اسلام آباد(نیوز ڈیسک) وزارت ریلوے کے ایک بریج کی تعمیر کے منصوبے میں ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے قومی خزانے کے کروڑوں روپے ڈوب گئے، بغیر ڈیزائن منصوبے پر کام شروع کر دیا گیا، ڈیزائن میں تاخیر کے سبب 10کروڑ کا نقصان اٹھانا پڑا، پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی نے ڈیزائن میں تاخیر کے ذمے داروں کے تعین کی ہدایت کرتے ہوئے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کر لی، پی اے سی ذیلی کمیٹی نے ملک بھر میں ریلوے پھاٹک کی تنصیب کیلئے نجی تشہیری کمپنیوں سے بات کرنے کی تجویز دے دی، رکن کمیٹی رشید گوڈیل نے کہا کہ نجی اشتہاری کمپنیاں پھاٹک لگا کر اس پر اپنے بینرز لگا لیں، ان سے بدلے میں تشہیری ٹیکس اور سرچارج وصول نہ کئے جائیں، انکی تشہیر اور ریلوے کے پھاٹک لگ جائیں گے،دونوں کا فائدہ ہے، ریلوے حکام نے تجویز پر غور کی یقین دہانی کروا دی۔پارلیمنٹ کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا ذیلی کمیٹی کا اجلاس بدھ کو عارف علوی کی کنونیئر شپ میں پارلیمنٹ ہاﺅ س میں ہوا جس میں وزارت ریلوے کے مالی سال2009-10 کے آڈٹ عتراضات کا جائزہ لیا گیا، کمیٹی اجلاس میں ممبران عبدالرشید گوڈیل، شاہدہ اختر علی ، شیخ روحیل اصغر، وزارت ریلوے، خزانہ ، منصوبہ بندی، آڈٹ حکام سمیت متعلقہ افراد نے شرکت کی۔آڈٹ حکام نے بتایا کہ مالی سال 2006-07میں وزارت نے پشتوں کی کھدائی سے متعلق ایف ڈبلیو او سے دو معاہدے کئے جس میں پیپرا رولز کی دھجیاں اڑائی گئیں، جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو 36کروڑ سے زائد کا نقصان ہوا، محکمانہ آڈٹ کمیٹی نے اس کا سخت نوٹس لیا، اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کیلئے پرنسپل اکاﺅنٹنٹ کی سطح پر انکوئری کی ہدایت کی اور ایک ماہ میں رپورٹ طلب کی۔ سیکرٹری ریلوے نے کمیٹی کا آگاہ کیا کہ یہ منصوبہ سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے دور میں سنگل ٹینڈر کے ذریعے ایف ڈبلیو او کو دے دیا گیا، اس منصوبے کی وزیر اعظم سے منظوری لی گئی تھی۔ ذیلی کمیٹی نے ہدایت کی ایک ماہ کے اندار تحقیقات کی جائے کہ کس کی غفلت کی وجہ سے قومی خزانے کو نقصان ہوا، رپورٹ کمیٹی کو پیش کی جائے۔آڈٹ حکام نے بتایا کہ ریلوے کے خانیوال تا راولپنڈی سیکشن پر ایک بریج کی تعمیر 2006میں شروع کر دی گئی جب کہ اس منصوبے کا ڈیزائن ایک سال بعد 2007میں بنا، ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے اس منصوبے میں قومی خزانے کو 10کروڑ کا نقصان ہوا۔ریلوے حکام نے کہا کہ منصوبے کا ٹینڈر ہونے سے قبل ہی نجی کمپنی غلام سرور اینڈکو نے منصوبے پر کام شروع کر دیا۔ کنونیئر کمیٹی عارف علوی نے کہا کہ ٹینڈر اور ڈیزائن بعد میں بنایا گیا جبکہ کام پہلے شروع کر دیا گیا یہ تو اسی طرح ہے کہ عمارت کی تعمیر شروع کر دی جائے اور یہ نہ پتا ہو کہ کتنی منزلیں بنانی ہیں۔رکن کمیٹی رشید گوڈیل کے سوال پر ریلوے حکام نے بتایا کہ غلام سرور اینڈکو ریلوے کا ریگولر کنٹریکٹر ہے۔ذیلی کمیٹی نے ہدایت کی ڈیزائن بنانے میں کس نے تاخیر کی اس کے ذمے داروں کے تعین کیلئے انکوائری کی جائے اور رپورٹ ایک ماہ میں کمیٹی کو پیش کی جائے۔آڈٹ حکام نے آگاہ کیا کہ ریلوے نے 2007میں ٹریک میں لگانے کیلئے لکڑی خریدنے کا ایک ٹھیکہ کم بڈنگ والے ٹھیکیدار کو دینے کی بجائے تیسرے کم بڈنگ والے ٹھیکدار کو دے دیا، جس سے قومی خزانے کو 2کروڑ60لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ رکن کمیٹی شاہدہ اختر علی نے کہا کہ ریلوے کے پاس اپنی اتنی زمین ہے یہ خود لکڑے پیدا کریں، باہر سے خریدنے کی کیا ضرورت ہے۔ حکام نے بتایا کہ ٹریک میں شیشم اور چیڑ کی لکڑی استعمال پر پابندی ہے، اس لئے باہر سے خریدنا پڑی۔ ذیلی کمیٹی نے یہ معاملہ آڈٹ سے تصدیق کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے نمٹا دیا۔اجلاس میں رکن کمیٹی عبدالرشید گوڈیل ریلوے پھاٹک نہ ہونے کے باعث حادثات پر پھٹ پڑے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کوشش کر رہے ہیں، ریلوے پھاٹک پھر بھی نہیں لگ رہے، دو یا تین ملین کے آڈٹ اعتراضات پر ریلوے کی توجہ ہے، انسانی جانوں پر کیوں نہیں، انسانی جان اس سے کہیں قیمتی ہے۔ ریلوے حکام نے بتایا کہ ملک بھر میں ریلوے پھاٹک لگانے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم مشکلات کا سامنا ہے، ایک تو یہ صوبائی معاملہ ہے، دوسرا پھاٹک لگانے کیلئے فنڈ بھی نہیں ہیں۔ رشید گوڈیل نے کہا کہ کام کرنا ہو تو بہت سارے راستے، نہ کرنا ہو تو بہت سارے بہانے ہوتے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ آپ اس سلسلے میں نجی اشتہاری کمپنیوں سے بات کریں ، وہ پھاٹک لگا کر اس پر اپنے بینرز لگا لیں، ان سے بدلے میں تشہیری ٹیکس اور سرچارج نہ وصول کریں، انکی تشہیر اور اپ کے پھاٹک لگ جائیں گے،دونوں کا فائدہ ہے۔ کنونیئر کمیٹی عارف علوی نے بھی رشید گوڈیل کی تجویز کی حمایت کی جس پر ریلوے حکام نے یقین دہانی کروائی کہ تجویز پر غور کریں گے ۔ عارف علوی نے سیکرٹری ریلوے سے کہا کہ آپ کی خوش قسمتی ہے سارے پیرے سیٹل ہوتے جا رہے ہیں، لیکن کہیں پر تو کسی کو پکڑنا پڑے گا۔
