام دے کر انتظار کریں، باری آنے پر آپ کا نام مائیک پر پکارا جائے گا، ایسا نظام باہر کے ہسپتالوں میں ہے۔ وہاں ڈاکٹر کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جس مریض کا علاج کر رہا ہے وہ خود اخراجات برداشت کر رہا ہے یا ہسپتال اس کے علاج و معالجے کے اخراجات اٹھا رہا ہے۔ شہباز شریف سے درخواست ہے کہ اگر نیکی کرنی ہے تو پھر اس طرح سے کریں۔ انہوں نے کہا کہ 1947ءسے لے کر آج تک کسی سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے جج کو اتنی جرا¿ت و ایمانداری کے ساتھ براہ راست الزامات لگاتے نہیں دیکھا جس طرح سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سندھ حکومت پر لگائے۔ میرے اخبار میں بھی یہ خبر چھپی ہے، انہوں نے سندھ حکومت سے کہا کہ اتنی لوٹ مار کی گئی، اتنا نہ کھاﺅ کہ تمہارا پیٹ پھٹ جائے، انہوں نے یہ بھی ریمارکس دیئے کہ وہ خود لوگوں کی نشاندہی پر وہاں گئے جہاں گندا پانی، پینے والے صاف پانی میں شامل ہو رہا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جرا¿ت مندانہ ریمارکس پر ان کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں۔ کرپشن و بدنظمی بہت زیادہ ہے، سرکاری مشینری بھی فیل ہو چکی ہے لیکن اگر عدالتیں اتنی سختی کے ساتھ نوٹس لینا شروع کر دیں اور جسٹس قاضی فائز جیسے ایک دو جج اور آ جائیں تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ جسٹس نثار ثاقب بھی بہت اچھے جج ہیں۔ حیدرآباد میں ایک سپاہی کے گھر سے کروڑوں روپے اور 3 کلو سونا برآمد ہو رہا ہے، اگر کرپشن کا یہ لیول ہو گا تو کام کیسے ہو سکتا ہے۔ سندھ میں 9 سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، ابتداءسے ہی کراچی سے کچرے کی صفائی کا سن رہا ہوں، اب بحریہ نے صفائی کا کام شروع کیا ہے، اگر صوبائی دارالحکومتوں میں بھی صفائی کا کام صنعتکاروں نے کرنا ہے تو پھر حکومت نے کیا کرنا ہے؟ قائم علی شاہ نے بھی متعدد بار کہا تھا کہ صفائی کا کام شروع کرنے لگا ہوں، 3 ہفتوں میں کراچی صاف ہو جائے گا۔ اب مراد علی شاہ ہیں جو شروع شروع میں کافی بھاگ دوڑ کرتے رہے لیکن شاید اب وہ بھی تھک گئے ہیں۔ کراچی میں صفائی کا کام زیرو ہے۔ پچھلے دنوں سپریم کورٹ کے ایک جج کے ریمارکس اخبار میں پڑھے تھے کہ کیوں نہ صفائی کا کام ٹھیکے پر دے دیا جائے۔ دلچسپ بات ہے کہ اب ایک تجارتی ادارہ کراچی کو صاف کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف نااہلی ریفرنس مسترد کئے جانے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اچھی بات ہے، اب سردار ایاز صادق سے پوچھنا چاہئے کہ جو آپ نے کارنامہ انجام دیا تھا وہ تو ٹھس ہو گیا، آپ نے کیسی کارروائی کی۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو عمران خان اور جہانگیر ترین کا کیس سیاسی بنیادوں پر بھجوایا، جس کا کوئی جواز نہیں تھا جبکہ وزیراعظم کے خلاف ریفرنس کو خارج کر دیا تھا۔ سردار ایاز صادق نے الیکشن کمیشن کو جو ریفرنس بھیجا تھا اس میں کہیں نہں لکھا تھا کہ یہ میں ٹیکنیکل بنیادوں پر بھیج رہا ہوں، اپنی کوئی رائے دی نہ ہی اختیارات استعمال کئے، بس اتنا لکھا ہوا تھا کہ میری نظر میں یہ ریفرنس بنتا ہے۔ اس پر بھی الیکشن کمیشن نے 90 کے بجائے 160 دن لگا دیئے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق ہر پارٹی کو مکمل اختیار ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل درج کر سکتی ہے۔ پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ حقانی کے بیان پر کمیشن بننے پر کوئی اعتراض نہیں، خورشید شاہ نے بھی اس فیصلے کو خوش آمدید کہا ہے۔ حسین حقانی ان دنوں بہت سارے ٹی وی انٹرویوز میں کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کمیشن میں بھی بیان دیا تھا، اب بھی تیار ہوں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سی آئی اے کے ایجنٹوں کا نہیں بلکہ امریکیوں کے ویزے کا ذکر کیا تھا،یہ بھی کہا کہ پاکستان میں ایسے ایئرپورٹس موجود تھے جہاں ایف آئی اے امیگریشن نہیں ہوتی تھی لیکن امریکی وہاں آتے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ حسین حقانی پی پی دور میں امریکہ میں سفیر تھے، وہ نوازشریف اور مشرف دور میں بھی ان کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ خواجہ آصف صرف ایک سیاسی پاور شو کر رہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس کے سوال پر انہوں نے کہا کہ معاملات سندھ سے متعلق ہیں کوئی رائے نہیں دے سکتا، اب پنجاب کے صدر کی حیثیت سے ساری توجہ ادھر ہی ہے۔