تازہ تر ین

حکومتی ادارے ریکارڈ تبدیل ، جے آئی ٹی کے اہم انکشافات

اسلام آباد (این این آئی، صباح نیوز) سپریم کورٹ میں پاناما لیکس عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ مختلف اداروں کا ریکارڈ تبدیل کرنے کے ساتھ جے آئی ٹی کے حوالے کرنے میں پس وپیش سے کام لیا جا رہا ہے۔ پیر کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی طرف سے پاناما لیکس سے متعلق تحقیقات کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو بتایا گیا کہ تفتیش کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں بی بی سی کے مطابق اس تحریری درخواست میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کن افراد یا شخصیات کی طرف سے رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔تفتیشی ٹیم کے سربراہ واجد ضیاءکی طرف سے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو لکھی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایسے حالات میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں 60 روز کے اندر تفتیش مکمل نہیں ہوسکتی۔ تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی پارٹی کی حیثیت سے نہیں بلکہ وفاق کے نمائندے کی حیثیت سے جے آئی ٹی کے الزامات کے بارے میں جواب داخل کریں۔ اس کے علاوہ کہا گیا ہے کہ اگر ان الزامات میں کوئی حقیقت ہے تو پھر ایسے افراد کی نشاندہی کریں جو تفتیش میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی ڈیڈ لائن میں کام کررہی ہے ¾اگر کارروائی میں رکاوٹ ڈالی گئی تو جے آئی ٹی کیسے کام کرےگی ¾ جے آئی ٹی نے محدود وقت کے اندر کام کرنا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنی شکایت میں سنجیدہ الزامات لگائے ہیں اور متعلقہ ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کا شکوہ کیا گیا ہے، جے آئی ٹی نے کہا ہے کہ ریکارڈ ٹیم کے حوالے کرنے میں پس و پیش سے کام لیا جا رہا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی میں بیان ریکارڈ کرنے والے سپریم کورٹ کو خط لکھتے ہیں جس کے بعد وہ خط میڈیا کو جاری کردئیے جاتے ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب حکومت کو یہ زیب دیتا ہے کہ جے آئی ٹی کے خط کو میڈیا کے حوالے کرے؟جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ فیڈریشن کی نمائندگی کریں نہ کہ ایک شخص کی۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بہت سنجیدہ الزامات ہیں کہ کچھ ادارے ریکارڈ تبدیل کر رہے ہیں اگر رکاوٹیں رہیں تو جے آئی ٹی کیلئے 60 روز میں اپنا کام مکمل کرنا مشکل ہو گا، اٹارنی جنرل آفس (آج) منگل تک اپنے جوابات جمع کرائے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ سنجیدہ الزامات ہیں ان کے دور رس نتائج نکلیں گے۔ پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کی تصویر لیک ہونے کے حوالے سے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی جبکہ ہفتہ کو اداروں کی طر ف سے رکاوٹوں کے حوالے سے جے آئی ٹی کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ تفتیش کے حوالے سے ریاستی ادارے رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیںاس لئے 60دن میں تفتیش مکمل نہیں ہوسکتی ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں سنگین الزام لگایاہے کہ حکومتی ادارو ں کی طرف سے ریکارڈتبدیل ، ٹمپر کیا جارہا ہے اور اس میں جعلسازی بھی کی جارہی ہے ۔حسین نواز کی تصویر لیک ہونے اور جے آئی ٹی کو درپیش رکاوٹوں کے حوالے سے کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے کی۔ اس موقع پر پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے جوڈیشل اکیڈمی سے حسین نواز کی تصویر لیک ہونے سے متعلق سر بمہر رپورٹ جمع کرائی۔ ذرائع کے مطابق رپورٹ میں ساری تفصیلات درج ہیں کہ حسین نواز کی تصویر کیسے لیک ہوئی اور کس نے لیک کی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث جے آئی ٹی کی پیش کردہ رپورٹ کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس موقع پر خواجہ حارث نے کہا کہ ہمیں جے آئی ٹی پر تحفظات ہیں جبکہ ایک مسئلہ جے آئی ٹی میں ویڈیو ریکارڈنگ کا بھی ہے، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ پر کوئی قانونی پابندی نہیں ہے، ویڈیو ریکارڈنگ کا مقصد انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ تیار کرنا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کو محدود وقت میں کام مکمل کرنے کا کہا گیا جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ جے آئی ٹی کا جواب پڑھے بغیر دلائل دینا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی ہے، آپ جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات بھی جمع کرا سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو اعتراض نہ ہو تو خواجہ حارث کو رپورٹ دی جاسکتی ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل رپورٹ کا جائزہ لے لیں، جس نے تصویر لیک کی اس کے خلاف کیا کارروائی کی جاسکتی ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے کہا کہ جے آئی ٹی کو رپورٹ پبلک کرنے پر اعتراض نہیں۔عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو تصویر لیک ہونے کے معاملے پر رپورٹ کا جائزہ لینے کی ہدایت کردی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی ڈیڈ لائن میں کام کررہی ہے، اگر کارروائی میں رکاوٹ ڈالی گئی تو جے آئی ٹی کیسے کام کرے گی، جے آئی ٹی نے محدود وقت کے اندر کام کرنا ہے۔جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ تمام گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے جاتے ہیں اور جے آئی ٹی کو ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنی شکایت میں سنجیدہ الزامات لگائے ہیں اور متعلقہ ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کا شکوہ کیا گیا ہے، جے آئی ٹی نے کہا ہے کہ ریکارڈ ٹیم کے حوالے کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ جے آئی ٹی میں بیان ریکارڈ کرنے والے سرکاری افسران بعد میں سپریم کورٹ کو خط لکھتے ہیں اوروہ خط میڈیا کو جاری کردیے جاتے ہیں اس معاملہ کے قانونی پہلو کا بھی جازئہ لیا جائے کیا ایسا کیا جاسکتا ہے ۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب حکومت کو یہ زیب دیتا ہے کہ جے آئی ٹی کے خط کو میڈیا کے حوالے کرے؟جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ فیڈریشن کی نمائندگی کریں نہ کہ ایک شخص کی۔حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے استدعا کی کہ ویڈیو ریکارڈنگ کا بھی مسئلہ ہے، ویڈیو ریکارڈنگ بیان کا ٹرانسکرپٹ تیار کرنے کے لیے کی جاتی ہے، جے آئی ٹی میں پیش ہونے والوں کی ویڈیو ریکارڈنگ کو روکا جائے کیونکہ جے آئی ٹی کی ریکارڈنگ لیک ہوسکتی ہے۔جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ سیکشن 162 کے تحت ویڈیو ریکارڈنگ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔جبکہ جسٹس اعجاز الالحسن نے کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ کسی گواہ کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتی۔بعدازاں عدالت نے اٹارنی جنرل اور حسین نواز کے وکلا کو جے آئی ٹی کے جواب پر جواب الجواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کرتے ہوئے خواجہ حارث کو کہا کہ آپ کا جواب پرسوں سن لیں گے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain