لاہور(خصوصی رپورٹ)ایف آئی اے کے سبکدوش ہونے والے ڈائریکٹر جنرل محمد املیش نے ایک ڈائریکٹر اور ایک پاکستان پولیس سروس ( پی ایس پی) کے افسر سمیت ایف آئی اے کے 20 افسران کے اثاثوں کی تحقیقات کا حکم دیا ہے ۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق ان میں وقار حیدر، نصر اللہ گوندل، طاہر جان درانی، عالم زیب، منور اقبال رانجھا، سہراب مالک، رضوان اسلم، حمود الرحمن مینگل، کوثر محمود، محمد افضل خان، خالد صلاح الدین، عدنان احمد جان، ہارون زمان، اسد افتخار اعوان، اظہر ریاض، غلام مرتضی، محمد جمشید خان، زبیر کمال، گلزار احمد اور تیمور صدیقی شامل ہیں۔ واضح رہے کہ 2013 میں چوہدری نثار علی خان کی جانب سے وزارت داخلہ کا منصب سنبھالنے کے بعد ایف آئی اے کے 62 کرپٹ افسران کی فہرست سامنے آئی تھی۔ اس فہرست کی توثیق کیلئے 2016 کے اواخر میں سفارشات دینے کیلئے کمیٹی قائم کی گئی جس نے اپریل 2017 میں اپنی رپورٹ پیش کی ۔ مذکورہ 62 کرپٹ افسران کو بلیک ، گرے اور وہائٹ درجوں میں تقسیم کیا گیا ۔ مذکورہ بالا 20 افسران جن کے اثاثوں کی تحقیقات کی گئی انہیں بلیک کیٹگری میں رکھا گیا۔ کمیٹی نے مزید تجویز کیا کہ تحقیقات مکمل ہونے تک ان افسران کو آپریشنل عہدوں پرتعینات نہ کیا جائے لیکن اس کے برخلاف انہیں اپنے عہدوں سے ہٹایا نہیں گیا۔ کمیٹی نے زیر تفتیش گرے گیٹگری کے چار افسران انسپکٹر عظمت، انسپکٹر فخر، انسپکٹر ارشاد اور اے ایس آئی تنویر کو دو سال تک واچ لسٹ میں رکھنے کی سفارش کی تھی۔ اسی طرح کمیٹی نے وہائٹ کیٹگری کے 12 افسران کے خلاف کیسز ختم کرنے کی بھی سفارش کی۔ اس کے علاوہ واپس کئے جانے اور ریٹائر ہونے والے 23 افسران کے خلاف کیسز بھی ختم کئے گئے ۔ اس حوالے سے موقف جاننے کیلئے متعدد بار کوششوں کے باوجود ترجمان وزارت داخلہ سرفراز احمد سے رابطہ نہ ہو سکا۔ اس کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ دوسری جانب پی ایس پی کے وقار حیدر جو ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں دائریکٹر آئی پی آر تعینات رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ چار سال سے انکوائریاں بھگت رہے ہیں۔ وہ اس وقت ایکس پاکستان رخصت پر ہیں اور جو کچھ ہو رہا ہے اس سے لاعلم ہیں، یکم جوان سے دوبارہ اپنے سرکاری فرائض سنبھال لیں گے ۔ انسپکٹر افضل نیازی نے اپنےخلاف کارروائی کی تصدیق کی تاہم انہیں متعلقہ مجاز حکام کی جانب سے نوٹس نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ وہ طلب کئے جانے پر جواب دہی کیلئے تیار ہیں۔