ججز پر دباؤ کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط پر بنایا گیا انکوائری کمیشن بھی دباؤ کا شکار ہوکر بننے کے ساتھ ہی ٹوٹ گیا۔اس ملک کی بدقسمتی دیکھیں کہ ایسی تقسیم ہے کہ اب یہاں فیصلوں کے لیے کسی قسم کے قانون، آئین اور ضابطوں کی کوئی حیثیت باقی ہے نہ ان کی ضرور ت ۔فیصلے اب دباؤ کی بنیادپر ہی ہونا طے ہوئے ہیں۔ایک وفاقی وزیر نے تصدق جیلانی صاحب سے ایک نہیں دوبارہ پوچھا ۔ان کی رضامندی لی اس کے بعد کمیشن کے لیے ان کا نام سامنے لایا گیا۔ملک کے چیف جسٹس اورسینئرجج منصور علی شاہ نے تصدق جیلانی کو یہ اہم ترین کام سونپنے کی حمایت کی لیکن جیلانی صاحب نے وفاقی حکومت ،چیف جسٹس اور سینئر ترین جج کو شرمندہ کروانے میں ایک دن بھی نہیں لگایا اورایک پارٹی کی طرف سے اس کمیشن کو مستردکیے جانے اور سوشل میڈیا کی تنقید کے دباؤ میں آکراپنی دی ہوئی رضامندی اور سربراہی قبول کرنے کے بعد اپنی وعدہ خلافی کو قانونی رنگ دے کر پتلی گلی سے نکل گئے ۔اوج کمال یہ کہ اسی ملک میں ایک جج دہائی دیتا رہا کہ اس پر دباؤ ڈالا گیا ہے لیکن آج سوموٹو کے لیے خط لکھنے والے ساڑھے تین سو وکلا پانچ سال منہ میں دہی جماکربیٹھے رہے۔کیا یہ منافقت نہیں ہے؟اس جج کو نوکری سے برطرف کردیا گیا لیکن کسی وکیل کے منہ سے ایک لفظ مذمت کانہیں نکلا؟
جب طے ہوا ہے کہ فیصلے دباؤ کے نیچے ہی ہونے ہیں تو پھر ججز کا خط جس دباؤ کی بات کرتا ہے وہ غلط ہے یا ملک کے ججز جو فیصلے ایک پارٹی کے حق میں دیے جارہے ہیں وہ غلط ہیں؟ایک جج کو ریاست اس ملک کے عام ملازم سے چار گنازیادہ تنخواہ اورعمربھر کے لیے مراعات صرف اس لیے دیتی ہے کہ وہ لالچ میں آکر کسی کی ’’پیشکش‘‘ کو قبول نہ کربیٹھے۔ ججز کسی رغبت کی طرف راغب نہ ہوجائیں۔انہیں اتنا پیسا دیاجائے کہ ان میں لالچ ختم ہوجائے اور پھر دباؤ وغیرہ یا دھونس دھاندلی سے نمٹنے کے لیے ریاست کا قانون انہیں لامحدود اختیارات دیتا ہے لیکن اگر ججز نے یہ سارے اختیارات صرف ایک پولیس کانسیٹبل کو اپنی عدالت میں سامنے کھڑا کرکے ہی آزمانے ہیں تو پھر اختیارات کا کیا فائدہ اور اتنی مراعات کس لیے؟لوگ ،عوام اور یہ ریاست توقع کرتی ہے کہ ایک جج کو ہر طرح کے دباؤ کے سامنے ڈٹ جانا چاہئے لیکن ہمارے ہاں حالات مختلف ہیں۔
کمیشن کو اگر اپنا کام کرنے دیا جاتا تو پھر بھی یہی ہونا تھا کہ رپورٹ کے بعد معاملہ سپریم کورٹ میں ہی جانا تھا لیکن جلد بازوں نے جو کام آخرمیں ہونا تھا وہ پہلے شروع کرادیا ہے۔خیراب قاضی فائز عیسیٰ نے ازخود نوٹس لے کر بینچ بنادیا ہے جس نے آج سے سماعت شروع کردی ہے۔سپریم کورٹ میں ایک کیس ہے کہ چھ ججز نے الزام لگایا کہ ان پرریاستی اداروں کے اہلکار دباؤ ڈالتے ہیں تاکہ وہ اپنی مرضی کے فیصلے کرواسکیں۔ اب یہ الزام ہے تو اس کی تفتیش بھی کی جانی ہے اور سپریم کورٹ نہ ٹرائل کورٹ ہے اور نہ ہی کوئی تحقیقاتی ادارہ ہے۔تحقیقات کے لیے پھر کسی ادارے ایجنسی یا کمیشن کی طرف ہی جانا پڑے گااور یہ کیس بھی اسی طرف جائے گا۔
ٓآج سماعت شرو ع ہوئی ہے تو ابتدائی طورپرنوٹسز جاری کیے جائیں گے۔پھر اس کیس کو سننے کا کوئی طریقہ کارطے کیاجائے گا ۔اب یہ کوئی آئینی ایشو تو ہے نہیں کہ قانونی حوالے دے کر اس کی کوئی تشریح کردی جائے یا آئین کو دوبارہ لکھ دیا جائے۔یہ تو ایک کریمنیل کیس ہے جس میں الزامات کے شواہد پیش کرنے پڑیں گے یا شواہد تلاش کرنے پڑیں گے اور شواہد کی تلاش سپریم کورٹ کے کمرہ نمبرایک میں سات جج کے بیٹھنے سے تو نہیں ملیں گے اور نہ ہی ایسا ہوگا کہ سپریم کورٹ ریاستی اداروں کے اہلکاروں کو عدالت میں بلائے گی اور وہ سب اپنے ’’جرائم‘‘کا اعتراف کرلیں گے اور سپریم کورٹ انہیں کوئی سزاسنادے گی تو اللہ اللہ خیر صلیٰ۔۔
میں نے گزشتہ کالم میں بھی ذکر کیا تھا کہ جو الزام ان ججز نے لگایا ہے پاپولرتاثر یہی ہے اور اگر ایسا ہے تو اس کا سد باب کرنا لازمی ہے۔اب سد باب اس طرح ایک خط اور اس کے نتیجے میں کسی کمیشن یاسوموٹو نوٹس سے تو نہیں ہوگا۔اس کے لیے کچھ عملی کام کرنا پڑے گا۔ ایک کام تو ہوچکا ہے اور وہ ہے ججز کا اس ایشو کو سامنے لانا۔کسی بھی بیماری کے علاج کے لیے اس بیماری کا سامنے آنااور اس کی تشخیص ضروری ہوتی ہے ۔اب ججز نے اس کی ابتدائی تشخیص کردی ہے اورسپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے کرکیس کا بھی آغازکردیا ہے تومیرے نزدیک اس ایشو کو ختم کرنے کے لیے چند تجاوزیز ہیں۔
دباؤ والے مسئلے کو سمجھنے اوراس کے حل کے لیے ہم انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے انٹی کرپشن کے کوڈ کو سمجھتے ہیں۔ہم سب جانتے ہیں کہ دودہائیاں پہلے کرکٹ میں کس قدر کرپشن تھی۔ اسپاٹ فکسنگ تو بعد کی ایجاد ہے پورا پوامیچ فکس ہوجاتا تھا۔یہ ایشو اس قدر سنگین صورت اختیار کرگیا کہ آئی سی سی نے اس کی روک تھام کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کا فیصلہ کیا۔ان اقدمات میں پہلے کھلاڑیوں کی کونسلنگ کوکوڈ آف کنڈکٹ میں شامل کیا گیا ۔پھر صرف اس کونسلنگ کو دوسرے ممالک کے کرکٹ بورڈزپر نہیں چھوڑا گیا بلکہ آئی سی سی کے ماہرین خود ہر ملک جاتے اور جاکر کھلاڑیوں کو کرکٹ کرپشن پر لیکچردیتے ۔صرف لیکچر ہی نہیں بلکہ انہوں نے اس معاملے کو ہینڈل کرنے کے لیے سخت قوانین بنادیے اور بورڈ میں ایک انٹی کرپشن یونٹ قائم کردیا۔جو لوگ میچ فکس کرتے تھے ان پر تو زیادہ کنٹرول آئی سی سی کا نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ لوگ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور کونسل نے ان کے پیچھے بھاگ کر اپنی طاقت ضائع کرنے کی بجائے ان لوگوں کے پکڑے جانے کی صورت میں مقدمات چلانے اور متعلقہ ملک کے قوانین کے تحت سزائیں دلوانے کا کام شروع کیا ۔ مثال کے طورپرجب ہمارے کرکٹر سلمان بٹ،محمد آصف اورمحمد عامرکااسپاٹ فکسنگ کا کیس سامنے آیا تو برطانیہ میں ان کا ٹرائل ہوا اورسزائیں دی گئیں۔
آئی سی سی نے کرکٹرزکے لیے لازمی قانون بنادیا کہ اگر کوئی میچ فکسریابُکی کسی کھلاڑی سے کسی بھی ذریعے سے رابطہ کرتا ہے ،ملاقات کرتا ہے اور کسی قسم کی فکسنگ کی پیشکش کرتا ہے تو کھلاڑی کو کہا گیا کہ وہ آئی سی سی کے انٹی کرپشن یونٹ کورپورٹ کرکے بتائے کہ اس کو کسی نے یہ پیشکش کی ہے ۔اگر کوئی کھلاڑی اس یونٹ کو رضاکارانہ طوپربتادیتا ہے کہ تو کونسل اس کھلاڑی کے اس اقدام کی تعریف کرتی ہے اوراس پیشکش کرنے والے کو تلاش کرکے اس کو سزا دلوانے کی کوشش کرتی ہے ۔لیکن اگر کوئی کرکٹر کسی کے رابطہ کرنے یا پیشکش کورپورٹ نہیں کرتا ۔یا اس کو رپورٹ کے قابل نہیں سمجھتا اور آئی سی سی کو کسی قسم کا شک ہوجاتا ہے یا وہ اپنی جاسوسی کے ذریعے کسی کھلاڑی کو مشکوک سرگرمی میں مبتلادیکھ لیتی ہے تو ایسی صورت میں اس کھلاڑی کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی ہے اور اس کھلاڑی کو میچ فکسنگ کی کوشش میں ملوث قراردے کر کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگادیتی ہے۔ان اقدمات سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کرکٹ کا کھیل کس طرح جوئے اور میچ فکسنگ سے آزادہوگیاہے۔
اب آپ اسی فارمولے کے تحت ملک میں سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایک انٹی کرپشن یونٹ قائم کردیںاور ججز کو کھلاڑیوں کی جگہ پر رکھ کر یہ کوڈ آف انٹی کرپشن پوری قوت سے نافذکردیا جائے۔جس طرح کھلاڑی کو پابند بنایا گیا ہے کہ میچ فکسنگ کے لیے رابطہ کرنے یا ملاقات کرنے والے کی رپورٹ لازمی ہے اسی طرح اگر کسی جج سے کوئی بھی ریاستی اہلکار رابطہ کرتا ہے یا اس پر دباؤ ڈالتا ہے یہاں تک کہ کسی کیس پر بات بھی کرتا ہے تو اس جج کو پابند بنایا جائے کہ وہ اس کو فوری سپریم کورٹ کے یونٹ کو رپورٹ کرے اور سپریم کورٹ اس رپورٹ کی بنیادپراس شخص یا ادارے کے خلاف کارروائی کرے۔اور اسی طرح اگر کوئی جج رابطہ کرنے کو چھپاتا ہے یابتانے سے گریز کرتا ہے یا پھر اس شخص سے سازباز کرلیتا ہے تو یہ یونٹ اپنی انٹیلی جنس کے ذریعے پتہ چلائے اور اس جج کو نوکری لیے نااہل کردے۔
میرے خیال میں اگراس طرح کانظام قانون سازی کے ذریعے قائم کرلیا جائے تو رابطہ کرنے والے اور جن سے رابطے کیے جارہے ہیںدونوں اس قدر محتاط ہوجائیں گے کہ یہ کام آسان نہیں رہے گا۔یہ ایک تجویز ہے جس پر عمل ہوجائے تو دباؤ والے کام پرسیاست کی بجائے عملی طورپراس کام کو روکاجاسکتا ہے ۔بصورت دیگر یہ سپریم کورٹ کا کیس تو چل ہی رہا ہے تو یہ پکچر بھی ابھی باقی ہے۔۔