اسلام آباد (اے پی پی) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ‘ اداروں‘ میڈیا سمیت پوری قوم کو ملکر اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے۔ اسلام کسی دوسرے مذہب کو برا کہنے کی اجازت نہےں دیتا اور نہ ہم کسی دوسرے مذہب کے ساتھ جنگ چاہتے ہیں، بطور مسلمان ہمیں اپنے مذہب کا دفاع کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ بھارت مختلف ممالک اور قومیتوں کے درمیان تفرقات ڈالنے سمیت پاکستان کے خلاف کئی محاذوں پر سازشیں کررہا ہے بحثیت مسلمان اور پاکستانی ہمیں ان سازشوں کا اداراک کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاﺅس میں ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سمیت وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمن ایڈوکیٹ اور دیگر متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔ فیس بک سمیت سوشل میڈیا پر توہین آمیز موادکے حوالے سے چیئرمین پی ٹی اے اسماعیل شاہ نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے گستاخانہ مواد کو کوئی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا اور اس سے ہماری دل آزاری ہوئی ہے اس حوالے سے وزارت مذہبی امور میں سیل نے کام شروع کردیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 15 فیصد گستاخانہ مواد فیس بک جبکہ 85 فیصد دیگر ویب سائٹس پر ہے۔ فیس بک انتظامیہ کو گستاخانہ مواد کے حوالے سے فوکل پرسن دے دیا ہے۔ فیس بک انتظامیہ نے پاکستان آکر اس معاملے کا جائزہ لینے کے لئے وزارت داخلہ کے خط بھی لکھ دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ فیس بک انتظامیہ جب پاکستان کے دورے پر آئی تو ان کے سامنے مزید ایشوز پر بھی بات ہوگی۔ اس حوالے سے اقدامات مذہبی فریضہ سمجھ کر اٹھائے جارہے ہیں۔ عوامی شکایات کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی لنکس کو بلاک کیا گیا ہے۔ گستاخانہ مواد کی سختی سے مانیٹرنگ کی جارہی ہے۔ پی ٹی اے کے 25 افسران اس پر کام کررہے ہیں۔ اس موقع پر ارکان کے سوالوں کے جواب میں وزیر مملکت انوشہ رحمن ایڈوکیٹ نے کہا کہ گستاخانہ مواد پر مبنی فلم کے حوالے سے یوٹیوب کو بند کیا گیا تھا۔ این جی اوز نے بین الوزارتی کمیٹی کو چیلنج کیا ہے ہم صارفین کے آن لائن اور آف لائن حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں۔ہم بطور مسلمان سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کو ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کرسکتے‘ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ نے سائبر کرائم بل منظور کیا ہے، ہم نے بل کا جو مسودہ پارلیمنٹ میں پےش کیا تھا پارلیمنٹ نے اس میں طویل بحث کے بعد ترامیم کیں جس کے بعد بل میں شامل اقدامات صرف 40فیصد منظور ہوئے۔ حالانکہ توہین رسالت اور بچوں کے خلاف جرائم کے حوالے سے سیکورٹی اداروں کو مکمل اختیار دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پوری قوم کو ملکر توہین آمیز مواد کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سائبر کرائم بل کے تحت ہم پاکستان میں تو اقدامات اٹھا سکتے ہیں مگر جن ممالک سے یہ ہو رہا ہے وہاں یہ قانون لاگو نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی سائبر کرائم بل کے بعد ڈیٹا پروٹیکشن کا قانون بھی منظوری کے لئے جلد پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔ یہ بھی متنازعہ معاملہ ہے اور پارلیمنٹ اس معاملے پر بھی حمایت درکار ہوگی۔ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ مذہب کی توہین سوچنے والا بھی جہنمی ہے، عالم اسلام کو ملکر اسے روکنا ہوگا۔ کمیٹی اس معاملے کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ آزادی اپنی جگہ مگر مذہب اور انبیاءکی توہین کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ ذرائع ابلاغ سمیت ملک کے ہر فرد کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہم دوسرے مذہب سے جنگ نہیں چاہتے تاہم ہمیں اپنے مذہب کا دفاع کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ بھارت مختلف ممالک اور قومیتوں کے درمیان تفرقات ڈالنے سمیت مختلف محاذوں پر پاکستان کے خلاف سازشیں کررہا ہے ہمیں ان سازشوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ سائبر کرائم سمیت اس طرح کے مواد کی روک تھام کے لئے ایف آئی اے اور دیگر ایجنسیوں کو سوشل میڈیا کے مواد کی مانیٹرنگ کرنی ہوگی۔پی ٹی اے کے چیئرمین اسماعیل شاہ نے کہا کہ اگر ہم بھاری تنخواہوں پر ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہیں تو آڈٹ اور پی اے سی رکاوٹ ڈال دیتی ہے۔ انٹرنیٹ پر اس طرح کے مواد کو روکنے کے لئے بھاری تنخواہ پر ماہرین کی خدمات حاصل کئے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ اس پر کمیٹی کے چیئرمین شاہی سید نے کہا کہ آپ کے جو مطالبات ہیں، آپ تجویز بنا کر پارلیمنٹ میں پیش کریں۔ تاہم آپ اقدامات اٹھانے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ بھی ہیں۔
