قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کو تباہ و برباد کرنے میں ادارے کے انجینیئرنگ ڈیپارٹمنٹ کا کردار سب سے زیادہ سامنے آیا ہے۔
پاکستان کے مختلف ایئرپورٹس پر کھڑے 14 خراب جہازوں کو ٹھیک کرانے کے بجائے ماہانہ کروڑوں اور اربوں روپے لیزنگ کی رقم تو ادا کی جا رہی ہے مگر چند کروڑ روپے بروقت خرچ کرکے ان کو گراونڈ ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات ہی نہیں کیے گئے۔
پی آئی اے کے انجینیئرز جہازوں کو واشنگ ایریا کے بجائے ہینگرز میں کھڑا کرکے ہی دھوتے رہے، جہازوں کے انجن کو کولنگ سسٹم کے بجائے اے سی وین سے ٹھنڈا کیا جاتا رہا جس سے انجن میں کریک آگیا اور اڑنے کے قابل نہیں رہے، کسی جہاز کا لینڈنگ گیئر خراب تو کسی کا مسافروں کو ٹھنڈی ہوا دینے کا سسٹم خراب، لیزنگ کے جہازوں کو گراونڈ کر دیا گیا جن کی ماہانہ لیزنگ فیس 3 لاکھ ڈالر تک ادا کی جا رہی ہے۔
ایکسپریس نیوز کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق پی آئی اے اربوں روپے کے خسارے میں جانے کے باوجود اپنے خسارے کو کم کرنے پر تیار ہی نہیں۔ پی آئی اے کے 34 میں سے 14 جہاز جس میں بوئنگ ٹرپل 777، ایئر بس ٹی 20 اور اے ٹی آر شامل ہیں وہ گراؤنڈ ہو چکے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ان میں وہ طیارے بھی شامل ہیں جن کی لیز کی رقم 3 لاکھ ڈالر تک ادا کی جاتی ہے یعنی کہ ماہانہ کروڑوں و اربوں روپے لیز کی رقم اور سول ایوی ایشن کو لینڈنگ پارکنگ چارجز کی مد میں ادا کیے جا رہے ہیں۔
پی آئی اے کا انجینیئرنگ ڈیپارٹمنٹ خواب خرگوش میں ایسا سویا ہوا ہے کہ آج تک اس کی نیند پوری ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی یعنی جن جہازوں سے پی آئی اے نے کمائی کرنی تھی ان جہازوں کو ہی گراؤنڈ کر دیا گیا۔ ان میں سے بوئنگ ایئر بس جہاز تو ایسے ہیں جن کے دو دو تو کسی کا ایک ایک انجن سمیت لینڈنگ گیئر اور کولنگ سسٹم تک نکال کر صرف ڈھانچہ کھڑا ہوا ہے۔
رپورٹ میں ایسے انکشافات بھی سامنے آئے کہ جو اے ٹی آر جہاز خریدے گئے ان کے انجن انتہائی گرم ہو جاتے تھے کیونکہ یہ پاکستان کے درجہ حرارت اور ماحولیات کے مطابق نہیں تھے۔ ان کے انجن کو ٹھنڈا کرنے کے لیے باقاعدہ کول وین کا استعمال کیا گیا، ٹھنڈا کرنے کے لیے سسٹم کے بجائے اے سی وین کے ذریعے ان کو ٹھنڈا کیا گیا جس کی وجہ سے ان کے انجن میں کریک پڑ گیا اور ان کو گراؤنڈ کرنا پڑا۔ انہی اے ٹی آر کی ماہانہ لاکھوں ڈالر لیز کی رقم ادا کی جا رہی ہے۔
اسی طرح ایئر بس کے ساتھ بھی معاملہ ہوا کہ ان میں جو چھوٹی موٹی خرابی پیدا ہوتی رہی، پی آئی اے کا انجینیئرنگ ڈیپارٹمنٹ خاص طور پر ان کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ علی عامر جو سال 2014 سے تعینات ہیں، نے بروقت فیصلے ہی نہیں کیے اور یہی کہا جاتا رہا کہ پی آئی اے کے پاس پیسے نہیں ہیں، پی آئی اے کی مالی حالت خراب ہے جبکہ پی آئی اے کے جہاز خراب ہونے کی وجہ سے ہی مالی خسارہ بڑھا۔
رپورٹ کے مطابق گراونڈ ہونے والے جہازوں میں دو بوئنگ جہاز مارچ 2020 میں، ایک جہاز سال 2021 میں، دو جہاز 2023 میں اور ایک جہاز 2024 سے خراب کھڑا ہے۔ اے ٹی آر میں سے پانچ لیز پر لیے گئے اور پانچ خریدے گئے، ان میں سے دو جہازوں کی لیزنگ کا وقت ختم ہو چکا ہے اور کمپنی کو واپس کرنے ہیں مگر اس قابل نہیں کہ واپس کیے جائیں۔
دوسری طرف ان جہازوں کے ’’ایئروردی نیس سرٹیفکیٹ‘‘ کی معیاد بھی ختم ہو چکی۔ کمال کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں جہازوں کو واشنگ ایریے میں دھویا جاتا ہے لیکن پی آئی اے کے انجینیئرز نے ان کو ہینگر پر ہی دھونا شروع کر دیا۔ کھارا پانی ہونے کی وجہ سے جہازوں کو زنگ لگنا شروع ہوگیا اور زنگ آلود ہونے کی وجہ سے جہاز کی باڈی خراب ہوگئی۔ شکایت ہوئی، انکوائریز بھی شروع ہوئیں مگر یہ انکوائریز مکمل ہونے کے باوجود نقصان پہنچانے والے کسی انجینیئر اور ملازم کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی یعنی پی آئی اے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے والے آج بھی پرکشش عہدوں پر فائز ہیں اور پی آئی اے کی نجکاری کا انتظار کر رہے ہیں۔
پی آئی اے ذرائع کے مطابق آج تک پی آئی اے انجینیئرنگ ڈیپارٹمنٹ کا تفصیلی آڈٹ ہی نہیں کیا گیا، اگر آڈٹ ہو تو مزید حیران کن انکشافات سامنے آئیں گے۔ پی آئی اے کے انجینیئرنگ ڈیپارٹمنٹ کو تبدیل کرکے انجینیئرنگ بزنس ڈویلپمنٹ اینڈ ڈیزائن بنا دیا گیا تاکہ غیر ملکی ایئر لائنز کے جہازوں کی بھی ری پیئر مینٹیننس اور دیگر انجینیئرنگ کی سروسز فراہم کی جائے گی اور پی آئی اے کی آمدنی کا ذریعہ بھی بنے گی مگر اس انجینیئرنگ ڈیپارٹمنٹ نے غیر ملکی ایئر لائنز کے جہازوں کو کیا سروس فراہم کرنا تھی، اس نے تو اپنے ہی جہازوں کو خراب کر کے گراونڈ ہونے پر مجبور کر دیا۔