وزیرِاعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لیے کڑوے فیصلے کرنا پڑے، ہم نے ریاست کو سیاست پر ترجیح دے کر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے خیبر پختون خوا کے قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان سے اسلام آباد میں ملاقات کیا۔
بلاشبہ وزیراعظم شہباز شریف کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں بہتری کے آثار آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے اور ملکی معیشت کی گاڑی کو پٹڑی پر چڑھانے میں کامیاب رہی ہے۔
وزیرِاعظم میاں شہباز شریف مختلف مواقعے پر اس ضمن میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ معاشی مسائل کی بنیادی وجوہات کو دورکرنے اور مہنگائی، بجٹ خسارہ و قومی قرضوں میں کمی کے لیے حکومت کو ذمے دارانہ مالیاتی پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آمدنی بڑھانے کے لیے ٹیکس وصولی اور اخراجات کے انتظام کو بہتر بنانا بھی ضروری ہے۔ ترقی کے سفرکو تیزکرنے کے لیے چین، سعودی عرب، خلیجی اور وسط ایشیائی ریاستوں سمیت ترکی، ایران اور امریکا جیسے دوست ممالک کے تعاون سے برآمدات میں اضافے کے لیے کوششوں کو عملی شکل دینے کے لیے نئی ٹیکنالوجیز متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں ایس آئی ایف سی جس کی تشکیل میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیرکا بڑا ہاتھ ہے اور وزیرِاعظم کی سربراہی میں اس کی اپیکس کمیٹی کے وہ رکن بھی ہیں کا کردار بھی بڑا نمایاں اور مثبت چلا رہا ہے۔ بلاشبہ زراعت، مویشی بانی، معدنیات،کان کنی،آئی ٹی اور ٹیلی کام کے شعبوں میں اصلاحات لا کر ان کو ترقی دینے اور ملکی پیداوار میں اضافہ کرنے کے حوالے سے ایس آئی ایف سی کے پلیٹ فارم سے کی جانے والی کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہو رہی ہیں۔ اسمگلنگ کی روک تھام، ٹیکس چوروں اور بجلی چوروں کے خلاف کارروائی اور زرعی پیداوار بالخصوص کپاس کی پیداوار میں اضافہ اور گندم کی موجودہ فصل کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافے کے حوالے سے ایس آئی ایف سی کے مثبت کردار کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔
طویل مدتی سرمایہ کاری کے لیے حکمتِ عملی بنائی گئی ہے جس میں نوکر شاہی کا عمل دخل کم کرکے تیز تر عمل در آمد کے لیے پاکستانی فوج کی مہارتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افقی اور عمودی ارتباط کو حاصل کیا جائے گا۔ توانائی کے شعبے میں سبسڈیز کے خاتمے، مالی نظم و ضبط قائم کرنے سے معاشی استحکام آنا شروع ہوا ہے۔ جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹیکس کی شرح کم ہے۔ ٹیکس سطح میں کمی کے باوجود ٹیکس وصولی میں کم خلا دیکھا گیا۔ ترقیاتی بجٹ کے لیے وسائل کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے بہتر ٹیکس پالیسیوں، انتظامی اقدامات کے ساتھ مجموعی سماجی و معاشی ترقی اور پبلک گورننس میں بہتری کی ضرورت ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جرات مندانہ مالیاتی اصلاحات ممکنہ طور پر نئے مالی ماحول میں جی ڈی پی کا 12 فیصد سے زیادہ حصہ پیدا کر سکتی ہیں۔ یہ انسانی ترقی کے خلا کو دورکرنے کے لیے درکار اضافی وسائل سے تین گنا زیادہ ہے۔ پاکستان کے پبلک فنانس کو زیادہ پائیدار بنیادوں پر رکھنا بالآخر مضبوط معاشی ترقی کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔پاکستان کو زیادہ متحرک اورکھلی معیشت کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔
ایک چیلنجنگ کاروباری ماحول سرمایہ کاری کو روکتا ہے، جیسا کہ مسابقتی مارکیٹوں میں مضبوط ریاستی موجودگی لازمی ہے۔ ٹیکس کی خرابیاں پیداواری سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی بھی کرتی ہیں اور رئیل اسٹیٹ جیسے غیر تجارتی شعبوں کی حمایت کرتی ہیں۔ پیداواری اثاثوں کی فروخت میں تیزی لانا یا غیر ملکی سرمایہ کاری کے سودوں کو منتخب طور پر راغب کرنا قلیل مدت میں انتہائی ضروری زرمبادلہ کے ذخائر لا سکتا ہے، لیکن دیرپا اثرات کے لیے کم سرمایہ کاری اور پیداواری نمو میں کمی کے پیچھے بنیادی مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہوگی ۔
موسمیاتی تبدیلی اور پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کے پیش نظر غذائی تحفظ کے تحفظ کے لیے زراعت کے شعبے کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔ موجودہ سبسڈیز، سرکاری خریداری اور قیمتوں پر پابندیوں نے کسانوں کو کم قیمت، غیر متنوع کاشتکاری کے نظام اور پانی کی ضرورت والی فصلوں میں پھنسا دیا ہے۔ ان سبسڈیز کو عوامی اشیاء جیسے بیجوں، ویٹرنری سروسز، ایریگ پر تحقیق میں دوبارہ مختص کیا جانا چاہیے۔ تجدیدی زراعت کو فروغ دینا اور مربوط زرعی ویلیو چینزکی تعمیر اور نکاسی آب کی خدمات۔ اس طرح کے اقدامات پیداواری فوائد پیدا کرسکتے ہیں، آن اور آف فارم آمدنی کو بڑھا سکتے ہیں اور پاکستان کو موسمیاتی جھٹکوں کے خلاف زیادہ لچکدار بنا سکتے ہیں۔
توانائی کے شعبے کی نااہلیوں کو تیزی سے اور مستقل طور پر دورکرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ وہ طویل عرصے سے عوامی وسائل کا ضیاع رہے ہیں۔ ٹیرف میں حالیہ اضافے نے غریب صارفین کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے نقصانات کو محدود کرنے میں مدد کی ہے، لیکن بڑے ڈسٹری بیوشن اور ٹرانسمیشن نقصانات، اعلیٰ پیداواری لاگت کے ساتھ مل کر اس شعبے کو پائیدار بنیادوں پر رکھنے کے لیے کم کرنا ہوگا۔ خوش قسمتی سے پاکستان کو سستے ترین پن بجلی اور شمسی توانائی کے وسائل تک رسائی حاصل ہے۔
ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی، جو صرف اسی صورت میں آئے گی جب تقسیم اور ترسیل کے نظام میں دیرینہ مسائل کو حل کیا جائے گا، خاص طور پر زیادہ نجی شراکت داری کے ذریعے۔ اس کے علاوہ، اخراجات کی وصولی کے لیے ضروری ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کو سیاست سے بچانا ہوگا، تاکہ طویل مدت میں سرمایہ کاروں کے لیے قابل اعتماد ترغیبات فراہم کی جا سکیں۔ یہ تمام پالیسی تبدیلیاں صرف وفاقی سطح پر حاصل نہیں کی جا سکتیں۔ مقامی حکومتوں کو انتہائی ضروری مقامی خدمات میں سرمایہ کاری کے لیے فنڈز جمع کرنے اور موثر طریقے سے مختص کرنے کی صلاحیت کے ساتھ بااختیار بنانے کی ضرورت ہوگی۔
درحقیقت پاکستان کی معیشت کا تمام تر انحصار عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کے تعاون پر منحصر ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں پر ہمارے مالیاتی انحصارکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے مجموعی بیرونی قرضوں کا حجم 64 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے محفوظ ذخائر 9 ارب ڈالر تک محدود ہیں۔ اسی طرح بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ہمیں سالانہ کم ازکم 22 ارب ڈالر درکار ہیں۔ ان حالات میں پاکستانی عوام کو سستی بجلی،گیس، خوراک، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی ممکن نہیں ہو پا رہی کیونکہ ہمارے قومی محاصل کا حجم ہماری ضروریات کے لیے درکار وسائل کی نسبت انتہائی کم ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ ہر سال ہمیں اربوں ڈالر پہلے سے لیے گئے بیرونی قرضوں کی اقساط اور ان کے سود کی ادائیگی کے لیے درکار ہیں۔ پاکستان کو موثر نفاذ اور پائیدار ترقی کے لیے واضح اہداف، ٹائم لائنز اور نگرانی کے طریقہ کارکے ساتھ ایک جامع طویل المدتی اقتصادی ترقی کی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، پاکستان کو اپنے انسانی سرمائے کے بحران سے نمٹنا ہوگا۔ سات فیصد بچے اپنی پانچویں سالگرہ سے پہلے ہی مرجاتے ہیں جو کہ ان ممالک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔
پانچ سال سے کم عمرکے 40 فیصد بچے نشوونما میں کمی کا شکار ہیں جب کہ غریب اضلاع میں یہ شرح 50 فیصد سے زیادہ ہے۔ ایک دہائی میں اسٹنٹنگ کی شرح کوکم کرنا ممکن ہے، لیکن اس کے لیے صرف غذائیت اور صحت پر روایتی توجہ سے ہٹ کر صاف پانی اور صفائی ستھرائی، پیدائش کے وقفے کی خدمات اور بہتر طرز زندگی اور حفظان صحت کے ماحول تک وسیع تر رسائی فراہم کرنے کی ضرورت ہوگی۔ خدمات کی فراہمی اور انسانی سرمائے کی ترقی میں بہتری لانے کے لیے، پاکستان کو مزید مالی گنجائش پیدا کرنا ہوگی۔ دہائیوں سے ٹیکس وصولی جی ڈی پی کے 10 فیصد سے کم رہی ہے۔
مہنگے ٹیکس استثنیٰ کو ختم کرنے اور تعمیل کے اخراجات کو کم کرنے سے اضافی محصولات میں جی ڈی پی کا تقریبا 3 فیصد حصہ تیزی سے پیدا ہوسکتا ہے۔رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ریٹیل جیسے کم ٹیکس والے شعبوں سے صوبائی اور مقامی سطح پر مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔ اخراجات کی بچت عوامی وسائل کے زیادہ موثر انتظام سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ خسارے میں چلنے والے زیادہ تر سرکاری اداروں کی نجکاری کی جانی چاہیے۔ زراعت اور توانائی کے شعبوں میں ناقص اہداف پر مبنی سبسڈیز میں کٹوتی کی جانی چاہیے جب کہ غریب ترین افراد کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔ وفاقی اور صوبائی اخراجات کے درمیان فرق کو بھی کم کیا جانا چاہیے۔
ان اقدامات سے سالانہ جی ڈی پی کی مزید 3 فیصد کی بچت ہوسکتی ہے۔ ملک کی معیشت کی بحالی کے لیے جامع اور پائیدار ترقی کا فروغ ناگزیر ہے اور ملکی معیشت کی ترقی و خوشحالی کے لیے ہمیں خود انحصاری کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ ہمیں قرضوں اور غیر ملکی امداد پر انحصار کم کرنا ہوگا۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے جتنی زیادہ ملک میں سرمایہ کاری و تجارت ہو گی اتنا ہی ملک کی معاشی و سماجی ترقی میں بہتری آئے گی۔ ہمیں موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی سے ہم سب کی ترقی ممکن ہے۔ استحکام کی نئی علامات کو پنپنے اور ایک عام شہری تک اس کے ثمرات پہنچانے کے لیے پالیسیوں میں تسلسل اور مستقل مزاجی کی اشد ضرورت ہے۔