BEIRUT:
لبنان کی مزاحتمی تحریک حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نعیم قاسم نے سعودی عرب سے اپیل کی ہے کہ ان کے ساتھ تعلقات بہتر کریں اور اسرائیل کے خلاف متحدہ محاذ قائم کریں۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ کے سربراہ نعیم قاسم نے اسرائیل کی جانب سے شمالی لبنان پر تازہ حملوں کے بعد سعودی عرب سے مل کر لڑنے کی اپیل کی ہے۔
نعیم قاسم نے سعودی عرب پر زور دیا کہ وہ حزب اللہ کے ساتھ نئے باب کا آغاز کریں جو تین اصولوں تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات اور تحفظات دور کرنے، اسرائیل کو دشمن تسلیم کرنے اور ماضی کے اختلافات کو ختم کردیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ مزاحمتی ہتھیار صرف اسرائیل کے خلاف ہیں نہ کہ لبنان، سعودی عرب یا دنیا کے کسی اور ملک یا مقام کے خلاف ہیں۔
حزب اللہ کے سربراہ نے خبردار کیا کہ ان کی تنظیم پر دباؤ سے صرف اسرائیل کو فائدہ ہوگا اور اگر اس کو ختم کیا گیا تو پھر باری دوسری ریاستوں کی آئے گی۔
نعیم قاسم نے اسرائیل کو پہلے برطانیہ اور اب امریکا کی نوآبادیات سے تعبیر کیا اور بربریت کی انتہا کو پہنچنے کا مرتکب قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو جرائم کرنے کے لیے امریکا کی مکمل حمایت حاصل ہے اور یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سافٹ وار، پابندیاں اور معاہدہ ابراہم تمام حربے امریکا اور اسرائیل کو فوری اور فیصلہ کن فتح دلانے میں ناکام ہوئے ہیں اور اب کے لیے نسل کشی ہی واحد حل بن گئی ہے۔
نعیم قاسم نے کہا کہ اسرائیل کا 9 ستمبر کو قطر پر حملہ ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے اور قطر پر حملے کے بعد جو نتائج ہوں وہ اس سے پہلے والے نتائج سے مختلف ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ جب امریکا یہ قرار دیا کہ وہ اسرائیل کے مفادات کے لیے کام کرتا ہے تو کیسے ہم کسی امریکی یا غیرامریکی منصوبے پر اعتماد کرسکتے ہیں یا پھر رعایت پر رعایت کیسے تسلیم کرسکتے ہیں۔
حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ امریکا نومبر 2024 ہوئے جنگ بندی معاہدے کی شرائط کے تحت لبنان پر حزب اللہ کو غیرمسلح کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔
نعیم قاسم نے کہا کہ حزب اللہ مضبوط پوزیشن پر مذاکرات کے لیے تیار ہے اور اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کا عزم غیرمتزلزل ہے اور سرزمین سے اسرائیلی فورسز کا اخراج اور آزادی بنیادی مقصد ہے۔
قبل ازیں سعودی عرب نے قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون کا معاہدہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہیں جو ایران اور سعودی عرب پرانی چپقلش کا حصہ ہے کیونکہ حزب اللہ پشت پناہی ایران کر رہا تھا۔
سعودی عرب نے حزب اللہ کو 2016 میں دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا اور شام میں اس وقت کے صدر بشاالاسد کو تعاون کرنے، خانہ جنگی میں ملوث ہونے اور یمن کے حوثیوں کی مدد کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔