اسلام آباد، کوئٹہ، چمن (خصوصی رپورٹ) چمن بارڈر پر افغان فورسز کے حملے کے خلاف ملک بھر میں شدید غم و غصے کی لہر ہے اور اس حوالے سے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی جاری ہیں۔ سیاسی، عسکری قیادت نے افغان حکام سے شدید احتجاج کیا جبکہ حالات اس بات کا واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ یہ کارروائی بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی (را) نے کرائی ہے اور بھارت نے پاکستان پر چھپ کر وار کیا۔ پاکستان کے اعلیٰ سطح کے سیاسی اور عسکری وفد کی کابل آمد اور افغان انتظامیہ کے ذمہ داروں سے ملاقاتوں کا عمل اور اپنی اپنی سرزمین کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کا عزم کچھ فورسز کو کھٹک رہا تھا جو افغان سرزمین کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے اپنے مفادات یقینی بنانا چاہتی ہیں۔ وہ کیسے یہ ہضم کریں گی کہ پاکستان اور افغانستان مل بیٹھیں، مسائل کا حل مل کر نکالیں اور ایک دوسرے کے اندرونی استحکام میں مدد کریں۔ پاکستانی سیاسی وفد خوشی خوشی واپس آیا تھا کہ چمن بارڈر پر کارروائی ہوگئی۔ حالات و واقعات سے ثابت یہی ہورہا ہے کہ پاکستان اپنے مفاد میں ہر قیمت پر افغانستان میں امن کا خواہاں ہے اور وہ اسے اکنامک کوریڈور کی کامیابی اور خطہ میں اثرات کے لیے لازم سمجھتا ہے اور ظاہر یہ ہورہا ہے کہ پاکستان کی یہ خواہش اور سنجیدگی بھی اس کی کمزوری بنتی جا رہی ہے اور افغانستان اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت اس کا فائدہ اُٹھا رہا ہے اور بھارت سرپرستی کررہا ہے جبکہ آئی ایس پی آر کے مطابق جمعہ کی صبح چار بجے ایف سی کے سکیورٹی دستے پاکستانی علاقے کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں مردم شماری کی ٹیموں کے لئے سکیورٹی فرائض کی ادائیگی پر پہنچے تو افغان فورسز نے ایف سی کے دستوں پر بلااشتعال فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں ایک خاتون 2بچوں سمیت 9 شہری جاں بحق ہو گئے جبکہ چار بلوچ ایف سی اہلکاروں اور بچوں و عوتوں سمیت50سے زائد افراد مزید فائرنگ کی زد میں آ کر شدید زخمی ہو گئے ۔ جنہیں طبی امداد فراہم کرنے کے لئے کوئٹہ ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جہاں پر شدید زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی جارہی ہے تاہم بعض زخمیوں کی حالت نازک ہے ۔ سرحد پر کشیدہ صورت حال کے پیش نظر پاک افغان بارڈر کو بند کر دیا گیا افغان فورسز کی جانب سے واضح طورپر سویلین آبادی پر مارٹر گولے پھینکے گئے فائرنگ کا سلسلہ تاحال جاری ہے جبکہ پاک فوج کی جانب سے بھی افغان فورسز کا بلااشتعال فائرنگ کا منہ توڑ جواب دیا گیا جس کے نتیجے میں افغان فورسز کے متعدد اہلکاروں کی ہلاکت کی اطلاع ہے اور افغان فورسز کی متعدد چوکیاں بھی تباہ کر دی گئی ہیں اور افغان فوجی اپنی چوکیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے دوسری جانب پورے شہر میں دکانیں اور اہم تجارتی مراکز بند کردیئے گئے اور چمن شہر کو چھوڑ کر نقل مکانی کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ قلعہ عبد اللہ کے سرحدی دیہات میں مردم شماری روک دی گئی ہے اور آج چمن میں ہڑتال رہی۔ تمام سرکاری اور نجی سکول بھی غیرمعینہ مدت تک بند کر دیئے گئے۔ بلوچستان میں ضلع قلعہ عبداللہ کے2 سرحدی دیہات میں مردم شماری روک دی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ثناءاللہ زہری کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد سکیورٹی خدشات کے باعث بند کی گئی ہے۔ مردم شماری ہر صورت میں مکمل کریں گے۔ زخمیوں کے علاج معالجے اور نقصانات کے ازالے کیلئے صوبائی حکومت نے 15 کروڑ روپے جاری کردئیے ہیں۔ پاکستان فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی ایک پریس ریلیز کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن کے درمیان رابطہ ہوا اور پاکستان کے ڈی جی ایم او میجر جنرل شیر شمشاد مرزا نے پاکستانی دیہات اور سکیورٹی فورسز پر بلا اشتعال فائرنگ کی شدید مذمت کی ہے۔اس واقعے کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے افغان ناظم الامور کو طلب کیا اور شدید احتجاج ریکارڈ کروایا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ افغان سرحدی فورس نے چمن سرحد کے قریب ایک گاو¿ں میں مردم شماری کی سکیورٹی پر تعینات ایف سی کے اہلکاروں پر فائرنگ کی۔افغان حکام کو سرحد پر منقسم دیہات کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں مردم شماری کے بارے میں پیشگی طور پر آگاہ کر دیا گیا تھا تاہم افغان سرحدی فورس 30 اپریل سے مردم شماری کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔پاکستان میں دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل ریٹائرڈ طاہر مسعود نے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈیورنڈ لائن پاکستان کے نکتہ نگاہ سے بین الاقوامی سرحد ہے اور اس کے پار افغانستان کی کوئی عملداری نہیں جس افغانستان کو سمجھنا چاہیے۔ واضح رہے چمن کوئٹہ شہر سے اندازاً 120 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال میں واقع ہے۔یہ پاکستان اور افغانستان کے دوسرے بڑے شہر قندھار اور دیگر جنوبی علاقوں کے درمیان اہم گزرگاہ ہے۔ پاک افغان سرحد طورخم آج معمول کے مطابق کھلی رہے گی۔ پولیٹیکل انتظامیہ کے مطابق طورخم سرحد پر دونوں جانب حالات معمول کے مطابق ہیں۔
غم و غصہمظاہرے
