تازہ تر ین

معروف صحافی ضیا شاہدکی کتاب ( پاکستان کیخلاف سازش ) کی تقریب رونمائی

لاہور (طلال اشتیاق‘حسنین اخلاق ‘ اشفاق حسین ‘ ملک مبارک ‘سید شہباز‘تصاویر عمر فاروق) بہت اچھے لکھنے والے تحریر میں پاکستان کو ایسا بتاتے ہیںکہ یہ ختم ہورہا ہے قوم کو مایوسی میں مبتلا کیا جارہا ہے۔صحافت اور سیاست کے طالب علموں کے لیے ضیاءشاہد کی کتاب کا مطالعہ ضروری ے ہماری نئی نسل تاریخ اور ایسی کتب سے دور ہے ۔ جب پاکستان بنا تو بلوچستان نام کا کوئی صوبہ نہیں تھا یہ صوبہ تخلیق کیا گیا اورگوادر انتظامی طور پر اس میں شامل کیا گیا ۔18ویں ترمیم نے پاکستان کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔یہ کتاب انتباہ کررہی ہے کہ آج بھی سازشیں ہورہی ہیں۔ اس سے پہلے بھی ضیاشاہد کی بہت سی کتابیں شائع ہوچکی ہیں لیکن جتنا جذباتی وہ اس کتاب بارے تھے کسی اوربارے نہیںرہے۔ بہت سے اہم مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے کیونکہ ہم ایک اور بنگلہ دیش کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ آنے والی نسلوں کے لیے ریفرنس بک کے طور پر استعمال ہو گی اورایسی کتابیں لائبریری کا حصہ بن جاتی ہیں۔ان خیالات کا اظہارشعبہ ہائے زندگی کی معروف شخصیات نے چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں و صدر سی پی این ای ضیاءشاہد کی نئی تصنیف ” ولی خان سے الطاف تک….زبان اور نسل کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف سازش “ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔معروف قانون دان ایس ایم ظفرنے کہا کہ کتاب میں تین تصورات کی عکاسی کی گئی ہے جس میں گریٹر بلوچستان،پختونستان اور جناح پور ان کے متعلق تاریخ اور فطرت کا ایک،گریٹر بلوچستان کی ابتدا ماسکو سے ہوئی انہوں نے بلوچیوں کو اپنے ساتھ شامل کیا ہمارے طلباءوہاں تعلم حاصل کرنے کے لیے بلوائے گئے جن کی سوچ کا دھارا ماسکو کی پالیسی کے مطابق ڈھل گیا۔گریٹر بلوچستان اپنی موت خود مرچکا اور گریٹر ویژن اب ختم ہوچکا ہے جبکہ پختونستان میں ایک ایسی تبدیلی آئی جو اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے 9/11کے بعد افغانستان پر حملہ ہوا مشرف کی حکومت میں اجمل خٹک واپس آگئے اس کا تصور بھی اپنے انجام کو پہچ رہا ہے۔جناح پور کے بانی الطاف حسین تھے سکاٹ لینڈ یارڈ کا اللہ بھلا کرے جنہوں ان پر گرفت کی اور ہمیں ان کے متعلق بہت کچھ انکشافات کا پتا چلا ۔پاکستان کی سرزمین پر پاکستان کی بات تو ہورہی ہے کسی کو غدار کہنے کا ہمیں کوئی حق نہیں ہے ہم ان کی نیت پر شک کرسکتے ہیں ان کی سوچ سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے ۔معروف صحافی اور چیف ایڈیٹر روزنامہ پاکستان مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ ضیاءشاہد سے عشروں کا ساتھ ہے ان کے اندر اللہ تعالیٰ نے جو قوت عمل رکھی ہے یہ اس عمر میں جتنا کام کررہے ہیں میں اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا ہوں۔کتاب میں حقیقت بیان کی گئی ہے صحافت اور سیاست کے طالب علموں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے ہماری نئی نسل تاریخ اور ایسی کتب سے دور ہے ۔ایسی کتابیں چھپتی رہنی چاہیے جن کو تاریخ کے متعلق علم نہیں ہوگا وہ کیا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ فوج اور عدلیہ وزیراعظم کھانا بند کریں۔ یہ کتاب ہمیں اپنی تاریخ سے واقفیت فراہم کرتی ہے۔ترجمان حکومت پنجاب ملک احمدخان نے کہا کہ میں ضیاشاہدکی تحریروںکا بہت پہلے سے قاری ہوںانہوں نے اپنی اس کتاب میں تاریخی حوالوں سے جو حقائق بیان کئے ہیں وہ سب نے تسلی کئے ہی©ں۔انہوں نے کہا کہ ضیا شاہدنے اپنی کتاب میں جن کرداروں کا ذکر ہے ان پر تو ایک ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ان کی یہ کتاب ان تمام افرادکا احاطہ کرتی ہے جو ہمیں فالٹ لائن میں نظرآتے ہیں۔ملک احمدخان نے مزیدکہا کہ دوقومی نظریئے کی بنیاد خطرے میں نظرآتی ہے اور جو شکل کراچی میں اختیارکی گئی اس پر توکھل کربات ہونی چاہیئے،آج بھی افغانیت کا جذبہ بہت حدتک غالب نظرآتاہے ،ولی خان سے اسفندیارولی تک کاسفر کس طرح طے ہوایہ بھی کتاب میں موجودہے،انہوں نے کہا کہ ضیاشاہدنے بلوچستان بارے بہترین اسلوب بیان کئے ہیں جو بہت معلوماتی ہیں۔سندھ میں زبان اور کسی محرومی کی بنیادپر جوجرائم کئے گئے ان کا ذکر بھی اس کتاب میں موجود ہے،یہ ضیا شاہدکی دلیرانہ تحریرہے جنہوں نے آنے والی نسلوں کے لئے ایک راہ متعین کی ہے۔سید سجادبخاری نے کہا کہ ضیاءشاہد کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں اتنی بہترین کتاب لکھی ہے جو آنے والی نسلوں کے ریفرنس بک کے طور پر استعمال ہو گی ایسی کتابیں لائبریری کا حصہ بن جاتی ہیںانہوں نے کہا کہ بہت سی ایسی شخصیات ہیں جن کی آنکھوں نے تاریخ دیکھی ہے لیکن وہ سب اپنے اندر دبا کر بیٹھے ہیںاس کو بیان نہ کیا جائے تو کیا فائدہ انہوں نے کہا کہ تحریریںہمیشہ زندہ رہتی ہیںاور یہ کتاب بھی تاریخ کا حصہ بنے گی ۔معروف کالم نگارارشاد احمد عارف نے کہا کہ ضیا ءشاہد نے اس کتاب پر بہت محنت کی ہے یہ ایک تحقیقی کتاب ہے اس سے پہلے ایسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی اس کتاب مین تاریخ بیان کی گئی ہے انہوں نے کہا اس کتاب میں پاکستان کے خلاف سازششیں کرنے والوں کو بے نقاب کیا گیا ہے ملک دشمن کرپٹ اور سازششیں کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے تو کوئی بھی کبھی سر نہیں اٹھائے گا ۔دفاعی تجزیہ نگارجنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ نے کہا کہ ضیاءشاہد کی کتاب ایک مستند تاریخ ہے میں اس کی تائید کرتا ہوں ،سازششیں دم توڑ رہی ہیں ہم سب کو مل کر پاکستان کے لئے کام کرنا چاہیے جو کہ ہم نہیں کر رہے، پاکستان توڑنے کے ذمہ داروں اور سہولت کاروں کو پکڑنا ہو گا۔جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات امیر لعظیم نے کہا کہ ضیا ءشاہد اتنی اعلیٰ کتاب لکھنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں یہ کتاب ایک تاریخ ہے ،پاکستان کے خلاف جتنی بھی سازششیں ہو رہی ہیں ہمیں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرناچاہیے ،الطاف حسین کو کراچی میں کو ئی بھی چیلنج نہیں کر سکتا تھا اس نے پاکستان کے خلاف نعرہ بلند کیا تو سب نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا سازششیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں آگے بھی ہو گی کسی ایسی قو می شخصیت کی ضرورت ہے جسے ملک و قو م کی فکر ہو ،معروف کالم نگارقیوم نظامی نے کہا کہ یہ ایک اعلیٰ معیارکی تحقیقی کتاب ہے جس کے تمام حوالے مستند اور معتبرہیں۔ ضیاشاہدکی یہ کتاب انتباہ کررہی ہے کہ آج بھی سازشیں ہورہی ہیں،اسی کتاب میں موجود ہے کہ عبدالغفارخان نے گاندھی کے پاﺅں دھوئے تھے جبکہ اس کتاب میں ہی یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ اچکزئی نے اپنی قومیت افغانی لکھی تھی۔ قیوم نظامی نے مزیدکہا کہ مجھے اس کتاب میں ایک تشنگی محسوس ہوئی ہے وہ یہ کہ ان مسائل کا حل بھی پیش کیا جائے اور اس کے لئے ایک باب کا اضافہ کیا جائے،انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کے لوگوں کو یکساں سہولیات نہیں ملیں گی تو ایسے ہی مسائل پیداہوں گے۔ ماورا پبلشرکے سی ای اوخالدشریف نے کہا کہ اس سے پہلے بھی ضیاشاہد کی بہت سی کتابیں شائع ہوچکی ہیں لیکن جتنا جذباتی وہ اس کتاب بارے تھے کسی اوربارے نہیں،وہ اس کی ایک ایک سطر بارے فکرمندتھے اور ان کی خواہش تھی کہ کسی طرح بھی کتاب میں کوئی کمی نہ رہ جائے،انہوں نے مزید کہا کہ مختلف اخبارات میں اب تک اس کتاب کے28اشتہارات شائع ہوچکے ہیں اور پشاورسے کراچی تک یہ ہرایک بک سٹال پرموجودہے اوریہ کتاب اخبارکی طرح بک رہی ہے۔ایڈیٹر روزنامہ مشرق کامران ممتازنے کہا کہ ضیاشاہدنے جب بھی لکھا تمام حلقوں نے اسے بہت زیادہ پسندکیا، انہوں نے اپنی کتاب میں بہت سے اہم مسائل کی نشاندہی کی ہے لیکن ہم ایک اور بنگلہ دیش کے متحمل نہیں ہوسکتے۔معروف کالم نگارسرفرازسیدنے کہا کہ ضیاشاہدنے بہت تحقیق کرکے کتاب لکھی ہے جس میں الطاف حسین،ولی خان، اسفندیارولی اور اچکزئی بارے میں حقیقت بیان کی گئی ہے،دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ کتاب میں اجمل خٹک کا بھی ذکر ہے جس نے افغانستان میں ریڈیو کے ذریعے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کیا،ضیا شاہدکی کتاب نے اس بات کی بھی تصدیق کردی ہے کہ مفتی محمودنے کہا تھا کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں ہیں، سرفرازسید نے مزیدکہاکہ ایک ضیاشاہد ایک کتاب ججوں اور صحافیوں بارے بھی ہونی چاہیئے۔ ایڈیٹر نئی بات عطاءالرحمن نے کہا کہ میڈیا مارکیٹ میں یہ بات مشہور ہے کہ جس صحافی نے ضیاشاہد کے ساتھ کام کیا ہواسے نوکری پر ضروررکھا جاتاہے کیونکہ اس نے سب کچھ سیکھا ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والے عناصر کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے، یہ کتاب پاکستان کی تاریخ اور ہر باشعورآدمی کے لئے تعلیم وتربیت کاسامان مہیا کرتی ہے۔کالم نگار صوفیہ بیدارنے کہا کہ ضیا شاہد نے وطن کی محبت میں تاریخ لکھ ڈالی ہے۔انہوں نے ان تمام واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا،جب ادب اور صحافت ایک ہوجائیں تو خوبصورت تحریر بن جاتی ہے۔ ضیاشاہد کے دل میں قائداعظم کی بے پناہ محبت موجود ہے جس کا اظہارکو برملا کرتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں کو بے نقاب کرکے اپنی صحافتی اور قومی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے موجودہ دورکی ترجمانی کی ہے۔ سینئر صحافی شفقت حسین نے کہاکہ ضیاشاہد دبنگ لہجہ رکھنے والے صحافی ہیں جنہوں نے نہایت دل گردے سے ان کرداروں کوبے نقاب کیا ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain